مہذب معاشرہ اور اختلاف رائے
تعمیری تنقید کے بغیر کسی بھی کام، کسی بھی عمل یا منصوبے کی کامیابی ممکن نہیں
گزشتہ ہفتے ایکسپریس میڈیا کے سی پیک پر منعقدہ سیمینار میں سندھ کے موجودہ گورنر نے سیمینار کے منتظمین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سیمینار میں جو مثبت فضا ہے وہ اس لیے ہے کہ انھوں نے تنقید کرنے والوں کو مدعو نہیں کیا۔ انھوں نے مزید فرمایا کہ ٹاک شوز میں بھی ایسا ہی مثبت تاثر پیش کریں۔ خیر وہ تو صوبے کے گورنر ہیں اپنے خیالات کا برملا اظہار کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ''جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے'' کی منزل پر فائز ہیں، مگر صحافت جو کسی ریاست کا اہم ستون قرار دی جاتی ہے اس کا اس طرز فکر پر اظہار مسرت البتہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
تعمیری تنقید کے بغیر کسی بھی کام، کسی بھی عمل یا منصوبے کی کامیابی ممکن نہیں، تنقید کو منفی قرار دینا ذہنی پسماندگی کی علامت ہے۔ تنقید کے بغیر کسی کام کے اچھے برے پہلو سامنے نہیں آ سکتے، کیونکہ کام کرنے والا یا منصوبہ ساز ذہن اپنے منصوبے کو پوری دلچسپی، توجہ اور قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کرتا ہے پھر بھی ایک ذہن کی تخلیق (پیداوار) ہونے کے باعث اس کی خامیوں یا کمزوریوں سے واقف نہیں ہوتا۔ جب دوسرے ذہن اسی کام کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ کام یا منصوبے کے دیگر پہلوؤں پر بھی توجہ دیتے ہیں پھر جو کمی یا زیادتی انھیں اس میں نظر آتی ہے وہ اس کا اظہار کرتے ہیں یہ اظہار بھی خلوص پر مبنی ہوتا ہے تاکہ کام کا آغاز ہونے سے پہلے ہی اس کے نقائص دور کردیے جائیں اس اظہار رائے کو تنقید کہہ سکتے ہیں۔ مانا کہ کچھ لوگ تنقید برائے تنقید اور دوسروں کے کام میں غلطیاں نکالنے کے لیے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، مگر ان کے الفاظ اور زاویہ نظر سے اہل نظر، باشعور اور مثبت انداز فکر رکھنے والوں کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ تنقید کم اور اعتراض زیادہ ہے۔
گورنر صاحب نے ٹاک شوز کو بھی ایسی فضا میں منعقد کرنے کا کہہ کر (ان کے خیال میں یہ مثبت فضا ہے اور ہمیں ان کے خلوص نیت پر شک بھی نہیں) یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم دوسروں کے نکتہ نظر کو درخور اعتنا سمجھنے سے قاصر ہیں، اختلاف رائے کو برداشت کرنے سے یکسر محروم ہوچکے ہیں۔ ٹاک شوز یا اور کسی تقریب میں ہم خیال افراد بلا چوں و چرا اپنا موقف پیش کرتے رہیں یا ایک دوسرے کی ''ہاں'' میں ''ہاں'' ملاتے رہیں تو فضا تو آلود نہیں ہوتی، مگر ایسے پروگرام اختلافی نکتہ نظر کو پیش کرنے سے بھی محروم ہوتے ہیں، جو کوئی قابل تعریف بات نہیں۔ اختلاف ہونا اور پھر اس کا بھرپور اظہار ہی (اپنے اپنے انداز میں، مثبت بھی) مہذب معاشرے کی تشکیل کا باعث ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم دوسروں کو خود سے کمتر سمجھیں یا اختلاف کو لڑائی جھگڑے بدگوئی اور ذاتیات پر حملے کے لیے استعمال کریں۔ مہذب انداز گفتگو کے ذریعے اختلافی خیال پیش کرنا معاشرے کو ہر زاویے سے آگے بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں، ورنہ معاشرہ گھٹن کا شکار ہوجاتا ہے اور یہ گھٹن کسی بھی منفی صورتحال کا باعث ہوسکتی ہے۔
بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ پوری قوم کو ایک خیال، ایک نکتہ نظر کا پابند کردیں؟ ہر انسان اپنے اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کے مطابق کسی ایک نقطہ نظر کا حامل ہوتا ہے، جس پر جو گزری ہے وہ اس کا اظہار کرے گا نہ کہ جیسا آپ چاہیں؟ جب ملک میں وسائل، تعلیم، صحت، رہائش اور طرز حیات یکساں نہ ہو (جو ہو بھی نہیں سکتا) تو یکساں انداز فکر کیسے ممکن ہے؟ ملک میں ہر وقت ہر جگہ اسلام کے نفاذ کی باتیں تو ہوں مگر اسلامی معاشرے کی تشکیل کسی کی ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ رات دن محنت کرنے والا ایک وقت کی روٹی سے محروم اور حکمران بنیادی ضروریات زندگی سے بڑھ کر پرتعیش زندگی بسر کرنے کے علاوہ بھی مزید ملک و بیرون ملک حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں تو کیا افراد قوم (محروم طبقے کو) کو اس صورتحال پر اظہار رائے کی اجازت بھی نہ ہو؟ اب تک صاحبان اقتدار کی لوٹ کھسوٹ پر کبھی دھیان نہیں دیا گیا۔ کئی وقت سے بھوکے کم عمر بچے نے بھی اگر ایک روٹی چرالی تو اس کو چور قرار دے دیا گیا، مگر حکمرانوں کی لوٹ مار پر بات کرنے کو غداری اور صاحبان اقتدار کے ملکی وقار و سالمیت کے منافی ہوں اقدامات کو طرز حکمرانی قرار دے دیا جائے۔
اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور حکمرانوں کی اس سے لاعلمی کیا حکومت کی ناقص کارکردگی کے زمرے میں نہیں آتی؟ کیا یہ قومی جرم نہیں؟ ہاں اس سلسلے میں زبان کھولنا ضرور جرم قرار دیا جائے گا۔ 69 سال میں ملک کا جو حشر کیا گیا ہے وہ ایسے ہی انداز فکر کے باعث ہوا ہے کہ ہم بدعنوان حکام کی ہاں میں ہاں ملا کر اپنے لیے آسانیاں، مراعات اور بڑے بڑے عہدے بلا کسی لیاقت و اہلیت کے حاصل کر سکیں، عوام میں رات دن محنت کرکے حقیقی طور پر علوم پر دسترس رکھنے والے کسی روایتی سیاسی گھرانے سے تعلق نہ ہونے کے باعث محنت اور جذبہ حب الوطنی قابلیت و اہلیت کے باوجود بیروزگاری اور فاقوں کا شکار ہیں یا پھر غیر ملک جاکر اپنی لیاقت سے ایک بھرپور آسودہ زندگی بسر کریں۔ لگتا ہے کہ ہمارے سارے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کا یہی منصوبہ ہے کہ ہر سوچنے والے ذہن کو کبھی فکر معاش سے آزاد نہ ہونے دو کہ کہیں وہ اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر کچھ کرکے ہمارے مقابل نہ آجائے۔ اس پر عرصہ حیات اس قدر تنگ کیا جائے کہ وہ یا تو ہمارے خلاف زہر اگلنے لگے اور ہم اس کو غدار قرار دے کر پس زنداں ڈال کر اس سے نجات حاصل کرلیں، یا وہ خود ملک چھوڑ کر چلا جائے۔
گزشتہ برسوں جس کثرت سے ہمارے ہنرمند، تعلیم یافتہ افراد وطن چھوڑ کر گئے ہیں وہ دوسرے ممالک کو اپنی قابلیت سے فائدہ پہنچا رہے ہیں یہ کسی زندہ قوم کے لیے المیہ سے کم نہیں۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ اب ملک میں روشن خیال، باہمت اختلاف رائے رکھنے والے یا تو رہے نہیں یا پھر حالات سے مجبور ہوکر گوشہ گمنامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں اس صورتحال سے فائدہ اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے والے اٹھا رہے ہیں۔ جہالت کا شکار اپنے نظریاتی اور مسلکی مخالفین کو دہشتگردی کا نشانہ بناکر دندناتے پھر رہے ہیں۔ بہت سے دعوؤں کے باوجود اتنے وسائل بروئے کار لاکر بھی اب تک اس وحشت و بربریت پر قابو کیوں نہ پایا گیا؟ محض اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا ماحول پیدا نہ کرنے کے باعث۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ذرایع ابلاغ کو بھی ''جی حضوری'' کا عادی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان کو راغب کیا جا رہا ہے کہ پرامن و پرسکون پروگرام پیش کرنے کے لیے صرف ایک ہی نکتہ نظر (جو یقیناً اہل اقتدار کا ہو) کو پیش کریں۔ خدا اس ملک کا حامی و ناصر رہے اور وہ وقت بھی آئے کہ ہر کوئی اپنی رائے کا برملا اظہار کرکے بھی محفوظ رہے آمین ثم آمین۔