فکر آخرت میں اعمال کی اصلاح
انسانی زندگی کے کسی شعبے میں سیاسی، معاشی، قانونی اور اخلاقی جہاں کوئی کجی، خامی، افراط و تفریط پائی جاسکتی ہے۔
یہ دنیا اور اس کے تمام سازو سامان، زینت اور آرائش سب فانی ہیں۔ فوٹو : فائل
ﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا، اسے اپنی خلافت و نیابت سے سرفراز فرمایا اور عقل و شعور کی لازوال نعمت سے مالا مال کیا۔ لیکن انسان مادی اور سائنسی ترقی کے باوجود آج بے چین و مضطرب ہے۔
اس کے فکر کے افق پر خوف ناک اندیشوں اور کرب ناک تصورات کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ نرم و گداز صوفوں اور بستروں پر بیٹھ کر بھی اسے سکون و راحت اور سرور و اطمینان نہیں ملتا۔ نہ جانے کیسی کیسی رنگینیاں اس کے سامنے آتی ہیں اور ان کے ذریعے وہ طمانیت حاصل کرنا چاہتا ہے، مگر اپنے مقصد میں کام یاب نہیں ہو پاتا۔ دولت کے انبار اس کے سامنے لگے رہتے ہیں، نوٹوں کے بستر پر بھی یہ سو سکتا ہے، مگر پھر بھی راحت و آرام میسر نہیں آتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا سبب اور وجہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟
قرآنِ حکیم، وہ صحیفۂ ربانی ہے جو خالقِ کائنات نے دُنیائے انسانیت کی رشد و ہدایت کے لیے اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر نازل فرمایا اور اس مقدس رسولؐ کے ذریعے یہ نسخۂ کیمیا ہمیں عطا فرمایا، جو خود بھی ہر قسم کی خامی سے پاک ہے اور اس کے ساتھ انسانی زندگی کے کسی شعبے میں سیاسی، معاشی، قانونی اور اخلاقی جہاں کوئی کجی، خامی، افراط و تفریط پائی جاسکتی ہے اس کی اصلاح اور درستی کی بھی پوری صلاحیت و استعداد رکھتا ہے۔ اس مقدس کتاب سے ہی ہمیں مذکورہ بالا سوالوں کا جواب مل سکتا ہے کہ آخر سکون و آرام آج انسان کو کیوں میسر نہیں آتا۔
ارشاد باری تعالی ہے: ''خبردار، ﷲ کا ذکر دلوں کا چین ہے۔''
معلوم ہوا سکون اور اطمینان تو ذکر ﷲ میں ہے، یعنی ذکرِ خداوندی اور عبادت ربانی سے غفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے کے باوجود اطمینان اور چین کی زندگی نہیں مل پاتی ہے۔ دنیا اور مال کی محبت اور ان میں حد سے زیادہ انہماک ہی کا یہ بُرا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے سروں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ظلم و ستم، سرکشی و عدوان کی انتہا ہو رہی ہے، ظالم اپنی پوری قوت سے امن و امان کو نیست و نابود کر رہا ہے۔ نت نئے حربے اور اسلحے انسان و امن کی تباہی اور بربادی کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں۔ مگر ہمیں اس کی فکر ہی نہیں کہ آخر کس طرح ہم ان تمام حملوں سے خود کو بچانے کی ترکیب کرسکتے ہیں۔
یہ دنیا اور اس کے تمام سازو سامان، زینت اور آرائش سب فانی ہیں۔ اس دنیائے فانی میں جو بھی آیا ہے، اسے ایک نہ ایک دن ضرور یہاں سے اپنا رختِ سفر باندھنا اور دوسری جگہ کی تیاری کرنا ہے۔ یہ دنیائے ناپائیدار اس قابل نہیں کہ اس میں جی لگایا جائے اور اس کی محبت میں دل بستہ اور اس کی چاہت میں ایسے حواس باختہ ہو جائیں کہ اپنے خدا کو اور اپنے انجام کو بھی فراموش کردیں۔ اس دنیا کی محبت، اس کے ساز و سامان میں انہماک اور حد سے زیادہ اس کی رنگینیوں میں ملوث رہنے والے مسلمان اپنے پیار ے آقا ہادی دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے یہ ارشادات عالیہ تو بہ غور پڑھیں، سرکار مدینہ ﷺ فرماتے ہیں : '' اس شخص پر انتہائی تعجب ہے جو جنت پر ایمان رکھتے ہوئے دنیا کے حصول میں سرگرم رہے۔''
رسولِ رحمتؐ نے فرمایا : '' دنیا سبز اور شیریں ہے، ﷲ تعالیٰ نے تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور وہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے، بنی اسرائیل پر جب دنیا فراخ کر دی گئی تو انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں زیورات، کپڑوں، عورتوں اور عطریات کے لیے وقف کر دی تھیں اور ان کا انجام تم نے دیکھ ہی لیا۔''
ہماری بربادی کی اور بہت سی وجوہات اور اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے آج دنیا کی محبت اور مال و دولت کے حصول میں آخرت کو بھی فراموش کر دیا ہے۔ جب کہ اسلام میں آخرت کی تیاری کے لیے بڑی تاکید آئی ہیں۔ ہر نفس کو اس فانی اور ناپائیدار دنیا سے رخت سفر باندھ کر عالم جاودانی کی طرف ایک نہ ایک دن ضرور جانا ہے جس کی حقیقت کا انکار ممکن نہیں، جہاں ماں باپ، اولاد و اقارب، دوست، احباب کوئی بھی کام آنے والا نہیں۔ تو جب یہ مبنی بر حقیقت ہے کہ عالم آخرت کی طرف سب کا گذر ہوگا پھر اس کی تیاری کیوں نہیں کی جاتی۔۔۔۔ ؟
قرآن مجید میں بھی اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ دنیاوی زندگی تھوڑی اور اخروی زندگی ہی کام آنے والی ہے مگر پھر بھی یہ دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھنے والا غافل انسان اپنی ساری جدوجہد اور دوڑ دھوپ فقط دنیوی زندگی کو باعزت اور آرام دہ بنانے کے لیے وقف کر رہا ہے اور اسے اپنی عاقبت سنوار نے کا خیال بھی نہیں آتا۔ جوں جوں دنیا کی محبت اس کے دل میں گھر بناتی جاتی ہے، یہ غافل انسان اتنا ہی فکرِ آخرت سے دور ہوتا جاتا ہے۔
اسلام میں آخرت کا تصور بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو اس کی بہت زیادہ تیاری کی تاکید کی گئی ہیں۔
حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اپنی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں : ''حضور سرور دو عالمؐ کی ہر بات ویسے تو اہل مکہ کے لیے حیرت انگیز تھی، وہ لوگ حضورؐ کی باتیں سنتے اور حضورؐ کے اعمال کا مشاہدہ کرتے تو ان پر عجیب قسم کی سراسیمگی طاری ہوجاتی۔ سب سے زیادہ جس چیز نے انہیں پریشان کر رکھا تھا وہ نبی کریمؐ کا یہ ارشاد تھا کہ اس جہان رنگ و بو کے بعد ایک اور جہان بھی ہے، اس چند روزہ زندگی کے بعد ایک ایسی زندگی بھی ہے جس کی انتہا نہیں۔ قیامت کے دن انہیں اور ان کے آبا و اجداد کو قبروں سے نکال کر رب کائنات کے سامنے پیش کیا جائے گا، اور وہاں ان سے ان کے چھوٹے بڑے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ ان کی عقل جس پر انہیں بڑا گھمنڈ تھا وہ اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے ہرگز تیار نہ تھی۔
ہزاروں صدیوں کی پہنائیوں میں ان کی مشت غبار کے بکھرے ہوئے ذرے کون جمع کرے گا اور پھر ان میں روح کیسے پھونکی جائے گی، وہ اس مسئلے پر شب و روز غور کرتے، حضورؐ سے بحث و تمحیص کرتے۔ ان کی مجالسں میں اس موضوع پر گرما گرم مذاکرے ہوتے، لیکن وہ کسی صورت میں وقوعِ قیامت کو ماننے کے لیے خود کو تیار نہ پاتے۔ اس نہ ماننے میں ایک نفسیاتی ججھک بھی سد راہ بنی ہوئی تھی اگر وہ وقوعِ قیامت کو تسلیم کرتے ہیں تو ان کی زندگی کا نقشہ تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے۔
اس معاشرے میں انہیں لوٹ کھسوٹ کی جو آزادی میسر تھی، عیش و طرب کی محفلیں جن میں لاہوش اور بدمست جوانیاں ساری رات محو رقص رہا کرتیں۔ بادۂ ارغوانی کے بلوریں جام مصروف گردش رہتے، جہاں کسی ضرورت مند کا استحصال مباح تھا، جہاں قرض خواہ اپنے مقروض سے من مانی شرح پر سود لیا کرتا تھا۔ اگر وہ روز حساب پر ایمان لاتے ہیں تو ان کو تمام لغویات سے دستِ کش ہونا پڑتا، جس کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ اس سنگ گراں کو ان کی راہ سے ہٹانے کے لیے قرآن کریم میں متعدد بار بڑے زور دار دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ پہلے دوٹوک الفاظ میں یہ بتادیا گیا ہے کہ تمہارے انکار سے حقیقت بدل نہیں سکتی، قیامت برپا ہوگی۔ تم خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروگے اور اس کا اعتراف بھی کرو گے۔
لیکن اس وقت تمہارا قیامت پر ایمان لانا تمہیں جہنم سے بچا نہ سکے گا۔ پھر ان کے اس اعتراض کا جواب دینا کہ ان کے منتشر ذروں کو کیسے جمع کیا جائے گا، بتا دیا کہ ان ذروں کو جمع کرنے والا قادر مطلق اور حکیم و علیم ﷲ تعالیٰ ہے جس کے لیے تمہیں، از سرِ نو زندہ کرنا قطعاً مشکل نہیں ہے۔
اس کے بعد قیامت برپا کرنے کی حکمت بتائی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان ساری عمر لوگوں پر ظلم و ستم کرتا رہے، غریبوں کو لوٹتا رہے، اپنے خالق کی نافرمانی کرتا رہے اور دوسرا شخص ساری عمر بنی نو ع انسان کی خدمت کرتا رہے۔ دکھیوں کی غم گساری، محتاجوں کی امداد، یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی کرتا رہے۔ اپنے رب کریم کی اطاعت سے سر مو انحراف نہ کرے ان دو شخصوں کے عملوں میں اتنے سنگین تفاوت کے باوجود اس کا نتیجہ یک ساں رہے، اس سے بڑی نا انصافی کیا ہوسکتی ہے، بتا دیا کہ قیامت برپا کرنے میں حکمت الہٰی یہ ہے کہ بدکاروں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے اور نیکوں کو ان کی نیکی کا اجرِ عظیم مرحمت فرمایا جائے۔'' (ضیاء القرآن، جلد 5)
اس طرح کفار و مشرکین جو مال و اسباب فانی پر تکیہ کرکے صرف دنیوی زندگی میں راحت و سکون اور کام یابی اور کام رانی کا تصور کیے ہوئے تھے، ان کو طرح طرح کی حکمتوں اور دلائل سے یومِ آخرت و یومِ قیامت کا ثبوت دیا گیا، اور بتایا گیا کہ ان حجتوں اور دلیلوں کے بعد بھی اگر وہ یومِ آخرت اور یومِ جزا پر ایمان و عقیدہ نہ رکھیں تو پھر اپنا انجام دیکھ لیں گے۔
قرآن مجید کی کئی ایک آیات میں اتنے موثر پیرائے میں بیان سمجھایا گیا اور قیامت اور آخرت کے بارے میں جن شکوک و شبہات میں وہ بُری طرح گرفتار تھے کئی قسمیں کھا کر ان کا ازالہ کیا گیا ہے کہ جن کو پڑھ کر ایک فکر رکھنے والا کسی قسم کی چون چرا کی جرأت نہیں کرسکتا۔ انہیں بتا دیا گیا کہ وہ ذات پاک ہے جس کا علم اتنا وسیع اور محیط ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو وہ جانتا ہے اس کے آغاز کی بھی اسے خبر ہے اور اس کے انجام کار پر بھی وہ آگاہ ہے۔ جس کے جود و سخا کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے جان دار کو اس کی مخصوص خوراک، مطلوبہ مقدار میں مناسب اوقات پر فراہم کر رہا ہے اور جس کا علم اتنا محیط جس کا دسترخوان کرم اتنا وسیع جس کی قدرت اتنی بے پایاں ہو، کیا اس کی الوہیت میں شک کی کوئی گنجایش ہے۔۔۔ ؟
اور اس کے سوا اور کوئی ایسا ہے جس میں ان کمالات کا شائبہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ خدائی اور الوہیت میں وہ اس کے شریک ہونے کا مدعی بن سکے اور کیا ایسی قادر و توانا ہستی کے لیے تمہیں مارنے کے بعد زندہ کرنا کوئی مشکل کام ہے، ہرگز نہیں۔''
فانی دنیا میں دل لگانے کے بہ جائے آخرت کی فکر کرنے کے سلسلے میں احادیث نبویہؐ میں بھی جا بہ جا تاکید آئی ہے اور کیوں نہ ہو کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں انسان جو بھی بوئے گا اس کا ثمر وہ اخروی زندگی میں ضرور پائے گا۔ رسول اکرمؐ نے ہمیشہ اور ہر مقام پر اپنی گنہ گار امت کو یاد رکھا اور اس کی بخشش کے لیے دعائیں فرمائیں۔ نیز اپنے چاہنے والوں کی ہر جگہ راہ نمائی فرمائی۔ فکرِ آخرت کی تاکید فرماتے ہوئے ایک مقام پر حضورؐ نے ارشاد فرمایا: ''میں تم پر دو چیزوں کے تسلط سے ڈرتا ہوں، لمبی اُمیدوں اور خواہشات کی پیروی۔ بلاشبہ طویل امیدیں آخرت کی یاد بھلا دیتی ہیں اور خواہشات کی پیروی حق و صداقت سے روک دیتی ہے۔''
ایک روایت یوں ہے کہ حضورؐ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے قریب بستر پر استراحت فرما رہے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ آخرت کو یاد کرکے رو پڑیں اور ان کے آنسو حضورؐ کے چہرۂ انور پر گرے تو حضورؐ کی آنکھ کھل گئی۔ آپؐ نے فرمایا عائشہ! کیوں روتی ہو؟ عرض کیا حضور! آخرت کو یاد کر کے روتی ہوں، کیا لو گ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا بہ خدا ! تین جگہوں میں لوگوں کو اپنے سوا کچھ یاد نہیں ہوگا۔
٭ جب میزان عدل رکھا جائے گا اور اعمال تولے جائیں گے، لوگ سب کچھ بھول کر یہ دیکھیں گے کہ ان کی نیکیاں کم ہوتی ہیں یا زیادہ۔
٭ نامۂ اعمال دیے جانے کے وقت یہ سوچیں گے کہ دائیں ہاتھ میں ملتا ہے یا بائیں ہاتھ میں۔
٭ پل صراط سے گزرتے ہوئے سب کچھ بھول جائیں گے۔
صحابۂ کرامؓ رسول ﷲ ﷺ کے پروردہ تھے اور آپؐ کی بارگاہ سے دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کرتے۔ ہر ایک فرمان نبویؐ پر وہ دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے اور اس میں کام یاب و کام ران بھی ہوئے۔ رسول اکرمؐؐ نے انہیں فکرِ آخرت کی جو تعلیم عطا فرمائی اور اس پر وہ کس قدر عامل ہوئے، ذرا سیدنا ابو درداءؓ کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیے : '' اے لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جانتے تو آبادی چھوڑ کر ویران ٹیلوں کی طرف نکل جاتے اور اپنے کو ریاضت میں مشغول کرتے، گریہ و زاری کرتے اور ضروری سامان کے علاوہ تمام مال و متاع چھوڑ دیتے۔
لیکن دنیا تمہارے اعمال کی مالک بن گئی ہے اور دنیا کی اُمیدوں نے تمہارے دل سے آخرت کی یاد مٹا کر رکھ دی ہے اور تم اس کے لیے جاہلوں کی طرف سرگرداں ہو، تم میں سے بعض لوگ جانوروں سے بھی بدترین ہیں، جو اپنی خواہشات میں اندھے بن کر انجام کی فکر نہیں کرتے۔ تم سب دینی بھائی ہو تے ہوئے ایک دوسرے سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہو۔ تمہارے خبث باطن نے تمہارے راستے جدا کردیے ہیں، اگر صراط مستقیم پر چلتے تو ضرور باہم محبت کرتے۔ تم دنیاوی امور میں باہم مشورے کرتے اور تم اس ذات سے محبت رکھتے جو تمہیں محبوب رکھتا ہے۔ تمہارا آخرت کی بھلائی کی طرف ایمان کم زور پڑچکا ہے، اگر تم آخرت کی بھلائی پر یقین رکھتے جیسے دنیاوی اونچ نیچ پر یقین رکھتے ہو، تو تم دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے۔ کیوں کہ آخرت تمہارے اعمال کی مالک ہے۔''
اسی طرح وہ نفوسِ قدسیہ جنہوں نے اسلام اور ہادی اسلام حضرت محمدؐ کو اپنا راہ نما بنایا عبادت و ریاضت، اخلاق و کردار، خوف و خشیت ربانی، جہاد و مجاہدہ، صدق مقال، اکل حلال، صفائے نفس، تطہیر قلب، تزکیہ باطن اور دیگر شعبہ ہائے دین و شریعت میں اپنی مثال آپ ہو ا کرتے۔ جنہوں نے مرضیاتِ الہٰی کی طلب میں اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدے کے ذریعے مطیع و فرمان بردار بنایا اور دنیاوی و اخروی بھلائیاں حاصل کیں۔ دنیا کی محبت و انہماک کے بہ جائے آخرت کی پونجی جمع کرنے میں مساعی جمیلہ کی۔ جن کی پوری زندگی ہمارے لیے نمونۂ عمل ہے۔
حضرت مالک بن دینارؒ کا ارشاد گرامی ہے : '' تم جس قدر دنیا کے لیے غمگین ہوتے ہو، اسی قدر آخرت کا غم کم ہوجاتا ہے۔ جس قدر آخرت کا غم کھاتے ہو، اسی قدر دنیا کا غم مٹ جاتا ہے۔''
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں : '' اگر دنیا مٹ جانے والے سونے اور آخرت باقی رہنے والی ٹھیکری کی ہوتی، تب بھی فانی چیز پر باقی رہنے والی چیز کو ترجیح دینا مناسب ہوتا، چہ جائے کہ یہ دنیا ٹھیکری ہے اور آخرت سونا ہے مگر ہم نے پھر بھی دنیا کو پسند کرلیا ہے۔''
حضرت ابو سلمان الدرانیؒ کا قول ہے : ''جب کسی طالب دنیا کو دنیا ملتی ہے تو وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے اور جب کسی طالب کو آخرت کا اجر ملتا ہے تو وہ زیادہ کی تمنا کرتا ہے، نہ اس کی تمنا ختم ہوتی ہے اور نہ اُس کی تمنا ختم ہوتی ہے۔''
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ سے دنیا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : ''ہم نے دنیا کے لیے دین کو پارہ پارہ کر دیا، مگر نہ دنیا ملی اور نہ دین باقی رہا۔'' (مکاشفۃ القلوب)
دنیا عارضی اور آخرت ابدی ہے۔ ہمیں دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرنا ہے تاکہ ہمیشہ کی زندگی آسایش سے ہم کنار ہو۔ اگر عقیدۂ فکر آخرت ہمارے ذہنوں میں نقش ہوجائے تو گناہ و معاصی کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی آسکتی ہے۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں اپنے اعمال سنوارنے کی توفیق دے۔ آمین