شام میں ہتھیاروں کی آزمائش کررہے ہیں روسی وزیر دفاع

شام میں خانہ جنگی کا آغاز بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں سے ہوا تھا۔


جدید ہتھیاروں سے لیس روسی فوجی، بشارالاسد کی افواج کے ساتھ مل کر ’باغیوں‘ کو ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ فوٹو : فائل

شام میں جاری موت کے رقص کو چھے برس مکمل ہوگئے۔ اب تک پانچ لاکھ انسانوں کا لہو بہ چُکا ہے مگر ' آدم خوروں' کی پیاس ہے کہ بجھنے میں نہیں آرہی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ سرزمین شام کی سرخی بڑھتی جارہی ہے۔ وحشت و بربریت کی وہ تاریخ رقم ہورہی ہے کہ خدا کی پناہ۔۔۔! حکومتی اور روسی طیاروں کی بم باری نے سب سے بڑے شہر حلب کو کھنڈر بنادیا ہے۔ بم باری کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں اکثریت معصوم بچوں، عورتوں اور مَردوں کی تھی جوکسی فریق کے حامی نہیں تھے۔ بم بار طیاروں کے ساتھ ساتھ پیادہ فوجیں بھی عام شہریوں کو نشانہ بنارہی ہیں۔ جنگی جرائم پر انسانی حقوق کے عالمی ادارے چیخ رہے ہیں مگر بشار الاسد اور اس کے حامیوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔ معصوموں کی ہلاکت کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔

شام میں خانہ جنگی کا آغاز بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں سے ہوا تھا۔ یہ مظاہرے 2011ء میں دنیائے عرب میں اٹھنے والی باغیانہ لہر کا نتیجہ تھے جس نے اس خطے کے کئی ممالک کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ شامی صدر نے باغیوں کو دبانے کے لیے طاقت کا سہارا لیا۔ اس اقدام نے بہ تدریج باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کرلی جو فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے تھی۔ اسی باعث حکومت کو ایران اور حزب اﷲ کی حمایت بھی حاصل ہوگئی۔ ان کے مقابلے میں باغی گروہ اور داعش تھے۔ داعش کے خلاف امریکا سمیت تیس ممالک کی افواج پر مشتمل فوج میدان میں آگئی تو دوسری جانب بشارالاسد کو روس کی عملی مدد حاصل ہوگئی۔ یوں یہ خانہ جنگی ایک عالمی جنگ میں بدل گئی۔

بہ ظاہر روس بشارالاسد کی مدد کے لیے اس جنگ میں شامل ہوا ہے تاہم یہ ثانوی مقصد ہے۔ اس شمولیت کے پس پردہ اس کے اپنے مقاصد ہیں جن کا روسی حکام برملا اظہار کرچکے ہیں: اوّل مغرب کو یوکرین کے بحران پر بات چیت کے لیے مجبور کرنا، دوم صدر بشارالاسد کی مدد۔ حال ہی میں روس کے وزیردفاع نے تیسرا مقصد بیان کیا ہے اور وہ ہے ہتھیاروں کی آزمائش!

سرگئی شویگو نے 23 فروری کو پارلیمان کے ایوان زیریں میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ روسی فوجیں شام کی جنگ میں162اقسام کے ہتھیاروں کی آزمائش کرچکی ہیں۔ ان کے بیان کے مطابق،''ہم نے شام میں روایتی اور جدید ہتھیاروں کی 162اقسام آزمائیں۔ ان میں سے سوائے دس اقسام کے سب کی کارکردگی توقع کے مطابق رہی۔''



یہ امر کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ روس اور امریکا جیسے طاقت وَر ممالک کم زور اقوام پر جنگ مسلط کردیتے ہیں۔ اس سے انھیں دیگر مفادات کے حصول کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کی آزمائش اور اسلحے کی فروخت کے مواقع بھی میسر آجاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر دنیا میں چہار سُو امن و امان ہوگا تو پھر ممالک سے اربوں ڈالر کا اسلحہ کون خریدے گا؟ امریکا اس معاملے میں دو ہاتھ آگے ہے۔ گذشتہ چند عشروں ہی پر نظر ڈال لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ اس خودساختہ عالمی ٹھیکے دار نے کئی ممالک پر چڑھائی کی اور بلاشبہہ لاکھوں معصوم انسانوں کا قتل عام کیا۔ امریکی سی آئی اے کی ریشہ دوانیوں نے کتنے ممالک کو عدم استحکام اور خانہ جنگی کی طرف دھکیلا؟ یہ بھی کوئی راز نہیں۔

سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے کے ڈھائی عشروں بعد، ایک بار پھر روس طاقت وَر پوزیشن میں آچکا ہے۔ اس کی نگاہیں سُپرپاور کا کھویا ہوا اعزاز حاصل کرنے پر مرکوز ہیں۔ اس سمت میں وہ پیش قدمی کررہا ہے۔ اسی ضمن میں دنیا پر بالعموم اور سب سے بڑے حریف امریکا پر بالخصوص اپنی عسکری طاقت آشکارا کرنے کے لیے روس کو میدان درکار تھا جو اسے خانہ جنگی کا شکار شام کی صورت میں دست یاب ہوگیا۔

سرد جنگ کے زمانے میں شام، روس کا حامی رہا تھا۔ اسی حمایت کے صلے میں ولادیمیر پوتن نے باغیوں کے خلاف بشار الاسد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ان کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرار داد ویٹو کرتے رہے۔ پھر 2015ء میں عملی طور پر اپنے حلیف ساتھ دینے کے لیے میدان میں آگئے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد بشارالاسد کی مدد سے زیادہ اپنی جنگی طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

جنگ میں روس کی شمولیت کا آغاز بحریہ نے نوسو میل کی دوری سے شامی حدود میں اہداف پر کروز میزائل داغ کر کیا۔ اس کے ساتھ روسی ہوائی اڈوں سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے جنگی طیارے اڑے اور بشارالاسد کے مخالفین کے زیراثر علاقوں پر مختلف اقسام کے بموں کی صورت میں موت برسانے لگے۔ فضائی حملوں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے روس کا واحد طیارہ بردار بحری جہاز ایڈمرل کوزنتسوف بھی بحر منجمد شمالی میں پہنچ گیا۔ بعدازاں روسی فوجی بشارالاسد کی افواج کے شانہ بہ شانہ لڑنے کے لیے سرزمین شام پر اترے۔

جدید ہتھیاروں سے لیس روسی فوجی، بشارالاسد کی افواج کے ساتھ مل کر 'باغیوں' کو ٹھکانے لگا رہے ہیں۔ روسی طیّارے فضا سے موت بر سا رہے ہیں۔ نیچے معصوم بچے، عورتیں اور مرد زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں، مگر ولادیمیر پوتن کے لیے گوشت پوست سے بنے یہ انسان، انسان نہیں بلکہ حشرات ہیں جو اگر ہتھیاروں کی آزمائش میں کام آ بھی گئے تو کیا ہے۔۔۔۔ انسانی حقوق کے ادارے چیختے ہیں تو چیختے رہیں۔۔۔۔۔ ان کی سنتا کون ہے۔ واضح رہے کہ روسی حکومت ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کے دوسرے تمام اداروں کی رپورٹس مسترد کرچکی ہے کہ فضائی حملوں میں شیرخوار بچوں سمیت معصوم شہری نشانہ بن رہے ہیں۔

چودہ سال قید۔۔۔۔۔!
برطانوی حکومت آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹے پر کمربستہ
2013ء میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی ( سی آئی اے) کے اہل کار ایڈورڈ اسنوڈن نے نیشنل سیکیوریٹی ایجنسی (این ایس اے) کی خفیہ معلومات افشا کردی تھیں جن سے دنیا پر آشکارا ہوگیا تھا کہ امریکی ادارے بیشتر ممالک کی جاسوسی کررہے ہیں۔ گھر کے بھیدی کے اس اقدام سے امریکا کو عالمی سطح پر سبکی اٹھانی پڑی تھی، اور قریبی دوست ممالک سے اس کے تعلقات میں بھی دراڑ آگئی تھی۔ ابتدائی طور پر اسنوڈن کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات برطانوی روزنامے گارجیئن اور امریکی واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہوئی تھیں۔

یہ معلومات امریکی شہری نے ازخود ان اداروں کو فراہم کی تھیں۔ تاہم صحافی اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے بھی ٹاپ سیکرٹ انفارمیشن حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ان معلومات کی اشاعت بعض اوقات حکومتوں کو پریشانی میں مبتلا کردیتی ہے۔ پاکستان میں اس کی تازہ مثال سرل المیڈا کی جانب سے شائع کردہ خبر تھی جو حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کا سبب بنی۔ اس کے نتیجے میں وفاقی وزیراطلاعات کو کرسی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔

گذشتہ برس برطانوی عوام نے یورپی یونین کو خیرباد کہہ دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیٰحدگی (Brexit) سے متعلق خفیہ دستاویز میں درج معلومات ایک صحافی نے طشت ازبام کردیں۔ حکومت کے بقول اس افشائے راز کا ملکی معیشت پر منفی اثر پڑا ہے۔ اس کو بنیاد بناتے ہوئے تھریسامے کی حکومت آزادیٔ صحافت پر قدغن لگانے پر کمربستہ ہوگئی ہے۔ حکومت ایک نئے قانون کے نفاذ پر غور کررہی ہے جس کے تحت خفیہ سرکاری معلومات حاصل کرنے والے صحافی کو چودہ برس تک قید ہوسکے گی۔ صحافی کے علاوہ اسے معلومات فراہم کرنے والے فرد یا افراد پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوگا۔

برطانیہ میں سرکاری راز حاصل کرنے یا چُرانے اور اس عمل کی سزا سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے عنوان سے قانون پہلے ہی موجود ہے۔ اب اس میں ترمیم زیرغور ہے۔ ترمیم کے بعد اسے ' جاسوسی ایکٹ ' کا نام دیا جائے گا۔ اس قانون کے نفاذ سے عدالتیں حساس معلومات 'چُرانے' اور شائع کرنے والے صحافیوں کو چودہ برس تک کے لیے جیل میں ڈال سکیں گی۔ اس سے پہلے اس جُرم کی زیادہ سے زیادہ دو سال تھی۔



برطانیہ کا شمار انسانی حقوق، آزادیٔ اظہار رائے اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم مجوزہ ایکٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تیسری دنیا کی حکومتوں کی طرح برطانوی حکمرانوں کو بھی صحافیوں کی آزادی کَھلنے لگی ہے۔

حکومت کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم کے لیے قائم کیے گئے لا کمیشن نے اس ضمن میں میڈیا گروپوں اور انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ خفیہ سرکاری اداروں، سیاست دانوں اور ماہرین قانون سے مشاورت کی تھی۔ تاہم میڈیا گروپوں اور حقوق انسانی کے اداروں کا کہنا ہے کہ ان کی سفارشات کو اہمیت نہیں دی گئی۔

حسب توقع آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں مجوزہ ترامیم پر صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ صحافیوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سرکردہ افراد ' جاسوسی ایکٹ ' کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والے ادارے ' انڈیکس آن سینسرشپ' کی روح رواں جوڈی جنسبرگ کہتی ہیں کہ یہ عقل و فہم سے بالاتر ہے کہ عوامی مفاد میں معلومات فراہم کرنے والے اور ان معلومات کو عام کرنے والے افراد کو قید میں ڈال دیا جائے۔ اسی طرح صف اول کے قانون داں جون کوپر مجوزہ ترامیم کو انسانی حقوق سے متصادم قرار دیتے ہیں۔

ڈیجیٹل رائٹس سے متعلق اوپن رائٹس گروپ نامی ادارے کے چیف ایگزیکٹیو جم کلوک کے مطابق 'جاسوسی ایکٹ' دراصل صحافت کو مجرمانہ عمل بنادینے کی کوشش ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ اس کی قانون شکنیوں کو عوام کے سامنے لایا جائے اس لیے اس قانون کے ذریعے صحافیوں کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

برطانوی صحافتی تنظیموں نے مجوزہ قانون پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس کے من و عن نفاذ کی صورت میں شدید احتجاج کا عندیہ دے دیا ہے۔

کہاں ہو تم۔۔۔۔۔ ؟
ایلیہانڈرو ٹولیڈو کو انٹرپول کی مدد سے واپس لانے کی تیاریاں
ایلیہانڈرو ٹولیڈو 2001ء سے لے کر 2006ء کے درمیانی عرصے میں پیرو کے صدر رہے۔ انھوں نے عام انتخابات میں سابق صدر آلن گارسیا کو شکست دے کر یہ منصب حاصل کیا تھا۔ پانچ سال تک وہ جنوبی امریکا میں واقع، پاکستان سے ڈیڑھ گنا بڑے ملک کے حکم راں رہے۔ سربراہ مملکت کی حیثیت سے ملک بھر میں ان کا حکم چلتا تھا۔ کسی میں ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں ہوتی تھی، مگر وقت کا الٹ پھیر دیکھیے کہ آج انھیں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔

کل کا حکم راں آج کا مفرور ملزم بن چکا ہے جس کی اطلاع دینے والے کے لیے پیرو کی حکومت نے تیس ہزار ڈالر انعام مقرر کیا ہے۔ ایلیہانڈرو پر عہد صدارت کے دوران دو کروڑ ڈالر رشوت وصولنے کا الزام ہے۔ سابق صدر نے یہ رقم مبینہ طور پر برازیل کی ایک تعمیراتی کمپنی سے لی اور بدلے میں اسے تعمیراتی ٹھیکے دیے گئے۔ رشوت کے عوض ٹھیکے الاٹ کرنے کے علاوہ ایلیہانڈرو ٹولیڈو پر منی لانڈرنگ اور بیرون ملک غیرقانونی طور پر جائیدادیں بنانے کے بھی الزامات ہیں۔ ٹولیڈو نے یہ جائیدادیں مبینہ طور پر ایک اسرائیلی بزنس مین یوسف مایمان کی کمپنی کے ذریعے خریدیں۔ واضح رہے کہ ایلیہانڈرو کی شریک حیات ایلیان کارپ بھی اسرائیلی شہری ہیں۔

معاشیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ایلیہانڈرو کے سیاسی سفر کا آغاز 1994ء میں ' پوسیبل پیرو' کے قیام سے ہوا۔ سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالنے سے قبل ایلیہانڈرو کئی ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہ رہ چکے تھے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ اور عالمی بینک سمیت کئی عالمی اداروں میں مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے چکے تھے۔ یوں قومی اور بین الاقوامی سطح پر، بالخصوص جنوبی امریکا میں وہ ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ ٹولیڈو نے 1995ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا اور تین فی صد ووٹ حاصل کیے۔ نوآموز سیاست داں کے طور پر ان کی شکست پہلے ہی یقینی تھی لیکن آئندہ چند برسوں کے دوران ان کے سیاسی قد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

2000 ء میں ہونے والے انتخابات میں ایلیہانڈرو نے ایک بار پھر مسند صدارت کے امیدواروں میں شمولیت کا ارادہ ظاہر کیا۔ یہ انتخابات انعقاد سے پہلے ہی تنازعے کی زد میں آگئے۔ وجہ یہ تھی کہ صدر آلبرتو فوجیموری نے مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا تھا جب کہ آئین میں اس کی اجازت نہیں تھی۔ اس وقت ٹولیڈو قدرے غیرمعروف سیاست داں تھے مگر حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ وہ آلبرتو فوجیموری کے خلاف ہونے والے احتجاج میں حزب اختلاف کے لیڈر بن گئے۔ یوں فضا ان کے حق میں ہموار ہوگئی۔ انتخابات ہوئے اور ٹولیڈو، آلبرتو کو شکست دے کر صدر بن گئے۔

ٹولیڈو کی صدارت میں پیرو نے ترقی کی منازل طے کیں۔ اقتصادیات کا ماہر ہونے کے ناتے انھوں نے معاشی ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کیے۔ دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کا قلع قمع کرنے کے لیے غیر لچک دار پالیسی اپنائی۔ ان کے دور میں اقوام عالم سے پیرو کے روابط میں بھی استحکام آیا۔ یوں ان کا دور حکومت پیرو کے لیے سابق ادوار سے بہتر ثابت ہوا۔



2006ء میں مدت صدارت پوری ہونے کے بعد باوجود خواہش کہ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، کیوں کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے ایک شخص کے مسلسل دو بار انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ منصب صدارت سے سبک دوش ہونے کے بعد ان کی توجہ درس و تدریس پر مرکوز ہوگئی۔ جامعات میں پڑھانے کے علاوہ انھوں نے بہ طور مشیر اپنا کردار جاری رکھا اور کتابیں بھی تصنیف کیں۔

ایلیہانڈرو کے خلاف کرپشن کی تحقیقات گذشتہ برس برازیلی تعمیراتی کمپنی اودے بریش کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ کمپنی نے 2001ء سے 2006ء کے دوران لاطینی امریکا میں 80 کروڑ ڈالر رشوت کی مد میں ادا کیے۔ اس رقم میں سے تقریباً تین کروڑ ڈالر پیرو میں دیے گئے۔ اس بیان کے بعد سابق صدر کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوگیا۔ گذشتہ دنوں عدالت نے ٹولیڈو کی گرفتاری کا حکم جاری کیا۔

ٹولیڈو امریکا میں واقع اسٹینفرڈ یونی ورسٹی سے بہ طور وزیٹنگ فیکلٹی وابستہ تھے، تاہم عدالتی احکامات جاری ہونے کے بعد وہ گدھے کے سر سے سینگ کے مانند غائب ہوگئے ہیں۔ پیرو کی حکومت نے ان کی تلاش کے لیے امریکی اور اسرائیلی حکام سے رابطہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ انٹرپول سے بھی مدد طلب کرلی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں