دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانویحصہ اول
جب میرے ہم عمر دوست شرلاک ہومز اور ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھا کرتے تھے
یہ میری نوعمری کا زمانہ تھا، جب میرے ہم عمر دوست شرلاک ہومز اور ابن صفی کے جاسوسی ناول پڑھا کرتے تھے مگر میں فیض احمد فیضؔ اور ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری کی کتابیں پڑھتا تھا۔ ہم کراچی کے ایک پرانے محلے رام سوامی کی ایک سو سال پرانی بلڈنگ کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے۔
ہم چھ بھائی اور تین بہنیں فرش پر دری بچھاکر سوتے تھے اور میں ضد کر کے کھڑکی کے قریب سوتا تھا۔ جب گھرکے سب افراد گہری نیند میں ہو جاتے تھے تو میں اکیلا جاگتا رہتا تھا اور پھرکھڑکی کا ایک پٹ آدھا کھول کرکمرے میں آئی ہوئی اسٹریٹ لائٹ سے فیضیاب ہوتے ہوئے فیض اور ساحر کو پڑھاکرتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ ساحرلدھیانوی کے شعری مجموعے ''تلخیاں'' کے بعد اس کے فلمی گیتوں کا مجموعہ ''گاتا جائے بنجارا'' کے نام سے بھی منظر عام پرآ گیا تھا۔ مجھے ان دنوں یہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی شاعرکی شاعری اس کے اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے زیادہ ہوتی ہے۔ شاعر ساری دنیا کے لوگوں کے لیے لکھتا ہے وہ سب کے احساسات کا ترجمان ہوتا ہے۔
ہندوستان میں خاموش فلموں کے بعد جب بولتی فلموں کا دور آیا تو رفتہ رفتہ ادب کے لوگ بھی فلمی دنیا سے جڑتے چلے گئے تھے۔ بمبئی کی فلم انڈسٹری کو جاں نثار اختر، کیفی اعظمی اور ساحر لدھیانوی جیسے ہیرے نصیب ہوئے اور ان شاعروں نے فلموں کو ادبی معیار عطا کیا، ساحر لدھیانوی جب نیا نیا بمبئی آیا تو ابھی فلمی دنیا کے دروازے اس پرکھلے نہیں تھے۔ یہ ان دنوں اپنے کسی نہ کسی بے تکلف دوست کے ساتھ میلوں پیدل چلاکرتا تھا اور بمبئی کی سڑکیں ناپاکرتا تھا۔ اسی طرح یہ ایک دن بمبئی کی گودی (بندرگاہ) کی طرف نکل گیا وہاں ساحر نے چند مزدوروں کوکام کے دوران فلمی گیت گاتے ہوئے سنا تو وہ کچھ دیر کے لیے اپنے دوست کے ساتھ وہاں کھڑا رہا۔ مزدور جو گیت گارہے تھے اس کے بول تھے۔
اوجانے والے بالم وا
لوٹ کے آ لوٹ کے آ
اس وقت ساحر نے ہنستے ہوئے اپنے دوست سے کہا تھا یہ آج گودی کے مزدور جس طرح کے شاعر کا یہ فلمی گیت گارہے ہیں کل وہ بھی دن آئے گا جب ان مزدوروں کے ہونٹوں پر میرے لکھے ہوئے گیت ہوںگے اور ان گیتوں کا لہجہ بالکل بدلا ہوا ہوگا۔ یہ بات ساحرکے ہونٹوں پر آئی اور ہوا کے جھونکوں کی طرح گزر گئی مگر وقت نے خوابوں کو حسین تعبیر دی تھی جب اسی گودی (بندرگاہ) کے مزدوروں کے ہونٹوں پر ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا گیت تھا۔
ساتھی ہاتھ بڑھانا
ایک اکیلا تھک جائے گا
مل کر بوجھ اٹھانا، ساتھی ہاتھ بڑھانا
پھر ایک دور ایسا آیا جسے بلاشبہ ساحر لدھیانوی کا دورکہا جاتا تھا۔ بمبئی آنے والا ایک بے یار و مددگار شاعر بمبئی فلم انڈسٹری کا چہیتا شاعر بن گیا تھا۔ان کے دلکش گیتوں کی سارے ہندوستان میں دھوم مچی ہوئی تھی ۔ان کے گھرکے دروازے پر اس دورکی کئی قیمتی گاڑیاں کھڑی رہتی تھیں۔ ان کا نام فلموں کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا، فلموں کے اشتہار میں ان کا نام جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا، ساحرکو اسی لیے قریبی دوست پرنس کہہ کر پکارتے تھے اور یہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں دنیائے شاعری کا شہزادہ مشہور تھا۔اس سے پہلے کہ میں ان کے پہلے گیت اور پہلی فلم کی طرف آؤں یا ان کی بمبئی کی فلمی زندگی سے آغازکا تذکرہ کروں۔
میں ان کی ابتدائی زندگی، ان کے گھریلو حالات، کمسنی سے جوانی تک ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالوںگا۔ یہ لدھیانہ شہرکے ایک جاگیردارگھرانے میں پیدا ہوا تھا، ان کا نام عبدالحئی تھا، والد کا نام فضل محمد تھا اور وہ ایک انتہائی سخت گیر انسان تھے، ان کی کئی بیویاں تھیں اور ان میں ایک بیوی سردار بیگم تھی جو عبدالحئی کی ماں تھی۔ ان کا باپ عورت کو پیرکی جوتی سمجھتا تھا، وہ اپنی بیویوں کو مارتا بھی تھا اور ان کو گالیاں بھی دیا کرتا تھا۔
سردار بیگم جب ان کی گالیوں پر احتجاج کرتی تھی تو وہ انھیں اذیت بھی دیا کرتا تھا۔ کمسن عبدالحئی جب اپنی ماں کو اپنے باپ کے ہاتھوں پٹتے ہوئے دیکھا کرتا تھا توکئی کئی دنوں تک سہما رہتا تھا اورکبھی کبھی اپنی ماں کو اپنی معصومیت کی بولی میں کہتا تھا ''ماں تو مجھے بس بڑا ہونے دے پھر میں دیکھوںگا کہ میرا باپ تجھ پرکیسے ہاتھ اٹھاتا ہے۔'' جب ماں اپنے دامن سے اپنے آنسو پونچھتی تھی اور پیار سے عبدالحئی کو اپنی بانہوں میں بھینچ لیتی تھی تو عبدالحئی بھی رونے لگتا تھا۔ اکثر یوں بھی ہوتا تھا کہ کبھی کبھی بیٹا اپنی ماں کے آنسو اپنی قمیص سے پونچھتے ہوئے کہتا تھا ''ماں میں بڑا ہوکر تجھ پرکیے گئے ظلم کا حساب بھی باپ سے لوںگا تو ماں کپکپاتے ہونٹوں سے کہتی نا بیٹا نا ایسے نہیں کہتے۔ اﷲ سب دیکھتا ہے ایک دن وہ خود ہی سب کچھ اچھا کردے گا'' مگر عبدالحئی کے دل میں باپ کے خلاف نفرت پرورش پانے لگتی تھی۔ عبدالحئی نے ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے خالصہ اسکول میں حاصل کی جو بعد میں کالج بن گیا تھا۔
جب عبدالحئی کوکچھ شعور آیا اور اٹھارہ بیس سال کا ہوا تو اس نے باپ کے ظلم کے خلاف بغاوت کر دی تھی اور باپ کے خلاف عدالت میں مقدمہ بھی درج کرادیا تھا۔ پھر باپ بیٹے کے درمیان دشمنی ہوگئی، بیٹا ماں کو لے کر باپ کے گھر سے نکل گیا۔ ماں نے اپنا زیور بیچ کر بیٹے کے ساتھ الگ گھر میں رہائش اختیارکرلی تھی۔ عبدالحئی اپنی ماں کو لے کر لاہورآ گیا، باپ کو یہ خبر بعد میں پتہ چلی تھی کہ اس کا بیٹا اور اس کی بیوی لدھیانہ چھوڑگئے ہیں۔ لاہور میں عبدالحئی ساحر لدھیانوی بن چکا تھا اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہوگیا تھا۔ ساحر نے لاہور کے دیال سنگھ کالج میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور تعلیم کے دوران ہی یہ ادیبوں کی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگیا تھا۔
ساحرعورت کی مظلومیت کو اپنی ماں کے روپ میں بچپن ہی سے دیکھتا چلا آیا تھا۔ اسے جاگیرداروں اور جاگیرداری طبقے سے شدید نفرت تھی اور وہ جاگیرداری نظام کے خلاف شاعری کی صورت میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے لگا تھا۔ اسی دوران اس نے عورت کی بے بسی اور بے وقعتی کے بارے میں نظمیں لکھیں اس کی نظموں کو اس دورکے بڑے بڑے اخبارات اور رسائل نے نمایاں جگہ دینی شروع کردی تھی۔ اس دوران ماہنامہ ''ادب لطیف'' کی ادارت کے فرائض بھی ادا کیے۔ ترقی پسند تحریک کے دوران ساحر لدھیانوی کے خلاف حکومت وقت نے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔ وہ اپنی ماں سے محبت کرتا تھا اس نے لاہور کو راتوں رات چھوڑا اور پھر وہ دہلی چلا گیا۔
کچھ عرصے دہلی میں رہا مگر دہلی میں ساحرکا دل نہیں لگ رہا تھا، پھر وہ دہلی سے بمبئی پہنچ گیا اور ابتدا میں مایا نگری کے علاقے میں سکونت اختیارکی۔ شاعری اور صحافت ساتھ چل رہی تھی اس دوران ساحر نے ہفت روزہ ''شاہکار'' اور پھر ''سویرا'' میں بھی کچھ عرصہ کام کیا اور اپنی ماں کے آخر وقت تک وہ اپنی ماں کے ساتھ سائے کی طرح ساتھ رہا۔ بمبئی میں ساحرکی شاعری کو اصل عروج حاصل ہوا اور ساحرکی کئی خوبصورت نظمیں منظر عام پرآئیں اورلوگ ساحر کی شاعری کے دیوانے ہوتے چلے گئے۔ اس دورکی چند نظموں پرچھائیاں، تاج محل، مادام، چکلے اور نور جہاں کے مزار پر کوبڑی شہرت ملی تھی۔(باقی آیندہ ہفتے)