رضا ربانی کے قلم کا جادو
انصاف کے طلب گار اور نظر نہ آنے والے لوگ ہی ہماری سب سے بڑی امید ہیں
ISLAMABAD:
مظہر الاسلام عزیزدوست ہیں۔ اچھی کہانیاں لکھتے ہیں،اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ چند دنوں پہلے ان کا فون آیا ''میاں رضا ربانی کی کہانیوں پر تمہیں کچھ کہنا ہے۔''
رضا ربانی اورکہانیاں؟ میں حیران رہ گئی لیکن پھر ان کی کتاب Invisible People آپہنچی اور اسے پڑھتے ہوئے حیرت ایک بار پھر میرا مقدر تھی۔میاں رضا ربانی کراچی کے ان بیٹوں میں سے ہیں، شہر جن پر نازکرے۔ متوسط طبقے سے تعلق، یہاں کے ایک اسکول سے پڑھ کر نکلے،کراچی یونیورسٹی میں دھومیں مچائیں، گرفتار ہوئے، نکالے گئے، چھوٹ کرآئے تب بھی ان کی سیاست، اختلاف اور انحراف کے سبزہ زارکو سیراب کرتی رہی۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے قوم پرست اور امید پرست رضا ربانی نے اپنا قبلہ پیپلزپارٹی کی طرف راست کیا۔ ہم نے انھیں سہج سہج سیاست کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھا۔ ہمارے یہاں ان سیڑھیوں پر جو چوہا دوڑ ہورہی ہے یا ہوتی ہے، رضا ربانی اس سے بے نیاز چلتے رہے۔ آج وہ ہمارے ایوان بالا کے بلند ترین شہ نشین پر متمکن ہیں، ایک مثالیت پسند انسان کے طور پر انھیں اقتدار کی غلام گردشوں میں کیسی گھمن گھمیریاں آتی ہوں گی، اس کا اندازہ دشوار نہیں، لیکن سچ سے انھوں نے جو رشتہ استوار رکھا، وہ آج بھی قائم ہے۔
یہ وہی ہیں کہ جب فوجی عدالتوں کے حق میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا مرحلہ آیا تو ان کی آنکھوں سے آنسوگررہے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ میں دل پر پتھر رکھ کر اپنا ووٹ ڈال رہا ہوں۔ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت پر ایک بار پھر ہا ہا کار مچی۔ بڑے بڑے جمہوریت پسند ان فوجی عدالتوں کے قیام کی شدید مخالفت کررہے تھے، پھر تمام سیاسی جماعتوں کی صفوں کو سانپ سونگھ گیا۔ ایسے میں واحد آواز میاں رضا ربانی کی تھی جو ملک کے ایک بلند منصب پر ہونے کے باوجود یہ کہہ گزرے کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے مجھے دکھ ہوا۔
انھیں پاکستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز نشان امتیاز دیا گیا۔ درحقیقت یہ اس اعزازکا امتیاز ہے کہ رضا ربانی نے اسے اپنے سینے پر سجایا ہے۔ میرے حساب سے ان کے لیے باعث عزت واعزاز یہ بات ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق کے حکم پرکراچی یونیورسٹی سے نکالے گئے اور بعد میں جیل بھیجے گئے۔ پاکستانیوں پر ان کا احسان ہے کہ انھوں نے اٹھارویں ترمیم کی تیاری میں بنیادی کردار ادا کیا، تمام صوبوں کو سانس لینے کا موقعہ دیا اور وفاق اور جمہوریت کو مضبوط بنایا۔ بلاشبہ 18 ویں ترمیم پاکستانی آئین کے بعد سب سے مقدس آئینی دستاویز ہے۔
میاں رضا ربانی کی ساری زندگی قانون کی کتابوں، انصاف اور ناانصافی کی بھول بھلیوں اور پیپلزپارٹی کی پیچیدہ سیاست کی سرنگوں میں گزری۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی حدود وقیود سے آزاد ہوئے اور متفقہ فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کے ایوان بالا میں فروکش ہیں۔
کوئی مجھ سے پوچھے کہ میں ان کی کہانیوں پر بات کرنے آئی ہوں تو پھر ان کی سیاسی زندگی کا احاطہ کیوں کر رہی ہوں۔ در اصل ان کی کہانیاں اور ان کی سیاست دونوں مظلوم اور محکوم انسانوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ان کی کہانی Imprisoned Law پڑھتے ہوئے مجھے منٹو کی کہانی ''نیا قانون'' اور اس کا ہیرومنگوکوچوان یاد آیا۔ منٹو آزادی سے پہلے کا قصہ لکھ رہے تھے اور رضا ربانی کی کہانی Imprisoned Law آزادی کے بہت بعد کا قصہ ہے۔ آزادی مل جانے کے بعد بھی قانون طبقہ بالا کا حلقہ بگوش ہے۔کہانی کی ہیروئن ایک مفلس اور بے بس عورت 'توں قانون ایں' ، 'تو مجسٹریٹ ایں' کا ورد کرتی ہوئی چلتی چلی جاتی ہے لیکن اسے نہ مجسٹریٹ ملتا ہے اور نہ قانون جو اس کے ساتھ انصاف کرسکے۔
ان کی کہانیوں کے تمام کردار انصاف کی تلاش میں ہیں۔کبھی ہیرا منڈی اورکبھی کسی جیل کی کھولی میں۔ ہیرا منڈی سے نکل کر شرافت کے سراب کا تعاقب کرنے والی لڑکیاں ہیں جو ناکام رہیں اور پھر شام کے کسی اخبارکی ایک کالمی خبر بن گئیں جسے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
ان کہانیوں میں اُمید اورنا اُمیدی کے دھارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ان کی کہانیوں میں زندگی بدحال اور تباہ حال نظر آتی ہے۔اس کا احوال اعلیٰ متوسط طبقے اور اشرافیہ کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہ بااختیار لوگ جو بے اختیاروں کے درمیان رہتے ہیں، ان کی جاں کاہ مشقت اور بھوک سے جھوجھتے ہوئے لوگوں کی اذیت انھیں نظر نہیں آتی۔ شاید اس لیے کہ عام انسان بونے ہیں، Liliputians اور خواص وہ دیوقامت ہیں جو اگر جھک کر بھی دیکھیں تو بونے انھیں کیوں دکھائی دیں۔
ہماری اشرافیہ، عام انسانوں کو روندتی چلی جاتی ہے اور اسے علم بھی نہیں ہوتا کہ اس کے قدموں تلے کتنی آرزوئیں روندی گئیں۔ یہ کردار انسان نہیں سمجھے جاتے۔ یہ دوپایہ ہیں۔ ان کی پشت اس لیے ہے کہ اس پر منوں بوجھ لاد دیا جائے، ان کے بازو مشقت کے لیے ہیں اور ان کی ٹانگیں بڑے لوگوں کے حکم کی تعمیل میں دوڑنے کے لیے۔ ایک پشت، دو بازوؤں اور دو پیروں والا، دو پایہ تو ہوسکتا ہے، اسے انسان کے منصب پرکیسے فائزکیا جائے؟ اس دو پایہ کو زندہ رہنے کے لیے سوکھی روٹی اوردوگھونٹ پانی کے سوا بھلا اورکس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے؟
گلیوں اور سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے بچے، کم نصیب لڑکیاں جن کے حصے میں کبھی چین آرام نہ آیا۔ یہ شہر کے فٹ پاتھوں پر بھیک مانگتی ہیں، جھڑکیاں سنتی ہیں، جوؤں سے بھرے ہوئے سر کھجاتی رہتی ہیں۔ پولیس والے انھیں تادیب اور تنبیہہ کے لیے کسی اندھیرے کونے میں لے جاتے ہیں اور پھر وہ نامطلوب بچوں کو اپنی کوکھ میں لیے پلٹتی ہیں اور ان چند لمحوں کی سزا عمر بھر بھوگتی ہیں۔ تنبیہہ و تادیب کرنے والے کسی دوسری کوچہ گرد کی تلاش میں نکل جاتے ہیں جسے وہ اخلاق کا درس دے سکیں۔
Invisible People پڑھتے ہوئے مجھے 'فیضؔ' کی نظم 'زرد پتوں کا بن' یاد آئی جس میں انھوں نے اپنے تمام مجبورومقہور لوگوں کے غموں کو یاد کیا ہے۔ رضا کی یہ کہانیاں بھی ہماری انگلی تھام کر اسی بن میں لے جاتی ہیں جو ہمارا دیس ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کہانی میں جیل کے مستقل کرداروں، مشقتی، برداشتی، مقدم، سپاہی خان اور چار پہیوں والی کتا گاڑی سب ہی سے ہماری ملاقات کرائی ہے۔ وہ ملزم جن کو برسوں اپنا جرم معلوم نہ ہوسکا، پھر بھی وہ سالہا سال سزا کاٹتے رہے۔ پل پل مرتے رہے اوران کے آس پاس سے گزرنے والوں کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ اسی جیل میں اسمگلر اپنے کلف لگے لباس میں ٹھاٹھ دار زندگی گزارتے رہے اور بے درہم و بے دام انسان، انصاف کی تلاش میں سنگلاخ دیواروں سے اپنا سر ٹکراتے رہے۔
Broken Dream of a Boy کے بچے کا دل ابھی ریا کاری، منافقت اور دروغ گوئی سے آلودہ نہیں ہوا ہے۔ وہ ایک شاندارگاڑی کے نیچے آکر کچلے جانے والے اپنے مفلس دوست کے لیے انصاف چاہتا ہے۔ پہلے وہ اپنے باپ سے جھڑکیاں کھاتا ہے، پھر اسے بتایا جاتا ہے کہ جس گاڑی کے نیچے آکر اس کا محنت کش دوست ہلاک ہوا، وہ بچے کے چچا کی تھی۔ یہ جان کر بھی بچہ، انصاف کا طلب گار ہوتا ہے تو باپ اسے 'احمق' کہتا ہوا کمرے سے نکل جاتا ہے۔ دل کو چھولینے والی یہ کہانی اندھیرے میں اُمید کی کرن ہے۔ اس کہانی کا خوشحال بچہ بھی انصاف کا طلبگار ہے اور وہ بچہ بھی جو گاڑیاں دھوتا تھا اورایک کارکے نیچے آکر ختم ہوا۔
یہ پنجروں میں بند پرندوں کی،کمرے میں پھڑپھڑاتی ہوئی مینا کی اور اس کبوتر کی کہانی ہے جو ہمیں نئی کہانیوں کی تلاش میں نکلنے کا اشارہ دیتی ہے۔ میاں رضا ربانی کی کہانیوں میں نراس ہے، آس ہے۔ یہ آرزو ہے کہ مجبورِ محض لوگوں کو انصا ف ملے۔ انھوں نے اپنی کتاب کو Invisible People کا نام دیا ہے۔ یہ درماندہ اور نگاہوں سے اوجھل لوگ ہی کسی سماج کو بغاوت اور انصاف کی تلاش پر اکساتے ہیں۔
ایسے میں وہ حکایت یاد آتی ہے جس میں بہت سی چڑیاں کسی چڑیمار کے جال میں پھنس گئی تھیں اور زار زار روتی تھیں کہ اس قید سے نجات کیسے ہو، تب ان کے قریب سے پرواز کرتی ہوئی ایک آزاد اور دانش مند چڑیا نے کہا تھا تم بہت کمزور اور ناتواں ہو لیکن اگر تم سب اکٹھا اڑنے کی کوشش کرو تو اس جال سمیت اڑ جاؤگی۔ جال میں پھنسی ہوئی چڑیوں کو اس بات کا اعتبار نہیں آیا تھا لیکن پھر انھوں نے کوشش کی تھی، بھرا مارکر ایک ساتھ اڑی تھیں اور جال بھی ان کے ساتھ اڑتا چلا گیا تھا۔
انصاف کے طلب گار اور نظر نہ آنے والے لوگ ہی ہماری سب سے بڑی امید ہیں۔ اپنے حق کے لیے ان کی مشترک جدوجہد ہمیں ایک روشن راستے کی طرف لے جاسکتی ہے۔میاں رضا ربانی نے فوجی عدالتوں کے حق میں اپنا ووٹ آنسو بہاتے ہوئے دیا تھا، ان کے یہ آنسو ان کی کہانیوں میں بھی لہو کی طرح دوڑتے پھرتے ہیں اور ہمیں یقین دلاتے ہیں کہ سویرا بہت دور نہیں۔
(میاں رضا ربانی کی کتاب کے اجراء کے موقعے پر پڑھی گئی تحریر)