تاریک ذہن اور سرطان زدہ روح
عرب کی دینی تاریخ کا آغاز حضرت ابراہیمؑ سے ہوتا ہے
ISLAMABAD:
اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرنے والوں کی کمی ہرگز نہیں ہے کہ یہ ملک ہی لا الہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا کروڑوں اور اربوں کی تعداد میں موجود ہیں تمام مسلمان ایمان مجمل اور ایمان مفصل پر مکمل یقین رکھتے ہیں، یہ یقین ہی انھیں دائرہ اسلام میں داخل کرنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔
گزشتہ برسوں سے یا یہ کہنا چاہیے جب سے ہماری زندگیوں میں نیٹ کا عمل دخل ہوا ہے، برائیاں زیادہ پنپی ہیں اور اچھائی اور تعمیری عمل کو انھوں نے ہی اپنا لیا ہے جن کے ذہن صبح کی سفیدی کی طرح شفاف تھے، یہ بحث علیحدہ وقت کی متقاضی ہے۔سب سے اہم اور تکلیف دہ بات، دشمنان اسلام کی طرف سے امت مسلمہ کے جذبات اور مذہبی و دینی غیرت کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
تاریک راہوں کے مسافر بصیرت و بصارت سے مکمل طور پر محروم ہیں اور یہ محرومی یا بدنصیبی اللہ رب العزت کی طرف سے ملی ہے اس کی وجہ اللہ نے بلاتخصیص بنی نوع انسان کو روشن اور اندھیری راہوں کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کر دیا ہے، بارہا قرآن پاک میں فرمایا ہے، ''ہے کوئی ہدایت قبول کرنے والا؟ پانچوں وقت کی نماز میں، حی الصلوٰۃ...حی علی الفلاح'' کی صدا لگائی جاتی ہے، آؤ نماز کی طرف، آؤ نیکی کی طرف، لیکن گمراہ لوگ فلاح کی بات نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔
فیس بک پر عرصہ دراز سے شیطان کے پیروکار اپنے کالے ذہن اور گھٹیا ترین سوچ کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مفاد و زرپرستی انھیں چھیڑ خانی کرنے شیطانی کتابیں لکھنے کی طرف راغب کرتی ہے اور وہ گھناؤنی سازش کے تحت سوشل میڈیا پر اس مذہب کو نشانہ بناتے ہیں جو مکمل طور پر امن و سلامتی کا مذہب ہے، مسلمان تو مسلمان مشرقین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کردار اور اخلاق حسنہ سے متاثر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قصیدہ لکھنے پر مجبور ہیں اور بے شمار لوگ کلمہ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔
اللہ کا بڑا احسان ہے اور شکر ہے کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے توہین آمیز مواد کے خلاف مذمتی کردار سینیٹ میں منظور کی گئی، وزیر اعظم نواز شریف نے اس مذموم حرکت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ گستاخی کے ذمے داروں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
دین اسلام سوچ و فکر کی دعوت دیتا ہے، تدبر و تفکر سے ہی الجھی ہوئی گرہیں سلجھ جاتی ہیں۔ اس نے انسان کی ہدایت کے لیے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے ۔ لیکن گمراہ قوموں نے ان کا کہا ماننے سے انکار کیا، چنانچہ عذاب الٰہی نازل ہوا، کچھ بندر بنائے گئے، قارون اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا گیا، فرعون اور فرعون کی قوم کو پانی میں غرق کیا گیا، غرض نافرمانوں کو طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کیا گیا، لیکن سرکش اور متکبر لوگ اپنی ہی ضد پر ڈٹے رہے اور انھوں نے پیغمبروں کی نافرمانی کے ساتھ ساتھ انھیں قتل بھی کر ڈالا۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ نے کعبہ کی تعمیر اپنے صاحبزادے حضرت اسماعیل کے ساتھ کی، تعمیر کعبہ کے وقت اپنے رب سے کچھ اس طرح ہم کلام تھے کہ ''اے ہمارے رب! ہماری محنت قبول فرما، بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے۔''
عرب کی دینی تاریخ کا آغاز حضرت ابراہیمؑ سے ہوتا ہے، حضرت ابراہیمؑ کا پوری دنیا میں توحید کی روشنی کو پھیلانا اہم فریضہ تھا وہ عراق، مصر و شام گھوم چکے تھے لیکن کفر کی سیاہی چپے چپے پر نمایاں تھی لہٰذا وہاں کے باشندے اللہ کا پیغام سننے کو ہرگز تیار نہ تھے چنانچہ آپ علیہ السلام نے توحید کی اشاعت و تبلیغ کے لیے ریگستان عرب کا انتخاب کیا اور خدائے واحد کی پرستش کے لیے بے چھت ایک گھر بنا کر حضرت اسماعیلؑ کو اس کا متولی بنادیا، روئے زمین پر یہ پہلا گھر تھا، حضرت ابراہیمؑ کی دعا کی برکت سے ریگستان عرب آباد ہونے لگا۔
ظہور اسلام سے قبل عرب کی حالت ابتر تھی، بت پرستی عام تھی سیکڑوں بتوں کی پوجا ہوتی تھی، ان میں لات، منات، ہبل اور عزیٰ زیادہ باعظمت تھے۔ ہبل خاص خانہ کعبہ کی چھت پر نصب تھا۔ عرب کے لوگ دین ابراہیمی کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی شرکت اور بت پرستی میں مبتلا تھے ہر برائی ان میں رائج تھی، ان حالات میں ایک رہنما کی ضرورت تھی جو آئے اور اس زوال یافتہ معاشرے کو غیر مہذبانہ افعال اور اوہام پرستی اور بدی سے نجات دلائے۔ بیٹیوں کو تحفظ دیا، خواتین کو بلند مقام عطا فرمائے ان کے حقوق کا تعین کرے ان کی عزت و حرمت کے لیے اصول وضع کرے، چنانچہ عرب کی سرزمین پر حضرت عبداللہ کے گھر در یتیم جو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب طلوع ہوا جب رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک چھ سال کو پہنچی تو ماں کا شفیق سایہ بھی سر سے اٹھ گیا، آپ کی والدہ ماجدہ اپنے شوہر کی قبر پر اپنے پیارے بیٹے جوکہ پوری دنیا میں فضیلت و مرتبہ پانے والے نبی آخرالزماں کو لے کر مدینہ جا رہی تھیں راستے میں مقام ابواء پر ان کا انتقال ہوگیا والدہ ماجدہ کے وصال کے بعد آپؐ کی پرورش عبدالمطلب نے اور بعد میں دادا کی وفات کے بعد حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابوطالب نے کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچپن سے ہی نیک اور صادق تھے، اسی وجہ سے آپؐ کو صادق و امین کہہ کر پکارا جانے لگا۔ آپؐ گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت و ریاضت کرتے اور اس مقصد کے لیے غار حرا میں تشریف لے جاتے یہ وہی غار ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی ''اقرا باسم ربک الذی'' (پڑھ اپنے رب کے نام سے) نازل ہوئی۔ یہ واحد مذہب، مذہب اسلام ہے جس کے آخری پیغمبر کو اللہ تعالیٰ خود پڑھنے کی طرف راغب کر رہے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے پیروکار کو یہ رتبہ نصیب نہیں ہوا ہے۔
آپؐ کو معراج نصیب ہوئی، اللہ سے ہم کلام ہوئے اور نمازوں کا تحفہ ملا، جنت، دوزخ کا نظارہ اور پیغمبروں سے ملاقات ہوئی۔ آپؐ اپنے ان تمام دشمنوں کو فتح مکہ کے وقت معاف فرمادیتے ہیں جنھوں نے مکہ اور طائف کی گلیوں میں آپؐ پر ظلم و ستم ڈھائے تھے۔ ہے کوئی ثانی آپؐ کا؟
نبی پاکؐ جنگ احد میں دشمنوں کے تیروں سے زخمی ہوجاتے ہیں، ہر طرف سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی، آپؐ کے جانثاروں نے اپنے حصار میں لے لیا ہے، ان حالات میں بھی آپؐ دعا فرما رہے ہیں ''اے خدا! میری قوم کو بخش دے کہ وہ جانتے نہیں۔''
ایسی عظیم ترین ہستی جن کا صبر و تحمل، عفو و درگزر، صلہ رحمی، قناعت، شرافت، ایثار بے مثال ہو، عظیم المرتبت رسول نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر قرآن پاک نازل ہوا جن کی حضرت جبرائیلؑ سے گفت و شنید ، دوستی، ہمدردی اور محبت رہی، حضرت جبرائیلؑ وحی لے کر آئے اور سب سے پہلے آپؐ کا نور اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، آپؐ کی حیات طیبہ بنی نوع انسان کے لیے نمونہ ہے۔ اگر وہ انسان بننا چاہیں تو؟
جو نبی آخر الزماں پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر آیا ہو ان سے بغض و عناد رکھنا سیاہ قلب اور سرطان زدہ روح کی علامت ہے۔