کافی ہاؤس کلچر
سینیٹ چیئرمین سینیٹر میاں رضاربانی پر ابھی تک اشرافیائی کلچر کا رنگ نہیں چڑھا ہے
KARACHI:
سینیٹ چیئرمین سینیٹر میاں رضاربانی،ان معدودے چند پارلیمنٹیرین میں سے ایک ہیں، جن پر ابھی تک اشرافیائی کلچر کا رنگ نہیں چڑھا ہے۔ وہ آج بھی عوام کے درمیان ہوتے ہیں اور ان کے دکھ اور درد کو محسوس کرتے ہیں۔ ان کی حالیہ تخلیق Invisible People ان کے انھی مشاہدوں پر مشتمل کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی مہورت (اجرا) گزشتہ اتوار کو آرٹس کونسل میں ہوئی۔ جس میں شہر کے کئی معتبر اہل دانش نے کتاب پر اظہار خیال کیا۔ مگر یہاں ہمارا موضوع کتاب نہیں، بلکہ ان کی بے باکانہ تقریر کے وہ حصے ہیں، جن میں انھوں نے عدم برداشت اور عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بات کی۔
انھوں نے کہا کہ ایوبی آمریت کے خلاف جدوجہد میں طلبا تنظیمیں، ٹرید یونینیں اور اہل دانش نے ہراول دستہ کا کام کیا تھا۔ اہل دانش اور سیاسی کارکنوں کے روابط اور بحث ومباحث کے مراکز زیادہ تر کافی ہاؤسز اور کیفے ہوا کرتے تھے۔ جب جنرل ضیاالحق منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے، تو اس دور کے منصوبہ سازوں نے کوشش کی ان کے اقتدار کو طول دینے کے لیے درج بالا تینوں سلسلوں کو ختم کردیا جائے۔
چنانچہ ٹریڈ یونینوں کو پہلے عقیدے اور لسانی بنیادوں پر منقسم کیا۔ اس کے بعد ان میں سے بیشتر کو کرپٹ اور بدعنوان کرکے غیر فعال کردیا۔ جامعات اور کالجوں میں طلبا کی یونین سرگرمیوں پر پابندی عائد کرکے طلبا کے متشدد گروہوں کی سرپرستی شروع کردی۔ جب کہ ایسا ماحول پیدا کیا کہ کافی ہاؤس کلچر گہناتے ہوئے ختم ہوتا چلا گیا۔
کافی ہاؤسز یا قہوہ خانوں کی تاریخ خاصی پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج سے تین ہزار برس قبل معروف چینی فلسفی کنفیوشس اپنے شاگردوں کو لے کر شہر شہر، نگر نگر گھومتا تھا۔ مختلف لوگوں سے انھیں ملواتا تھا۔ پھرشام کو انھیں قہوہ خانے میں اکٹھا کرکے دن بھر کے تجربات پر ان سے گفتگو کیا کرتا تھا۔ یہی اس کا طریقہ تدریس تھا۔
کویت یونیورسٹی کے استاد پروفیسر بسم عجمی کا کہنا ہے کہ عباسی دور میں جب بغداد علم و حکمت کا مرکز ہوا کرتا تھا تو شہر کے مختلف علاقوں میں جامعات ومدارس اور کتب خانوں کے علاوہ کوئی ایک ہزار کے قریب قہوہ خانے تھے۔ جہاں غروب آفتاب کے ساتھ ہی عوام اور اہل دانش جمع ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ اہل علم و دانش کے لیے نشستیں مخصوص ہوا کرتی تھیں، جہاں وہ رات گئے تک علم و ادب کی گتھیاں سلجھاتے تھے۔ 1258 میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد یہ کلچر ختم ہوگیا۔
یورپ میں 16 ویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد کافی ہاؤسز کے کلچر نے تیزی کے ساتھ فروغ پانا شروع کیا۔ فرینکفرٹ کے ایک ریستوران میں بائیں بازو کے دانشوروں کا ایک گروپ ہر ہفتے سوویت یونین کی پالیسیوں کا ناقدانہ جائزہ لیا کرتا تھا۔ بعد میں اس گروپ نے تھنک ٹینک کی شکل اختیار کرلی اور Frankfort School of Neo-Marxian کہلایا۔ اس نے 1980 کے عشرے میں جو تجزیہ پیش کیا، وہ 1990 کے عشرے میں درست ثابت ہوا۔
اسی طرح پیرس کا Cafe de Flore بھی ایک قدیم ریستوران ہے، جس کے ایک کونے میں لگی نشست پر فلسفہ وجودیت کے معروف فلسفی ژاں پال سارتر کئی دہائیوں تک بیٹھے۔ اس ریستوران کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں پبلو پکاسو سمیت کئی بڑے اہل دانش اور تخلیق کار اس کے مستقل گاہک تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چین کے سابق وزیراعظم چو این لائی انقلاب چین سے قبل اپنے قیام فرانس کے دوران اسی ریستوران میں بیٹھا کرتے تھے۔
جب ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں تو 1977 تک پاکستانی سماج ترقی دوست راہوں پر گامزن تھا۔ یہاں ایسے ان گنت کافی ہاؤسز اور چائے خانے ہوا کرتے تھے، جہاں علمی بنیادوں پر سیاسی اور سماجی امور پر گھنٹوں بحث ومباحثے ہوا کرتے تھے۔ ہم نے جب ہوش سنبھالا اور طلبا سیاست کا حصہ بنے تو سکھر شہر میں ایسے کئی کافی ہاؤسز، چائے خانے اور ریستوران میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا، جہاں شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور سیاسی کارکنوں کا جمگٹھا لگا رہتا تھا۔ کوئنز روڈ کے کونے پر لوکس پارک کے سامنے کیفے نشاط ہوا کرتا تھا، جو ادیبوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ وکلا کی بیٹھک ہوا کرتا تھا۔
شہر کے اندر فیریئر روڈ پر ڈون ریستوران تھا، یہ ہم سے کچھ سینئر اور سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے طالب رہنماؤں خاص طورپر بابر ایاز، رفیق صفی منشی، شوکت قریشی، اختر جعفری اور رضوان اللہ خان مرحوم وغیرہ کی بیٹھک تھا۔ NSF (رشید گروپ) کے طلبا جن میں انعام میرانی، قیوم لالائی، سعادت حسین اور راقم شامل تھے، اکثر گھنٹہ گھر کے قریب میونسپل مارکیٹ میں کیفے الفرید میں ملا کرتے تھے۔
لاہور میں ویسے تو ان گنت ریستوران اور چائے خانے تھے، جو سیاسی کارکنوں کی بیٹھک ہوا کرتے تھے۔ لیکن پاک ٹی ہاؤس ادیبوں، شاعروں، صحافیوں اور قلمکاروں کی مرکزی آماجگاہ تھا۔ ہر ادیب، شاعر اور صحافی سے یہاں ملاقات ممکن تھی۔ حمید اختر مرحوم، عبداللہ ملک مرحوم، احمد ندیم قاسمی مرحوم سمیت کئی بڑے ادیبوں اور شاعروں سے اسی ریستوان میں ملنے کا اتفاق ہوا۔ اسی طرح مال روڈ پر لارڈز تھا، جہاں ہماری فیض صاحب مرحوم سے پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔
کراچی میں ان دنوں اہل علم اور دوستوں سے رابطہ کا واحد ذریعہ کافی ہاؤسز، چائے خانے اور ریستوران ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں شہر میں ملباریوں اور ایرانیوں (بالخصوص بہائی کمیونٹی) کے لاتعداد ریستوران تھے۔ جہاں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد شام کو دوستوں کے ساتھ گپ لگاتے اور اہل دانش علم وادب کی گتھیاں سلجھاتے۔ جب کہ سیاسی کارکن سیاست پر گرماگرم گفتگو کرتے نظر آتے تھے۔
1972 میں جب ہم کراچی آئے، تو اس زمانے میں گو کہ زیلن کافی ہاؤس اور فیڈرک کیفے ٹیریا بند ہوچکے تھے۔ مگر ریگل کے مقام پر کیفے جہاں اور کیفے اوڈین موجود تھے۔ کیفے جہاں علامہ علی مختار رضوی مرحوم کی خصوصی بیٹھک تھا۔ طارق روڈ کے وسطی چوراہے پر کیفے لبرٹی ہوا کرتا تھا، جو معراج بھائی مرحوم کی مستقل بیٹھک تھا۔ نارتھ ناظم آباد میں میٹرک بورڈ سے ذرا آگے کیفے الحسن تھا۔ یہ سابق طالب علم رہنما شہنشاہ حسین مرحوم اور حسن رضوی ایڈوکیٹ مرحوم کی مستقل بیٹھک تھا۔
زیب النسا (سابقہ الفسٹن) اسٹریٹ پر کیفے الفی ہوتا تھا۔ اس کے دروازے کے ساتھ معروف ڈرامہ نگار حمید کاشمیری کے دو کھوکھے ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک میں کتابیں اور دوسرے میں پینٹنگس فروخت ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری مرحوم صبح سے رات کے اول پہر تک یہیں ملتے تھے۔ اس کیفے میں زیادہ تر ادبا اور شاعر بیٹھتے تھے۔
پروفیسر سحر انصاری سے ہماری پہلی ملاقات اسی ریستوران میں ہوئی۔ اسی سڑک پر جبیس ہوٹل کا ریستوران بھی ادیبوں، قلمکاروں اور سیاسی کارکنوں کی مستقل بیٹھک تھا۔ اس سے ملحق عمارت فرید چیمبر کے گراؤنڈ فلور پر سینٹرل کافی ہاؤس ہر وقت ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں سے بھرا رہتا تھا۔
شاہین کمپلکس کے سامنے جہاں سے آئی آئی چندریگر روڈ شروع ہوتی ہے، وہاں کونے کی عمارت میں خیرآباد ریستوران کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ یہ زیادہ تر صحافیوں کی بیٹھک ہے۔ کیونکہ اس سڑک پر کئی چھوٹے بڑے اخبارات کے دفاتر ہیں۔ ناظم آباد میں کیفے الحسین اور IBA سٹی کیمپس کے کونے پر کیفے مبارک بھی قلمکاروں کی بیٹھک رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مضافاتی بستیوں میں بھی ان گنت ایسے کیفے اور ریستوران تھے، جہاں سیاسی کارکن بیٹھتے تھے۔
سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد، سیاسی سرگرمیوں کا ایک اہم مرکز ہے۔ یہاں سندھ کی سیاست کی سمت کا تعین ہوتا ہے۔ حیدر آباد میں ویسے تو چھوٹے بڑے کئی ریستوران سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہے ہیں۔ لیکن کراچی ہوٹل، سلطان ہوٹل، کیفے جارج اور کیفے فردوس خاص طور پر نمایاں رہے ہیں۔ جو 60 اور 70 کے عشروں میں سیاسی و ادبی مباحث کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ میر علی احمد تالپور مرحوم اور میر رسول بخش تالپور مرحوم سمیت کئی نامی گرامی سیاسی رہنما ان ریستورانوں کی مستقل رونقیں ہوا کرتے تھے۔
ہم سینیٹر رضا ربانی کی اس بات سے متفق ہیں کہ کافی ہاؤسز، کیفے اور چائے خانوں میں ہونے والے بحث ومباحثے لوگوں کی فکری تربیت کا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ جو معاشرے میں دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کی روایت ڈالنے کا باعث بنتے تھے۔ ان سے علم وآگہی میں اضافہ اور فکری بالیدگی کی راہ ہموار ہوتی تھی۔ مختلف نقطہ ہائے نظر کے لیے قبولیت، برداشت اور رواداری جیسے احساسات پروان چڑھتے تھے۔ اس کلچر کے ختم ہوجانے کی وجہ سے معاشرے میں فکری بے راہ روی اور شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔
آج لوگوں کی ذہنی آسودگی اور معلومات کا واحد ذریعہ الیکٹرانک میڈیا رہ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آیا الیکٹرانک میڈیا یہ کام سرانجام دے رہا ہے یا نہیں، جو کافی ہاؤسز یا کیفے دیا کرتے تھے؟ گوکہ یہ ایک طویل بحث ہے، مگر ہم سمجھتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا ان مباحث کا نعم البدل نہیں ہے، جو کافی ہاؤسز میں ہوا کرتے تھے۔