ہولی خیبرشکن مجاہدین و بت شکن محافظین

وطن عزیز میں گوہر دانش کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہمارے ہنگامی حالات کی فہرست کچھ کم ہے



عالم انسانیت کا کرب: وطن عزیز میں گوہر دانش کی کوئی کمی نہیں اور نہ ہمارے ہنگامی حالات کی فہرست کچھ کم ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے انتہاپسند و دہشتگردانہ کارروائیوں سمیت مغرب کے دیے گئے جمہوری نظام نے خرابات پیدا کیے ہوئے ہیں۔ کرپشن سے لے کر غداری تک کے زمرے میں آنے والے پہلوؤں کا اگر بغور نظر جائزہ لیا جائے تو ان کی گہری جڑوں میں مغربی جمہوریت اور اس کی نام نہاد وسیع النظری کا دیمک جدید استعماریت کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو بدنام کرتے نظر آنے لگتا ہے۔

جب کہ انسانیت دشمن قوتیں دیگر انسانی گروہوں کی طرح اب ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ باور کرانے میں جتی ہوئی ہیں کہ پاکستان کے موجودہ بھیانک مسائل کا سبب اس کا وہ خوبصورت نظریاتی تصور ہے جو موجودہ دنیا کی جدیدیت سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جسے ترقی پسند اور وسیع النظر بنائے جانے کی ناگزیریت کو نظر انداز کرنا نہ صرف پاکستان کے مسائل کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے گا بلکہ عالم انسانیت کو بھی مزید کرب میں مبتلا کیے رکھنے کے لیے دوام بخشنے کا باعث بنتا رہے گا۔

جمہوری وسیع النظری: ''ہمارا مغربی جمہوری طبقہ'' وسیع النظری و ترقی پسند مظاہروں میں مگن ہے۔ اس ضمن میں ملک کی دو بڑی جمہوری قوتوں کی مثال دی جاسکتی ہے، یعنی پہلی مثال پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا رہڑکی میں ''شیو لنگ'' کو دودھ سے نہلانے کے ساتھ اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر عبادت کے انداز میں کھڑے رہنا۔ صرف ایک مسلمان کی بات نہیں ہے بلکہ ایک عالم وقائد کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ وہ مذہبی طور پر ''شیو لِنگ'' کے رائج تصور وتخیل کو سمجھے بغیر وہ رسم ادا کرے یا کسی لیڈر کی جانب سے ایسا کیے جانے کو نظر انداز کرسکے۔ جب کہ اسی سلسلے کے تسلسل میں ہندوؤں کے ہولی نامی ایک اور تہوار کے موقع پر پارٹی چیئرمین کی دیکھا دیکھی اس کے سربرآوردہ رہنماؤں سمیت منتخب اراکین اسمبلی کو ہولی کے رنگوں میں رنگتے دیکھا جانا ممکن ہوا ہے۔

جن کے زیر اثر سندھ کے بعض علاقوں میں اہم پولیس عملدار اور انتظامی افسران بھی ریاستی لباس و محکماجاتی وردیوں میں ملبوس ہوتے ہوئے ہولی کے رنگوں میں نہ صرف رنگے گئے بلکہ بڑے ہی فخریہ انداز میں جمہوری وسیع النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی تصویروں کو سوشل میڈیا کی زینت بھی بنایا گیا۔ جب کہ دوسری مثال میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا کراچی میں ہولی تہوار کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے دوران مذاہب عالم کی اساسی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے اپنے نظریاتی تشخص کو نشانہ بنایا جانا قابل ذکر ہیں۔

بھیانک تاثر: مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ہولی کے رنگ تو نہیں لگائے البتہ میاں محمد نوازشریف نے جو فرمایا اس کی بنیاد پر بہت سے بنیادی اہمیت کے سوالات کسی اژدہے کی طرح اپنا پھن پھیلائے کھڑے ہونے لگے ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی ریاست کے انتظامی سربراہ نے اپنے جوش خطابت میں ریاستی دینی تشخص کے خلاف اس کے قیام کے پہلے دن سے ہندوستان سمیت پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کی تائید کردی۔ ایسا تاثر دیا جانے لگا تھا کہ جیسے انسانیت کا درس دینے والے مذاہب کے درمیان اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انتہاپرستی کی تعلیمات دیتا ہے، اور پاکستان ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جس میں اسلام کی وجہ سے عام طور غیر مسلم اور خاص طور ہندو اقلیت غیر محفوظ ہے اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرایا جاتا ہے۔

کھلی حقیقت: منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اپنے خطاب کے دوران ایک بار بھی ہندوؤں میں رائج جہیز کی لعنت پر بات نہ کی، جوکہ ان کی غیر شادی شدہ بچیوں کی معصوم و کومل حسرتوں کی قاتل ہے۔ جس کی بھیانک عملی شکل دیکھنے کے لیے سندھ کے صرف جیکب آباد شہر میں مسلمان ہونے والی لڑکیوں کی داستانیں ہی ملاحظہ کیجیے کہ جن کے بعد ان کے دیگر گھر والے بھی مسلمان ہوئے تھے۔ ان کو کسی نے بھی زبردستی مسلمان نہیں بنایا تھا۔ ایسا تاثر دے کر میڈیا پر شوشہ چھوڑ کر ہندوستان نقل مکانی کرجانے والوں نے لائیو ٹیلی کاسٹ تو دکھائے۔ لیکن پاکستان سے اس قسم کا تاثر دے کر نقل مکانی کرجانے والوں کا وہاں جو حشر، نشر ہوتا رہتا ہے اس پر تو سب کے ہونٹ سلے ہوئے ہیں، لیکن وہاں سے تنگ ہوکر جو خاندان واپس پاکستان آئے ہیں، ان کی واپسی پر کسی نے کوئی ''برننگ ایشو'' نہیں بنایا۔

اگر تفصیل چاہیے تو کہیں اور ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے، سندھ بلوچستان کے بارڈر پر قائم انتہائی پسماندہ ترین شہر گڑھی خیرو کا ہی ایک وزٹ کرلیں کہ جس میں آپ کو ایسے خاندان مل جائیں گے جو ہندوستان سے پاکستان میں نقل مکانی کرکے واپس ہوئے ہیں۔ حالانکہ وہ ہندوستان کے انتہائی جدید اور ترقی یافتہ شہروں کی جانب نقل مکانی کرکے گئے تھے۔ جب کہ دوسری جانب ہولی کا تہوار بھی پہلاج کی کہانی میں انتہا پسندی کو ہی ظاہر کرتا ہے کہ جس میں اس نے اپنی ہی بہن کے آگ میں جل جانے کے بعد اس کی راکھ سے ہولی کھیلی تھی۔ اس انتہاپسندی پر بھی کسی کے نہ لب ہلے اور نہ ہی قلم میں جنبش ہوئی۔ کتنی بھیانک حقیقت ہے کہ اس کے تسلسل میں آج ''خون کی ہولی'' کھیلنے کی رائج اصطلاح بھی اس رسم کی انتہاپسندی کو ظاہر کرتی ہے۔

جمہوری دانشور مجاہدین: ہمارے بعض جمہوری وسیع النظر و ترقی پسند دانشوران کرام ان تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرنے کے ساتھ ساتھ گوہر دانش بکھیرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مغل بادشاہ بھی اپنی ہندو پتنیوں کے ساتھ اپنے قصر میں ہولی منایا کرتے تھے۔ یہ رنگوں کا تہوار ہے، یہ رنگ امن ومحبت کا پیغام ہیں، مذاہب بھی تو انسانیت کا درس دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل دانش حضرات کا جذبہ دیدنی ہوتا ہے کہ جب وہ کہتے ہیں اقلیت کیا اکثریت کیسی، حالانکہ وہ ''دین الٰہی'' کو پہچانتے ہیں تو ان مغل محل سراؤں میں نشاط آور رقص وسرود کی محفلوں کو بھی جانتے ہیں۔

تو کیا آگے چل کر ہمیں کہنا چاہیے کہ ہمارے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں بھی ایسی رقص و سرود کی محفلوں کا انعقاد کیا جانا چاہیے؟ چونکہ کثیرالمذاہب ملک ہونے کے باعث پھر تو ''دین الٰہی'' کے اطلاق کی باتیں بھی کی جانے لگیں گی؟ کیا کریں جناب، ان کا اگر بس چلے تو وہ اپنی وسیع النظری میں گائے کے حلال گوشت کو بھی خود پر حرام کردیں۔ جب تمام مذاہب انسانیت کا درس دیتے ہیں تو پھر ان کے لیے صرف مسلمان بن کر رہنا ہی کیوں ضروری ہے؟ وہ چاہیں تو دنیا کا کوئی سا بھی مذہب اختیار کرسکتے ہیں، ان کے لیے اسلام سے وابستہ رہنا کون سا ضروری ہے؟ اس قسم کے سیاق و سباق میں ہمیں یقین ہے کہ ہماری جغرافیائی سرحدوں کے خیبر شکن مجاہدین کی طرح ہماری نظریاتی سرحدوں کے بت شکن محافظین بھی چیتے کی آنکھ سے اپنے ملی مسائل کے شکار پر جھپٹنے، لپکنے اور پلٹنے میں مصروف ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔