سندھ تجھے سلام

جنگ شاہی کی بجلی مہینوں سے بند، عوام کو شدید مشکلات،کارخانوں کو تالے لگ گئے



لاہور: جنگ شاہی کی بجلی مہینوں سے بند، عوام کو شدید مشکلات،کارخانوں کو تالے لگ گئے، پانی کے بحران نے سر اٹھالیا۔اس بحران کی وجہ سے روزانہ اجرت پرکام کرنے والے سیکڑوں مزدوروں اور ان کے خاندانوں پر فاقہ کشی کا عالم ہے، تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل ہوچکی ہیں،اسکولوں اور مساجد میں بھی پانی موجود نہیں ہے، شہری کئی کئی کلومیٹرکا سفر طے کرکے نہروں سے روزانہ پانی لانے پر مجبور ہیں۔ یہ شہر عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو، ضلع ناظم غلام قادر پلیجو اور سینیٹر سسی پلیجو کا آبائی شہر ہے۔

سوال یہ ہے کہ سسی کو خود تاریخ کے حساب سے اور شاہ صاحب کے کلام کے مطابق آرام کہاں ملا، پنہوں کے بھائیوں نے سسی کو سلادیا اور پنہوں کو لے کر فرار ہوگئے۔ اپنے والد کے حکم پر اور ہم نے عابدہ پروین کی زبان میں یہ خوبصورت کلام بھی سنا ہے کہ ''لگی والیاں نوں نیند نئیں آندی تے تیری کیویں اکھ لگ گئی'' یعنی جن کو دل کی لگی ہو وہ تو سوتے نہیں ہیں۔ اے سسی! تیری کیسے آنکھ لگ گئی ۔

اخبار میں اور بھی دلچسپ خبریں ہیں۔ان کو دلچسپ کہہ کر دراصل میں خود اپنے دکھ کو دھوکا دے رہا ہوں مداوے کی صورت کہ یہ میرا صوبہ ہے اور اس کا کم ازکم دکھ تو میرا ہے۔ ایک خبر جھڈوکے کئی علاقوں میں پانی کی شدید قلت، بعض علاقوں میں شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، سالانہ وارہ بندی کے نام پر نہروں کو بند ہوئے ڈیڑھ ماہ ہوچکا تھا، لہٰذا واٹر ٹینکس میں ذخیرہ آب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک دن کا ناغہ اور پانی کی کم فراہمی یعنی دورانیے کوکم کرنے کا سلسلہ جاری ہے نظام اپ گریڈ نہیں ہے سپلائی کا لہٰذا کچھ علاقوں میں پانی نہیں پہنچ رہا، چھ محلوں میں پانی نہیں پہنچ پا رہا اور یہاں کے لوگ برتن اٹھائے پانی کے لیے پریشان پھرتے نظر آتے ہیں۔ ٹینکر مافیا کی چاندی ہوگئی ہے وہ لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔

یہیں سے ایک خبر ہے کہ ٹاؤن کمیٹی کے گھوسٹ ملازمین کو شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔ چیئرمین صاحب نے فرمایا ہے کہ کام چور ملازمین کی نشاندہی ہوگئی ہے اور اگر وہ ایک ہفتے کے اندر اندر ڈیوٹی پر حاضر نہ ہوئے تو ان کی تنخواہیں روک دی جائیں گی۔

گھارو بلدیہ کے برطرف ملازمین نے تیسرے روز بھی بھوک ہڑتال جاری رکھی کہ ان کی چھ ماہ کی تنخواہ ادا کی جائے، بلدیہ کے ملازمین بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ پیپلز پارٹی کے تین اور (ن) لیگ کے چار کونسلروں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دیکھ رہے ہیں آپ کام کرنے کے بارے میں کہیں سے جھڈو والوں کو حمایت نہیں ملی ہے کہ لوگ تنخواہ لے رہے ہیں تو کام کریں، کوئی عوامی نمایندہ نہیں بول رہا کیونکہ یہ گھوسٹ ملازمین ان کے ہی چٹے بٹے ہیں کچھ رشتے دارہوں گے، کچھ نوکری خرید فارمولے کے تحت آئے ہوں گے۔

دونوں صورتوں میں کام سے ان کا کیا واسطہ ، یہ تو پیدا ہی تنخواہ وصول کرنے کے لیے ہیں۔ کام وہ کریں کہ جن کی کوئی سیاسی حمایت نہیں ہے یا غلطی سے وہ ایمان دار ہیں۔ اس دور میں سیاسی حمایت نہ ہونا اور ایماندار ہونا دوہرا جرم ہے۔ برطرف شدہ ملازمین کو تنخواہ دینے کا رواج ہندوستان پاکستان کے علاوہ کہیں نہیں پایا جاتا۔ کیوں برطرف ہیں اگر سیاسی طور پر نہیں کیا گیا ہے تو یا تو وہ دو وجہ ہوں گی جو عرض کی ہیں۔ ورنہ پھر گھوسٹ ہوں گے۔ اگر گھوسٹ ہیں اور کسی نے کارروائی کرکے اس بھوت کو پکڑ لیا ہے تو شاباش۔ خدا کرے قابو رہے یہ بھوت اور جان چھوڑ جائے۔

آگے چلتے ہیں، تلہارکی سڑکیں کھنڈرات میں تبدیل، سیاسی وعدے پورے نہ کرنے پر عوام مایوسی کا شکار۔ خبر کی تفصیل تو سرنامے سے سمجھ آگئی، جو بات سمجھ نہیں آئی وہ یہ ہے کہ عوام اتنے بے وقوف مایوس کیوں ہیں۔ یہ وعدے تو نہیں تھے سیاسی وعدے تھے اور سیاسی وعدے سیاسی ضرورت کے تحت پورے کیے جاتے ہیں، پانچ سال میں ایک بار تو کام ہوتا ہے نا ہر سال نہیں ہوتا تو کیا ہوا۔

آرہا ہے الیکشن، اس کے قریب وعدے پورے ہوجائیں گے اور آپ پھر ان کو ووٹ دے دیں گے۔ یہ سیاسی حکمت عملی ہے۔ چار سال کا فنڈ مل جل کر ہڑپ۔ آخری سال کا Invest کردو تاکہ مزید آیندہ چار سال سرکاری آمدنی سے کاریں، بنگلے، زمینیں خریدی جاسکیں۔ ایک اور خبر بدین کی 46 یونین کونسلیں ایک سال سے بجٹ سے محروم، رقم جاری نہ ہونے سے عوامی نمایندے مشکلات کا شکار۔ استعفے دینے پر غور،کرایہ ادا نہ کرنے پر مالکان دفاتر کی جگہ خالی کرانے لگے۔

ہے نا لطیفہ یہ دفاتر عرف عام میں صدیوں سے ہیں مگر کرائے کی مد میں خوردبرد کرنے کے لیے اپنے دفاتر نہیں بنائے گئے، خطیر رقم کرائے میں جائے گی اور Share ذمے داروں کو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رقم جاری نہ ہونے سے عوامی نمایندوں کو مشکلات، کیوں مشکلات؟ جو بجٹ جاری کرتے ہیں ان کا کچھ حق نہیں ہے کیا؟ کیا بہتی گنگا صرف آپ کی ہے آپ ہی ہاتھ دھوئیں گے؟ عمرکوٹ میں اربوں کی اسکیمیں جاری ہیں یہ تیمور تالپور معاون خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ فرما رہے ہیں یعنی پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔

معاون خصوصی نے ایک اجلاس میں اپنا فرض ادا کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لیے بھرپوراقدامات کررہے ہیں اورترجیحی بنیادوں پر شہری ودیہی عوام کے بنیادی مسائل حل کررہے ہیں۔ سندھ کے عوام بہت جلد تبدیلی محسوس کریں گے۔ایک خبر ہے کہ میرپورخاص میں گندے پانی کی نکاسی اورصاف پینے کے پانی کا مسئلہ سنگین ہے ۔ آر او پلانٹس کا پانی چیک نہیں کرایا گیا۔ 1962 کے بعد شہر میں کوئی پانی کی نئی لائن نہیں ڈالی گئی ہے۔ سالڈ ویسٹ پلانٹ نہیں ہے اور بہت سے مسائل ہیں۔ سول اسپتال کا فضلہ شہر میں چارمقامات پر ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔

میرپورخاص عمرکوٹ سے بھلا کتنا دور ہے؟ اورکیا یہ سندھ کا حصہ نہیں ہے۔ یہ بات ہم صرف میرپورخاص کے لیے نہیں کہہ رہے بلکہ ہر اس علاقے کے لیے کہہ رہے ہیں جہاں گھوسٹ بجٹ، گھوسٹ افسران، گھوسٹ ملازمین ہیں اور صرف عوام وہاں اصلی ہیں اور زندہ اور اصل ہونے کی سزا پا رہے ہیں۔ ایسا تو ہوتا جب تک گوئبلزکے پروپیگنڈے کے تحت یہ پارٹیاں آپ کو بے وقوف بناتی رہیں گی اورآپ بنتے رہیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔

چلتے چلتے نواب شاہ میں ایکسائز پولیس نے پانچ کروڑ روپے کی چرس پکڑ لی۔ قومی شاہراہ پرکنٹینر سے ایک من اعلیٰ کوالٹی کی چرس برآمد۔ یہ کام خفیہ اطلاع پر سکرنڈ کے قریب ناکہ لگا اوراخبار کے لیے خبر بنی۔

سوال یہ ہے کہ یہ سالانہ چرس پکڑنے کا پروگرام تھا یا ماہانہ۔ کیونکہ چرس کھیتوں سے چل کر ساحل سمندر تک خود تو نہیں آجاتی۔ اس کے سہولت کارکون ہیں KPK سے کراچی تک۔ وہ اعلیٰ کوالٹی کے ہیں ذرا ان کو تو پکڑ کر دکھائیں۔

اور پھر کچھ اخبار لکڑیاں جلاکر اخباری فوٹو بن جائیں گے کہ چرس جلادی گئی جب کہ وہ پورے سندھ میں اطمینان اور آرام سے بذریعہ مرد و زن کارکن فروخت ہوکر 5 کی 50 کروڑ ہوجائے گی۔ یہ روز کا تماشا ہے اور اسے دیکھتے دیکھتے ہم بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ قانون کے رکھوالے قانون سے بچنے کے طریقے مجرموں کو بتاتے ہیں تاکہ دونوں کا دامن اورکام صاف رہے۔

ملک کے ایک اخبار کے ایک دن کے مہران نامے کی چند جھلکیاں ہمارے کردار کو واضح کررہی ہیں، صرف چند خبریں تھیں۔ ایک دوسرے کا منہ چڑاتی خبریں۔ ہم علاقے، زبان، رنگ و نسل، عقیدے پر اس قدر تقسیم ہیں کہ صحرا کے ایک طرف بدین کا کیا حال ہے اوردوسری طرف عمرکوٹ کا کیا حال۔

رہ گیا کراچی، حیدرآباد، سکھر اور نوابشاہ تو وہ الگ الگ داستانوں کے منظرنامے ہیں، نورجہاں نے کیا اچھا گایا تھا:

کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں

ہزاروں ہیں ، شکوے کیا کیا بتاؤں

سندھ تجھے سلام! پاکستان کا حصہ ہے مگر لگتا نائیجیریا کا کوئی علاقہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں