رملہ فلسطین کا پہلا اسلامی شہر

تاریخ کی پنہائیوں میں جنم لینے والی دلچسپ ومعلومات افروز داستان


تاریخ کی پنہائیوں میں جنم لینے والی دلچسپ ومعلومات افروز داستان۔ فوٹو : فائل

یہ 976ء کی بات ہے جب مشہور عرب جغرافیہ نگار' شمس الدین مقدسی رملہ پہنچا۔وہ اپنے سفر نامے (احسن التقاسیم فی معرفہ الاقاسیم)میں لکھتا ہے: ''رملہ ایک ارضی جنت کے مانند ہے۔ وہ میرے آبائی شہر' بیت المقدس کی طرح فطری حُسن سے مالا مال خطہ ہے۔ شہر کی عمارتیں نفیس اور سخت پتھروں سے بنی ہیں۔پانی شیریں اور با افراط ہے ۔ پھلوں کے درخت جا بجا نظرآتے ہیں۔ تجارت کا دورہ دورہ ہے اور بازار اشیائے ضرورت سے بھرے پڑے ہیں۔''

وادی فلسطین میں رملہ کو وہ پہلا شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے جسے مسلمانوں نے بسایا اور خوب ترقی دی۔ اس شہر کی تاریخ حیرت انگیز ' دلچسپ اور سبق آموز ہے۔ شہر کے کھنڈرات انسان کو غور و فکر کرنے پر ابھارتے اور یہ پیغام دیتے ہیں کہ دنیا فانی ہے' نام رہے بس اللہ کا!

مسلمانوں نے حضرت شرحبیلؓبن حسنہ اور حضرت عمر و بن العاصؓ کی قیادت میں 635ء میں علاقہ فلسطین فتح کیا۔ تب علاقے پر رومیوں کا قبضہ تھا جنہیں مختلف معرکوں میں شکست فاش ہوئی۔ یہ علاقہ پھر ''جندفلسطین'' کے نام سے خلافت اسلامیہ کا ایک صوبہ بن گیا۔اوائل میں یروشلم اس صوبے کا صدر مقام تھا۔ تاہم شہر میں غیر مسلموں کی کثرت تھی' لہٰذا مسلمان حاکموں کو یہ صدر مقام غیر محفوظ محسوس ہوا۔ چنانچہ انہوں نے یروشلم سے 45 کلومیٹر دور واقع شہر' اللد (Ludd) کو نیا صدر مقام بنا لیا۔

جند فلطسین بہ لحاظ رقبہ زیادہ بڑا صوبہ نہیں تھا' تاہم زرخیزی کی بنا پر وہاں اشیائے خورنوش بڑی مقدار میں پیدا ہوتی تھیں۔ یہ اشیا پھر پوری خلافت میں بھجوائی جاتیں ۔ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کی قربت نے بھی جند فلسطین کو اہم صوبہ بنا دیا۔ یہی وجہ ہے' اوائل ہی سے نامی گرامی مسلم شخصیات اسی صوبے کی کمانڈر مقرر ہوتی رہیں۔ ان میں سلیمان بن عبدالملک کو نمایاں حیثیت حاصل ہے جو بعدازاں خلافت امیہ کے ساتویں خلیفہ مقرر ہوئے۔

چھٹے اموی خلیفہ' ولید بن عبدالملک نے اپنے چھوٹے بھائی' سلیمان کو702ء کے لگ بھگ جند فلسطین کا والی یا گورنر بنایا تھا۔ سلیمان بن عبدالملک ہی نے رملہ شہر کی بنیاد ڈالی تاکہ اس کو نیا صدر مقام بنا سکیں۔ یہ شہر705ء تا 715ء کے عرصے میں تیار ہوا۔ عربی میں ریت کو ''رمل'' کہتے ہیں۔ چونکہ علاقے میں ریت کے ٹیلے بکثرت تھے لہٰذا نئے شہر کو ''رملہ'' کا نام دے دیا گیا۔

اللد اہم شاہراؤں کے اتصال پر واقع تھا۔ ایک اہم شاہراہ قاہرہ کو دمشق سے ملاتی تھی۔ جبکہ د وسری شاہراہ بحیرہ روم کی بندرگاہ عقبہ سے بیت المقدس تک جاتی ۔ لہٰذا تزویراتی جغرافیائی حیثیت نے اللد کو اہمیت دے ڈالی۔ مسئلہ یہ تھاکہ شہر میں کوئی قلعہ نہ تھا۔ اس لیے گورنر سلیمان وہاں بھی مسلمانوں کو غیر محفوظ تصّور کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ نیا صدر مقام بنا کر وہاں قلعہ تعمیر کیا جائے۔

اسلامی مورخین نے شہر رملہ تعمیر کرنے کی ایک اور دلچست وجہ بھی بتائی ہے۔ گورنر سلیمان کے والد' عبدالمک بن مروان نے بیت المقدس میںاس جگہ ''قبۃ الصخرہ'' تعمیر کیا جہاں سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عالم بالا تشریف لے گئے تھے۔ ان کے بھائی' ولید اول نے دمشق میں مسجد امیہ کی تعمیر کا آغاز کیا جو اپنی خوبصورتی و عظمت کے باعث تعمیراتی شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ چناںچہ سلیمان بھی ایسا تعمیراتی کارنامہ انجام دینا چاہتے تھے جو تاریخ میں ان کا نام زریّں حروف سے لکھوا دے۔ اسی سوچ کے زیراثر انہوں نے نئے شہر کی بنیاد ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ وہاں مسجد امیہ ہی کی طرز پر ایک عظیم الشان مسجد بھی تیار کرانا چاہتے تھے۔

705ء میں شہر کی تعمیر شروع ہوئی۔ سب سے پہلے قلعہ تعمیر ہواتاکہ حکمران اور اسلامی لشکر کے سپاہی وہاں قیام کر سکیں۔ اسی دوران گورنر سلیمان نے مسجد کی تعمیر بھی شروع کرا دی جسے ''مسجد ابیض'' کا نام دیا گیا۔ یہ بھی مسجدامیہ کے مانند عرب فن تعمیر کا بے مثال نمونہ تھی۔

مسجد ابیض 720ء میں مکمل ہوئی ۔جلد ہی اللد اور فلسطین کے دیگر علاقوں سے کئی باشندے رملہ آ کر بس گئے۔ تجارتی شاہراؤں پرواقع ہونے کی وجہ سے یہ نیا شہر ا ہم تجارتی مسکن بھی بن گیا۔760ء تک رملہ اپنی معاشی اہمیت اور آبادی کے لحاظ سے فلسطین اور قرب وجوار کے علاقوں کا اہم ترین شہر بن گیا۔ مصر' شام اور عراق سے تجارتی قافلے رملہ آنے جانے لگے۔ان ممالک کے تاجروں نے رملہ میں وسیع گودام تعمیر کیے تاکہ اپنا تجارتی سامان وہاں ذخیرہ کر سکیں۔



789ء میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید نے شہر میں ایک تہہ خانے میں بہت بڑا ذخیرہ آب تعمیرکرایا۔ اس زمانے میں اسے ''بیئر ال عنزیہ'' کا نام دیا گیا تھا۔آج کل یہ ''برکۃ الاقواس ''(The Pool of Arches) کہلاتا ہے۔ اس ذخیرہ آب کے ستون مضبوطی' پائیداری اور خوبصورتی کا بے مثال نمونہ ہیں۔ اس ذخیر ہ آب میںایک آبراہ (Aqueduct) سے پانی آتا تھا۔

رملہ ایک بھرے پر ے شہر کی صورت خوب ترقی کررہا تھا کہ گیارہویں صدی میں اس انسانی آبادی پر آفات ارضی نازل ہو گئیں۔ 1033ء ' 1068ء اور 1070ء میں رملہ شدید زلزلوں کا نشانہ بنا۔ ان قدرتی آفات نے سارا شہر تباہ کر ڈالا اور ہزاروں انسانوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیا۔ کئی سال رملہ ویران پڑا رہا۔جب صلیبی وہاں پہنچے تو شہر بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ آخر مصری مملوک حکمرانوںکے دور میں کھنڈروں نے دوبارہ انسانی آبادی کا چولا پہن لیا۔ مشہور مملوک سلطان' بیرس نے مسجد ابیض نئے سرے سے تعمیرکرائی۔ تاہم رملہ پہلے جیسی انتظامی و تجارتی حیثیت حاصل نہ کر سکا۔سات سو سال بعد 1948ء میں عرب۔ اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے رملہ پر قبضہ کر لیا۔

1948ء میں رملہ کی آبادی سولہ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں 85فیصد مسلمان' 10فیصد عیسائی اور 5 فیصد یہودی تھے۔ اسرائیلی فوج نے کئی نہتے مسلمان شہید کر دیئے اور بقیہ کو جلاوطن کر ڈالا۔چنانچہ آج رملہ کی 80فیصد آبادی یہود پر مشتمل ہے۔

رملہ میں تاریخی آثار ہی شہادت دیتے ہیں کہ یہ شہر طویل عرصہ مسلمانوں کی آماج گاہ رہا ہے۔ ان آثار قدیمہ میں مسجد ابیض کا مینار اور ''برکۃ الاقواس '' قابل ذکر ہیں۔ یہود نے تو ''برکۃ الاقواس '' میں کشتیاں چلا دی ہیں۔ اسرائیل اور بیرون ممالک سے ہر سال ہزار ہا سیاح رملہ آتے اور اسلامی آثار قدیمہ کی سیاحت کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے باعث اسرائیلی حکومت ہر سال کروڑوں ڈالر کماتی ہے۔

ایک ہزار سال قبل مسلمانوں نے جو شہر بسایا تھا' افسوس کہ وہ آج اغیار کے قبضے میں ہے۔ یہود نے پہلے تو فلسطینی مسلمانوں کی سادگی و شرافت سے فائدہ اٹھایا اور فلسطین میں وسیع پیمانے پر زمینیں خرید لیں۔ پھر مسلم حکمرانوں کی نااہلی اور عدم اتفاق نے انہیں یہ سنہرا موقع عطا کر دیا کہ وہ خطہ ِفلسطین میں اپنی مملکت قائم کر لیں۔ آج رملہ اسرائیل کے ضلع وسطی کی ایک تحصیل اور اس کا صدرمقام ہے۔ شہر میں تقریباً 74 ہزار نفوس بستے ہیں۔ اسی علاقے میں اسرائیل میں سمینٹ کاسب سے بڑا کارخانہ واقع ہے۔

مسجدابیض سفید سنگ مرمر سے بنائی گئی تھی' اسی لیے اسے یہ نام (بہ معنی سفید) دیا گیا۔ 1047ء میں مشہور ایرانی مدبر و سیاح' ناصر خسرو رملہ آیا تھا۔ وہ اپنے ''سفر نامے'' میں لکھتا ہے:'' شہر کی جامع مسجد (ابیض) نہایت دلکش وخوش نماہے۔ وہ 200قدم لمبی اور 300قدم چوڑی ہے۔ شہر میں ہر گھر میں ذخیر آب موجود ہیں۔ انہیں بارش کے پانی سے بھر جاتا ہے۔ مسجد میں بھی ایک بڑا ذخیرہ آب واقع ہے۔ اس سے ہر شہری کو پانی لے جانے کی اجازت ہے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں