پاکستان کا نیا عسکری نظریہ

ہمیں موجودہ صورتحال کا تجزیہ اس طرح نہیں کرنا چاہیے کہ مشرقی سرحدوں پر ہر طرف امن کے پھول کھل رہے ہیں.


Ghulam Mohi Uddin January 14, 2013
[email protected]

''بریکنگ نیوز'' ہمارے معاشرتی منظر پر نمودار ہونے والی ایک بالکل نئی چیز ہے۔ انتہائی مختصر عرصہ میں بے پناہ آزادی اور وسعت حاصل کرنے والے ہمارے میڈیا اور پاکستان کے عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو چکا ہے اور شاید میڈیا اور اس قارئین و ناظرین کے باہمی تعلق کی مضبوطی کا ایک اہم سبب ''بریکنگ نیوز'' بھی ہے۔

کوئٹہ میں دہشت گردی کے ہولناک واقعے سے پہلے جو خبر ہمارے میڈیا پر ایک دھماکے کے ساتھ سامنے آئی، وہ پاکستان کے نئے فوجی ڈاکٹرینNew Militry Doctrine کے بارے میں تھی۔ اس کا اُردو ترجمہ '' نیا عسکری نظریہ'' ہو سکتا ہے۔ ہمارے چینلز اور اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شایع ہوئی اور جس کسی نے اسے دیکھا یا پڑھا یہی تاثر لیا کہ پاکستان کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اس کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں بلکہ طالبان اور پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کرنیوالے دیگر گروپ ہیں۔

لہٰذا اب پاک فوج کی دفاعی ترجیحات کی دستاویز (Militry doctrine ) میں بھارت کے بجائے ملک کے اندر برسرپیکار مسلح گروہوں کو دشمن نمبر1 قرار دے دیا گیا ہے۔ اور اب کے بعد ہماری توجہ بھارت کے بجائے افغانستان کی سرحد پر زیادہ مرکوز رہے گی۔ یہ تاثر وقتی طور پر بعض مخصوص عناصر کے نقطہ نظر کو سہارا تو فراہم کر سکتا ہے لیکن اصل حقائق اور اس خطے کی صورت حال کے تناظر میں اس تاثر کو حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ آیئے اس معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس خبر کو بھارت میں بھی دلچسپی سے سنا گیا لیکن بھارتی میڈیا کا رد عمل تضحیک آمیز تھا۔ ایسا تاثر دیا گیا جیسے ''پاکستان کو نوشتہء دیوار نظر آنے لگا ہے'' بھارتی خفیہ ایجنسی 'را ' کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے سابق سربراہ اور معروف عسکری تجزیہ نگار بی۔رامن نے اپنے حالیہ کالم کا آغاز بڑے مزاحیہ انداز میں کچھ اس طرح کیا '' کیا یہ انتہائی دلچسپ بات نہیں کہ پاکستان نے طالبان کو بھارت سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے''۔ اُن کا یوں بات کرنا بالکل بجا ہے اور ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے۔ میرے خیال میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے نیا فوجی نظریہ قرار دینا ہی درست نہیں۔

درحقیقت پاک فوج کی گرین بک میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں ملک کو درپیش اندرونی خطرات کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اندرونی انتشار کی اس کیفیت کو اس نئے باب میں sub-conventional warfareکا نام دیا گیا ہے۔ عسکری ماہرین دنیا میں پنپنے والی اس نئی قسم کی گوریلا جنگ کو Fouth Genration Warfare کا نام دیتے ہیں۔ حربی سائنس کے اُصولوں اور ادوار کے لحاظ سے جنگوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس میں جدید ترین حربی دائو پیچ استعمال ہو رہے ہیںاور اس کا نشانہ پاکستان بن رہا ہے۔

اس جدید حربی حکمت عملی کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی جنگ جس میں جنگ اور سیاست اور سپاہی اور شہری کو جدا کرنے والی حدود ہی مٹا دی جاتی ہیں، اس طرح کی جنگ کااہم ترین ہدف اپنے مدمقابل کی فتح یاب ہونے کی خواہش کو مسمار کرنا ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کم و بیش گزشتہ ایک دہائی سے ہم بدترین دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں۔ جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ یہ تھی کہ ہماری پولیس جو سول علاقوں میں امن و امان کی ذمے دار ہے' تکنیکی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل نہیں تھی' جب کہ فوج کو اس کام پر لگا دینے سے روایتی جنگ کی اس کی صلاحیت بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔

عسکری ماہرین نے جو کُلیہ ایسی صورتحال کے لیے وضع کر رکھا ہے، اس کے مطابق دہشت گردی اور گوریلا جنگ کا سامنا کرنے کے لیے ایک دہشت گرد کے مقابل فوج کے دس جوان درکار ہوتے ہیں۔ ایسی جنگ جاری رکھنے کے لیے بے پناہ انسانی اور مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، یوں ان دونوں صورتوں میں ہمیں خسارے کا سامنا ہے۔ میرے نزدیک تو نیا باب اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ دہشت گردی ہمارے دشمنوں کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ لہٰذا اس سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ایک مستقل فورس کا قیام ضروری ہے جس کی تربیت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مخصوص ہو اور بہتر یہی ہو گا کہ اس کی کمان فوج کے پاس ہی ہو۔

اس حوالے سے دوسری اہم بات اس نئے باب کی شمولیت اور اس کے اعلان کا وقت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ناٹو اور امریکی افواج واقعی 2014ء میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑی تعداد میں امریکی فوج کے افغانستان میں مستقل قیام کا معاملہ بھی مشکلات میں پڑجائے۔ دوسری طرف ''قیام امن اور تعمیر نو'' کے نام پر 10 ہزار سے زائد بھارتی فوجی افغانستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان نے پاکستان کی سرحد کے قریبی شہروں اور قصبوں میں 24 قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔

اس سارے انتظامات کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردی کو غیر معمولی حد تک بڑھاوا دینا ہے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے وقت ہماری مغربی سرحدوں پر دو طرح کے مسائل سراُٹھائیں گے۔ پہلا یہ کہ شکست کی ذلت سے دو چار امریکی فوج وہاں سے نکلتے ہوئے پاکستان کو گہرے زخم لگانے کی کوشش کرے گی' ان کی واپسی کے حوالے سے کسی بھی ناہمواری کو بزور طاقت اپنے حق میں ہموار کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ امریکیوں کے جانے کے بعد طالبان ہی افغانستان کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کریں گے۔ ایسے میں بھارت کی یہ کوشش ہو گی کہ اگر طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی پرانی صورت بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو انھیں ہر قیمت پر سبوتاژ کیا جائے، امریکی انخلا پر عمل درآمد سے پہلے پہلے پاکستان کی حالت ایسی کر دی جائے کہ حالات موافق ہونے پر بھی وہ ان سے فائدہ اُٹھانے کے قابل نہ رہے۔ ایسے حالات میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ فوج کی جانب سے بالخصوص مغربی سرحدوں پر پیش آمدہ خطرات سے اپنی مکمل آگاہی کا اشارہ دے دیا جاتا، جو کہ ملٹری ڈاکٹرین میں 200صفحات پر مشتمل نیا باب شامل کر کے دے دیا گیا ہے۔

دراصل ہمیں موجودہ صورتحال کا تجزیہ اس طرح نہیں کرنا چاہیے کہ مشرقی سرحدوں پر ہر طرف امن کے پھول کھل رہے ہیں اور شانتی ہی شانتی ہے بلکہ حقیقت میں ہمارے ساتھ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لیے دشمن سرحد کی لمبائی میں 2200 کلو میٹر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانستان کی اتنی طویل کٹی پھٹی' ناہموار' پہاڑی سرحد اگلے دو سال میں مزید گرم ہونے کا اندیشہ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ خود بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کو دوسری ضرب لگانے کے لیے پُرسکون رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان کو تھکا کر چور کر دینے کے لیے مغربی سرحد کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ استعمال کرنے کی ٹھانی ہے' لہٰذا ہمیں بھی اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارے دشمنوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہے' اور اگر وہ اس بات سے غافل ہوں تو ان سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہو گا، کہ پاکستان اس وقت جس بُری حالت میں ہے' اگر وہ اس سے باہر آ گیا تو آیندہ کبھی اسے قابو کرنے کا موقع نہیں ملے گا' لہٰذا وہ یہ موقع کسی قیمت پر ضایع نہیں کریں گے۔

''بریکنگ نیوز'' ہمارے معاشرتی منظر پر نمودار ہونے والی ایک بالکل نئی چیز ہے۔ انتہائی مختصر عرصہ میں بے پناہ آزادی اور وسعت حاصل کرنے والے ہمارے میڈیا اور پاکستان کے عوام کے درمیان ایک مضبوط رشتہ قائم ہو چکا ہے اور شاید میڈیا اور اس قارئین و ناظرین کے باہمی تعلق کی مضبوطی کا ایک اہم سبب ''بریکنگ نیوز'' بھی ہے۔

کوئٹہ میں دہشت گردی کے ہولناک واقعے سے پہلے جو خبر ہمارے میڈیا پر ایک دھماکے کے ساتھ سامنے آئی، وہ پاکستان کے نئے فوجی ڈاکٹرینNew Militry Doctrine کے بارے میں تھی۔ اس کا اُردو ترجمہ '' نیا عسکری نظریہ'' ہو سکتا ہے۔ ہمارے چینلز اور اخبارات میں یہ خبر شہ سرخیوں میں شایع ہوئی اور جس کسی نے اسے دیکھا یا پڑھا یہی تاثر لیا کہ پاکستان کو اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اس کے لیے اصل خطرہ بھارت نہیں بلکہ طالبان اور پاکستان کے اندر مسلح جدوجہد کرنیوالے دیگر گروپ ہیں۔

لہٰذا اب پاک فوج کی دفاعی ترجیحات کی دستاویز (Militry doctrine ) میں بھارت کے بجائے ملک کے اندر برسرپیکار مسلح گروہوں کو دشمن نمبر1 قرار دے دیا گیا ہے۔ اور اب کے بعد ہماری توجہ بھارت کے بجائے افغانستان کی سرحد پر زیادہ مرکوز رہے گی۔ یہ تاثر وقتی طور پر بعض مخصوص عناصر کے نقطہ نظر کو سہارا تو فراہم کر سکتا ہے لیکن اصل حقائق اور اس خطے کی صورت حال کے تناظر میں اس تاثر کو حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں۔ آیئے اس معاملے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس خبر کو بھارت میں بھی دلچسپی سے سنا گیا لیکن بھارتی میڈیا کا رد عمل تضحیک آمیز تھا۔ ایسا تاثر دیا گیا جیسے ''پاکستان کو نوشتہء دیوار نظر آنے لگا ہے'' بھارتی خفیہ ایجنسی 'را ' کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے سابق سربراہ اور معروف عسکری تجزیہ نگار بی۔رامن نے اپنے حالیہ کالم کا آغاز بڑے مزاحیہ انداز میں کچھ اس طرح کیا '' کیا یہ انتہائی دلچسپ بات نہیں کہ پاکستان نے طالبان کو بھارت سے بھی بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے''۔ اُن کا یوں بات کرنا بالکل بجا ہے اور ہمیں یہی توقع رکھنی چاہیے۔ میرے خیال میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے نیا فوجی نظریہ قرار دینا ہی درست نہیں۔

درحقیقت پاک فوج کی گرین بک میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں ملک کو درپیش اندرونی خطرات کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے الگ سے حکمت عملی اور تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اندرونی انتشار کی اس کیفیت کو اس نئے باب میں sub-conventional warfareکا نام دیا گیا ہے۔ عسکری ماہرین دنیا میں پنپنے والی اس نئی قسم کی گوریلا جنگ کو Fouth Genration Warfare کا نام دیتے ہیں۔ حربی سائنس کے اُصولوں اور ادوار کے لحاظ سے جنگوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس میں جدید ترین حربی دائو پیچ استعمال ہو رہے ہیںاور اس کا نشانہ پاکستان بن رہا ہے۔

اس جدید حربی حکمت عملی کو مختصر الفاظ میں یوں بیان کر سکتے ہیں کہ ایک ایسی جنگ جس میں جنگ اور سیاست اور سپاہی اور شہری کو جدا کرنے والی حدود ہی مٹا دی جاتی ہیں، اس طرح کی جنگ کااہم ترین ہدف اپنے مدمقابل کی فتح یاب ہونے کی خواہش کو مسمار کرنا ہوتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کم و بیش گزشتہ ایک دہائی سے ہم بدترین دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں۔ جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ یہ تھی کہ ہماری پولیس جو سول علاقوں میں امن و امان کی ذمے دار ہے' تکنیکی اعتبار سے انتہائی ترقی یافتہ دہشت گردی سے نمٹنے کے قابل نہیں تھی' جب کہ فوج کو اس کام پر لگا دینے سے روایتی جنگ کی اس کی صلاحیت بُری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ عسکری ماہرین نے جو کُلیہ ایسی صورتحال کے لیے وضع کر رکھا ہے، اس کے مطابق دہشت گردی اور گوریلا جنگ کا سامنا کرنے کے لیے ایک دہشت گرد کے مقابل فوج کے دس جوان درکار ہوتے ہیں۔ ایسی جنگ جاری رکھنے کے لیے بے پناہ انسانی اور مادی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، یوں ان دونوں صورتوں میں ہمیں خسارے کا سامنا ہے۔

میرے نزدیک تو نیا باب اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ دہشت گردی ہمارے دشمنوں کی مستقل مزاجی کی وجہ سے ایک مستقل خطرہ بن چکی ہے۔ لہٰذا اس سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ایک مستقل فورس کا قیام ضروری ہے جس کی تربیت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مخصوص ہو اور بہتر یہی ہو گا کہ اس کی کمان فوج کے پاس ہی ہو۔

اس حوالے سے دوسری اہم بات اس نئے باب کی شمولیت اور اس کے اعلان کا وقت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ناٹو اور امریکی افواج واقعی 2014ء میں افغانستان سے نکل جائیں گی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تھوڑی تعداد میں امریکی فوج کے افغانستان میں مستقل قیام کا معاملہ بھی مشکلات میں پڑجائے۔ دوسری طرف ''قیام امن اور تعمیر نو'' کے نام پر 10 ہزار سے زائد بھارتی فوجی افغانستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان نے پاکستان کی سرحد کے قریبی شہروں اور قصبوں میں 24 قونصل خانے کھول رکھے ہیں۔ اس سارے انتظامات کا مقصد پاکستان کے اندر دہشت گردی کو غیر معمولی حد تک بڑھاوا دینا ہے۔ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے وقت ہماری مغربی سرحدوں پر دو طرح کے مسائل سراُٹھائیں گے۔

پہلا یہ کہ شکست کی ذلت سے دو چار امریکی فوج وہاں سے نکلتے ہوئے پاکستان کو گہرے زخم لگانے کی کوشش کرے گی' ان کی واپسی کے حوالے سے کسی بھی ناہمواری کو بزور طاقت اپنے حق میں ہموار کیا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ امریکیوں کے جانے کے بعد طالبان ہی افغانستان کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کریں گے۔ ایسے میں بھارت کی یہ کوشش ہو گی کہ اگر طالبان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کی پرانی صورت بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں تو انھیں ہر قیمت پر سبوتاژ کیا جائے، امریکی انخلا پر عمل درآمد سے پہلے پہلے پاکستان کی حالت ایسی کر دی جائے کہ حالات موافق ہونے پر بھی وہ ان سے فائدہ اُٹھانے کے قابل نہ رہے۔ ایسے حالات میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ فوج کی جانب سے بالخصوص مغربی سرحدوں پر پیش آمدہ خطرات سے اپنی مکمل آگاہی کا اشارہ دے دیا جاتا، جو کہ ملٹری ڈاکٹرین میں 200صفحات پر مشتمل نیا باب شامل کر کے دے دیا گیا ہے۔

دراصل ہمیں موجودہ صورتحال کا تجزیہ اس طرح نہیں کرنا چاہیے کہ مشرقی سرحدوں پر ہر طرف امن کے پھول کھل رہے ہیں اور شانتی ہی شانتی ہے بلکہ حقیقت میں ہمارے ساتھ جو ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے لیے دشمن سرحد کی لمبائی میں 2200 کلو میٹر کا اضافہ ہو گیا ہے۔ افغانستان کی اتنی طویل کٹی پھٹی' ناہموار' پہاڑی سرحد اگلے دو سال میں مزید گرم ہونے کا اندیشہ پہلے سے کہیں بڑھ گیا ہے۔ خود بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد کو دوسری ضرب لگانے کے لیے پُرسکون رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان کو تھکا کر چور کر دینے کے لیے مغربی سرحد کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پوری قوت کے ساتھ استعمال کرنے کی ٹھانی ہے' لہٰذا ہمیں بھی اس طرف توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے دشمنوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہے' اور اگر وہ اس بات سے غافل ہوں تو ان سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں ہو گا، کہ پاکستان اس وقت جس بُری حالت میں ہے' اگر وہ اس سے باہر آ گیا تو آیندہ کبھی اسے قابو کرنے کا موقع نہیں ملے گا' لہٰذا وہ یہ موقع کسی قیمت پر ضایع نہیں کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔