ذرا کوپن ہیگن تک
دوحہ قطر کے ساتھ ہماری یادوں کا سلسلہ تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے
کوئی تین ماہ قبل اخوت والے برادرم ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ ڈنمارک میں مقیم کچھ پاکستانی اخوت کی طرز پر گجرات اور سیالکوٹ کے علاقے میں غیر سودی چھوٹے قرضوں کا ایک سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اس کی تعارفی اور تشہیری مہم میں انور مسعود اور میں بھی ڈاکٹر امجد سمیت وہاں آئیں تاکہ اس کارخیر کو ایک باقاعدہ شکل دی جا سکے، اب چونکہ کار خیر میں شمولیت کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ہم سفروں کی معیت بھی شامل تھی اس لیے انکار یا معذرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
رکاوٹ اگر کوئی تھی تو وہ چند دن بعد کا غزالی فاؤنڈیشن کے برادرم عامر جعفری کے ساتھ طے شدہ کینیڈا اور انگلستان کا 22روزہ دورہ تھا جس کے ساتھ کچھ گھریلو اور خاندانی مصروفیات اور ایک تدریسی پروگرام بھی جڑا ہوا تھا، تدریسی مصروفیات سے درگزر تو ممکن تھا مگر عزیز بھتیجے طیب مجاہد کی شادی سے غیرحاضری ممکن نہ تھی، سو بات چیت کے بعد پروگرام اس طرح سے ترتیب دیا گیا کہ 24 سے 28 مارچ تک سکینڈے نیویا کو بھگتایا جائے (کہ اس دوران میں سویڈن کے سفیر اور عزیز دوست طارق ضمیر نے بھی میچ میں سے ایک دن اچک لیا) اور پھر 11اپریل سے 3مئی تک بالترتیب کینیڈا اور انگلستان کے وعدے ایفا کیے جائیں۔
اس دوران میں کوپن ہیگن سے Helping Humanity تنظیم کے نائب صدر عمیر اعجاز ڈار سے مسلسل رابطہ رہا، شنجیئن ویزے بھی بروقت لگ گئے اور 24مارچ کی صبح یہ قافلہ لاہور ایئرپورٹ سے قطر ایرویز کی فلائٹ سے روانہ ہوا جسے چار گھنٹے کی پرواز کے بعد تین گھنٹے دوحہ قطر میں رکنا تھا اور اس کے بعد تقریباً سات گھنٹے کا مزید سفر تھا، اگرچہ پی آئی اے کی ایک فلائٹ ہفتے میں ایک بار اوسلو سے ہوتی ہوئی کوپن ہیگن جاتی ہے جس کا کل دورانیہ سات گھنٹے ہے اور اس کی ٹکٹ بھی نسبتاً سستی ہے مگر پروگرام کی مجوزہ تاریخ اور فلائٹ کے متوقع مسائل کے پیش نظر براہ قطر سفر کو ترجیح دی گئی اور ایک بار پھر اس افسوسناک کیفیت سے گزرنا پڑا کہ جن ایئرلائنز کو پی آئی اے کے عملے نے پاؤں پر کھڑا کیا تھا۔
آج ان کی رپیوٹیشن پی آئی اے سے بہتر ہے اور یہ سب کچھ گزشتہ تیس چالیس برس میں ہوا ہے کہ اس سے پہلے تک ہماری اسی ایئرلائن کو دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار کیا جاتا تھا۔ انور مسعود کو پیدل چلنے میں دقت ہوتی ہے سو ان کے لیے حسب معمول ویل چیئر کا انتظام کیا گیا جس کا فائدہ اور نقصان ایک جیسے ہیں، فائدہ تو یہ کہ اس کی وجہ سے ہمیں سیکیورٹی چیک کی لمبی قطاروں میں نہیں لگنا پڑتا اور نقصان یہ کہ ہر ایئر پورٹ پر ہماری آمدورفت محدود ہو جاتی ہے کہ ویل چیئرز والوں کا اسٹاف صرف ایک جہاز سے دوسرے جہاز تک لے جانے کا پابند ہوتا ہے اور درمیان کا سارا وقت ان کی بنائی ہوئی انتظار گاہوں میں گزارنا پڑتا ہے۔
دوحہ قطر کے ساتھ ہماری یادوں کا سلسلہ تین دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ 1986 میں جب میں پہلی بار یہاں آیا تھا تو اس کا ایئرپورٹ ہمارے ملتان کے پرانے ایئرپورٹ سے بھی کچھ چھوٹا تھا لیکن اس پندرھویں یا شاید سولہویں سفر تک پہنچتے پہنچتے یہ وسعت اور ٹریفک کے اعتبار سے دنیا کے چند بڑے ایئرپورٹس میں شامل ہو چکا ہے۔ جہاں تک اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی سے اس علاقے کا تعلق ہے تو گزشتہ 21برس سے مجلس فروغ اردو ادب دوحہ قطر کے زیراہتمام یہاں سے ایک ایسا ایوارڈ بغیر کسی وقفے کے جاری ہے جو ہر سال پاکستان اور بھارت کے ایک ایک منتخب نثر نگار کو دیا جاتا ہے اور میری معلومات کے مطابق اپنے تسلسل اور معیار کے اعتبار سے اس وقت پوری دنیا میں یہ ایوارڈ پہلے نمبر پر آتا ہے۔
اس کے بانی ملک مصیب الرحمن مرحوم تو اب ہمارے درمیان نہیں رہے مگر ان کے ساتھی اور مجلس کے چیئرمین محمد عتیق کی سربراہی میں یہ قافلہ آج بھی پوری آب و تاب سے رواں دواں ہے، سو ایئرپورٹ کے اس تین گھنٹوں پر مشتمل وقفہ انتظار میں یہاں کے دوستوں کو خوب یاد کیا گیا۔ہمارا جہاز کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر عین دیے گئے وقت کے مطابق لینڈ کیا۔ میں1994 اور2012ء میں دوبارہ پہلے بھی یہاں آ چکا ہوں لیکن اب مسلسل اسفار اور کم و بیش ایک ہی طرح کے ایئرپورٹس دیکھ دیکھ کر کہیں بھی کوئی مانوس نشانی دامن کش نہیں ہوتی۔ ہم میں سے کوئی بھی میزبانوں کو صورت سے نہیں پہچانتا تھا سو اب آگے کا کام ان کا تھا۔
عزیزی عمیر اعجاز ڈار نے بتایا کہ آج وہاں غیر معمولی رش تھا وسیم بیگ' حکیم اللہ' زین اور خواجہ حسین مہدی سمیت ان کے کئی ساتھی ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے مگر زیادہ خوشگوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ ان کی تنظیم سے متعلق خواتین کا ایک گروپ بھی ہار اور کیمرے لیے موجود تھا کہ فی زمانہ شادی بیاہ سمیت ہر تقریب میں سب سے زیادہ فعال کیمرے ہی نظر آتے ہیں۔ چودہ گھنٹے کے طویل سفر کی تھکن کی وجہ سے ہم نہ تو میزبانوں کی پرخلوص مسکراہٹوں کا مناسب جواب دینے کی پوزیشن میں تھے اور نہ ہی چیزیں کچھ زیادہ صاف نظر آ رہی تھیں۔
ہمیں ہوٹل Tivoli لے جایا گیا جسے ڈینش زبان میں چھی وولی بولا جاتا ہے، ہوٹل خاصا بڑا تھا معلوم ہوا کہ ہمارے کمرے قدرے فاصلے پر تعمیر ایک الگ بلاک کی پانچویں منزل پر ہیں جب کہ ناشتہ گاہ ریسپشن والی عمارت کی دوسری منزل پر واقع ہے۔ اگلے دن صبح سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم روانگی کے لیے ہمیں نو بجے ایئرپورٹ پہنچنا تھا کہ وہاں برادر عزیز سفیر پاکستان طارق ضمیر نے23مارچ کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں اور باتوں سمیت ڈاکٹر امجد ثاقب کو اخوت کا تعارف کرانا اور مجھے اور انور مسعود کو شاعری سنانا تھی۔ یہ سب کام کیسے ہوئے اس کا احوال اگلے کالم میں اس تقریب کے ساتھ بیان ہو گا جس کے لیے اصل میں یہ سفر کیا گیا تھا اور جس کے لیے ہمیں اگلی صبح دوبارہ کوپن ہیگن کا سفر کرنا تھا۔