صحابہ کرام ؓ امت کے راہ نما

اہل بیت کرامؓ اور اصحاب عظامؓ، کمالات نبوتؐ کے شاہ کار ہیں۔


دنیا میں ﷲ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت قرآن کریم میں ذکر فرما دی ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI: آل و اصحاب نبی رضی ﷲ عنہم پر تاریخی روایات کی پڑی ہوئی گرد ان کے مبارک و مقدس، منور و مجلّیٰ، خوب صورت و خوب سیرت چہروں کی تابناکی کو کبھی دھندلا نہیں سکتی۔

اہل بیت کرامؓ ہوں یا اصحاب عظامؓ، دونوں شمع رسالتؐ کے پروانے، آسمان نبوتؐ کے روشن ستارے، بستان نبوتؐ کے مہکتے پھول، آفتاب رسالتؐ کی چمکتی شعائیں، آغوش نبوتؐ کی پروردہ ہستیاں اور کاشانۂ نبوتؐ کے فیض یافتہ شمار ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ رسول، خالق ارض و سما کا شاہ کار اور انوارالہی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل بیت کرامؓ اور اصحاب عظامؓ، رسول خداؐ کے انمول شاہ کار اور کمالات نبوتؐ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔

قدرت خود حُسن نبیؐ کو نکھارتی اور جمال حبیبؐ کو سنوارتی ہے۔ کیوں کہ جمال حبیبؐ میں کمال محب جھلکتا ہے۔ اسی طرح رسالتؐ اپنے اہل بیتؓ اور اصحابؓ کے نفوس و قلوب کا تزکیہ و تصفیہ کرتی ہے، ان کی عملی زندگی کے گلے میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مالا ڈالتی ہے۔ کیوں کہ انہی مبارک ہستیوں کی سیرت و کردار سے حسن نبوتؐ کی خْو آتی ہے اور جمال رسالتؐ نمودار ہوتا ہے۔

اہل بیت کرامؓ ازواج نبیؓ اور اصحاب کرامؓ، رسولؐ اکرمؐ کے پھولوں سے لدا ایک حسین گل دستہ ہے جو اپنی عطر بیزیوں سے اقوام عالم کے قلوب و اذہان کو توحید باری تعالی، ختم رسالتؐ، صداقت قرآن، یوم میعاد اور ایمانیات کی طرف مشک آفریں پیغام حق دیتا رہا ہے اور ان کا فیض قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ انہی کے جادہ منزل کو صراط مستقیم کا نام خدا کی لاریب کتاب ا ور لاشک کلام میں دیا گیا۔ انہی کے ایمان کو معیار قراردیا گیا جیسے کلام الہی کی معتبر وضاحت تشریح نبوت (سنت نبویؐ) ہے ایسے کلام رسولؐ کی معتبر اور مستند وضاحت تشریح صحابیؓ ہے۔ انہی کے قلوب میں رب ذوالعلیٰ نے جھانک کر دنیوی و اخروی اور دائمی و ابدی کام یابیوں کے اعزاز عطا فرمائے۔

شریعت اسلامیہ میں صحابہ کرامؓ ان برگزیدہ لوگوں کو کہا جاتا ہے جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو، آپؐ کی صحبت سے مستفید ہوئے ہوں اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ یہ سب کے سب جنتی ہیں، سب مخلص مومن ہیں، تمام معاملات بالخصوص شریعت کو امت تک پہنچانے میں قابل اعتبار و قابل اعتماد ہیں، ﷲ تعالیٰ ان سب سے راضی اور وہ سب کے سب ﷲ تعالیٰ سے راضی ہیں۔

دنیا میں ﷲ نے ان کے جنتی ہونے کی بشارت قرآن کریم میں ذکر فرما دی ہے۔ تمام صحابہ کرامؓ اصحاب فضل ہیں۔ لیکن جیسے انبیائے کرامؑ میں فضیلت کے اعتبار سے مختلف درجات ہیں ایسے ہی صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے بارے بھی مختلف درجات ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں۔

فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہؓ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے۔ صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ غزوہ بدر والوں میں سے وہ زیادہ افضل ہیں جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ دس خوش نصیب صحابہ کرامؓ جن کا آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے نام لے کر ایک ہی مجلس میں جنّتی ہونے کی بشارت سنائی۔ عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں۔ یعنی سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہم اجمعین اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ کی ہے۔

صحیح بخاری میں ہے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں میں بہترین میرے زمانے والے ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہیں۔

صحیح مسلم میں ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صَرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔

سنن ابو داؤد میں حضرت سعید بن زید رحمہ ﷲ فرماتے ہیں: کسی صحابیؓ کا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہوگیا ہو، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے، اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔

ابن ماجہ میں حضرت عبدﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں : حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو برا نہ کہو۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ گزرا ہوا ایک لمحہ تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔

مجمع الزوائد میں ہے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ نے نبیوں اور رسولوں کے بعد ساری دنیا سے میرے صحابہ کو منتخب فرمایا، میرے سب ہی صحابہ بھلائی والے ہیں۔

صحابہ کرام کے بارے مختصر طور پر چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔

٭ معیار صحابیت : عقائد اور مسائل کے مجموعے کا نام ''شریعت'' ہے۔ ﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں عقائد میں بھی بنیاد صحابہ رضی ﷲ عنہم کو بنایا ہے اور مسائل میں بھی بنیاد صحابہ رضی ﷲ عنہم کو بنایا ہے۔

٭ صحابیؓ نمائندہ مصطفیؐ ہوتا ہے : یعنی صحابیؓ کی آئینی حیثیت یہ ہے کہ وہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ﷲ رب العزت نے دین پیغمبرؐ کو دیا، پیغمبرؐ نے صحابہؓ کو دیا۔ نبیؐ کو ''نمائندہ خدا '' کہتے ہیں اور صحابیؓ کو ''نمائندہ مصطفیٰ ﷺ'' کہتے ہیں۔ کلام ﷲ کے معنی نبیؐ سمجھائیں گے اور کلامِ مصطفیؐ کے معنی صحابیؓ سمجھائیں گے۔

٭ کلام رسولؐ میں فہم صحابیؓ کی اہمیت : جیسے کلام ﷲ کے الفاظ بھی نبیؐ سے سیکھنے ہیں اور معنی بھی نبیؐ سے، اسی طرح حدیث پاک کے الفاظ بھی صحابیؓ سے لینے ہیں اور معنی بھی صحابیؓ سے۔

٭ نبی معصوم اور صحابی محفوظ ہوتا ہے: نبی معصوم ہے اور صحابی محفوظ ہے۔ معصوم کا معنی یہ ہے کہ ﷲ اپنے نبی سے گناہ ہونے دیتا نہیں اور محفوظ کا معنی کہ صحابیؓ سے گناہ ہو تو سکتا ہے لیکن ﷲ اس کے نامۂ اعمال میں باقی نہیں رہنے دیتا۔

٭ صحابہؓ معیار حق ہیں: جو نیک اعمال صحابہؓ نے کیے وہی نیک اعمال ہم کریں، اگر خدانخواستہ ہم سے گناہ ہوجائے تو پھر ہمارے دل کی کیفیت ویسی ہونی چاہیے جو ایسے موقع پر صحابہؓ کی ہوتی تھی کہ فوراً توبہ و استغفار میں مصروف ہو جاتے تھے۔

ﷲ جل شانہ نے صحابہ کرامؓ کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی اشاعت کے لیے منتخب کیا تھا، اس لیے ان کی فضیلت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے۔ اسلامی عقائد اور انسانی اخلاق کی اصلاح ویسے ہونی چاہیے جیسے صحابہ کرامؓ نے محنت کرکے ساری دنیا میں اپنے عمل سے واضح کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں