سپریم کورٹ بار حکومت عدلیہ تنائو ختم کرانے کیلئے متحرک

اداروںمیں تنائو کی کیفیت موجودہے،صورتحال برقرار رہی تو نقصان...


Ghulam Nabi Yousufzai July 30, 2012
اداروںمیں تنائو کی کیفیت موجودہے،صورتحال برقرار رہی تو نقصان ملک اورسسٹم کو ہوگا ،صدر سپریم کورٹ باریاسین آزاد کی گفتگو, فائل فوٹو

عدلیہ اور حکومت کے درمیان تنائو ختم کرانے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن متحرک ہو گئی ہے ،یکم اگست کو اس ضمن میں بارایسوی ایشن کا وفد صدر آصف زرداری سے ملاقات کرے گا۔ ذرائع کے مطابق این آر اوفیصلے کے پیرا گراف نمبر 178پر عمل درآمد یقین بنانے اور سوئس حکام کو خط لکھنے کا قابل عمل حل نکالنے کے لیے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن حکومت کو قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

اس ضمن میں کچھ وجوہات کی بنیاد پر وزیر اعظم سے ملاقات نہیں ہوسکی تاہم بار کے صدر یاسین آزاد کی سربراہی میں وفد یکم اگست کو صدر مملکت سے ملاقات کرے گا ۔ذرائع کے مطابق وفد ملک میں عدلیہ اور حکومت کے درمیان تنائو کے تاثر کو دور کرنے اور سوئس حکام کو خط لکھنے کے معاملے پر درمیانی راستہ اپنانے پر زور دے گا۔ذرائع کے مطابق اس حوالے سے بار ایسوی سی ایشن کو پاکستان بار کونسل اور بار کی سابق صدر عا صمہ جہانگیر کی بھی حمایت حا صل ہے تاکہ حکومت کو آمادہ کیا جاسکے کہ مزید محاذ آرائی سے ملک کو بہت نقصان ہو گا اس لیے حکومت کوئی درمیانی راستہ نکالے۔

ذرائع کے مطابق اس حوالے سے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کچھ ناگزیر وجوہات کی و جہ سے نہیں ہوسکی لیکن صدر مملکت نے ملاقات کے حوالے سے بار کی درخواست قبول کرلی ہے اور بدھ سپہر تین بجے ایوان صدر میں ملاقات طے پائی ہے۔ایکسپریس نے اس حوالے سے جب سپریم کورٹ بار کے صدر یاسین آزاد سے رابطہ کیا تو انھوں نے یکم اگست کو صدر سے مجوزہ ملاقات کی تصد یق کی اور بتایا کہ ملاقات میں ملک کی موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت اداروں میں تنائو کی کیفیت موجود ہے جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے ،اگر یہ صورتحال جاری رہی تو نقصان آخر کار ملک اور سسٹم کو ہوگا اس لیے سسٹم کو بچا نے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ یہ درست نہیں کہ وزیر اعظم نے ملاقات سے انکار کیا تھا اور یہ بھی درست نہیں کہ بار کے وفد نے وزیر اعظم ہائوس میں دو گھنٹے انتظار کیا بلکہ انھیں ملاقات کی منسوخی کے بارے میں ان کے ہوٹل میں اطلاع دی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں