استادِ محترم سیّد قاسم محمود کے کچھ عملی مشورے

آنکھوں دیکھی کہوں تو اپنی اسی عادت کی بناء پر سیّد صاحب لگاتار بیس بیس گھنٹوں تک لکھا کرتے تھے۔


علیم احمد April 01, 2017
ایک عظیم استاد کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی ہلکی پھلکی گفتگو میں وہ سب بتادیتا ہے، جسے درس گاہوں سے سیکھ کر ’’سند یافتہ‘‘ بننے کے لئے برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ فوٹو: فائل

اُستادِ گرامی سیّد قاسم محمود کا انتقال 31 مارچ 2010ء کے روز ہوا، اور کل اُن کی ساتویں برسی تھی لیکن زیرِ نظر تحریر کا مقصد استادِ محترم کی سوانح بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ یادوں اور باتوں کے ذریعے اُن کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو قارئین کے سامنے پیش کرنا ہے جو عملی اور مفید حیثیت رکھتے ہیں۔

اِس سے قطع نظر کہ دوسروں کے نزدیک خوش قسمتی اور خوش نصیبی کے کیا معنی ہیں، میری عاجزانہ اور انتہائی ذاتی رائے یہی ہے کہ اگر آپ کو اپنے وقت کے عظیم اساتذہ سے براہِ راست اکتسابِ فیض کا موقعہ میسر آجائے تو اِس سے بڑی خوش نصیبی کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ بتاتا چلوں کہ استادِ محترم جناب سیّد قاسم محمود نے اپنی پوری زندگی میں صرف تین شاگرد بنائے تھے: سلیم انور عباسی، سیّد عرفان احمد اور یہ ناچیز۔

وہ قلم کاری کے میدان میں میرے پہلے استاد تھے۔ انہوں نے مجھے قلم چلانا سِکھایا، الفاظ برتنے کا سلیقہ دیا، یہ بتایا کہ تقدیم و تاخیر کیا ہوتی ہے، اُس خطِ فاصل کا شعور دیا جو ترجمہ کرنے اور ترجمہ 'برتنے' کے مابین حائل ہوتا ہے، یہ سمجھایا کہ مُدیر کیا ہوتا ہے اور اچھا مُدیر کسے کہتے ہیں۔ غرض وہ سب کچھ سمجھایا اور سکھایا کہ جس نے مجھ نکمے کو صحافت اور ابلاغِ عامہ کی ڈگری، ڈپلومے اور سرٹیفکیٹ تک سے بے نیاز کردیا۔

اِسے میری خوش فہمی ہی سمجھ لیجیے کہ اگر استادِ محترم اپنی خود نوشت سوانح عمری ''دھوپ چھاؤں'' مکمل کرلیتے تو اِس کے آخری چند ابواب میں راقم کا کچھ نہ کچھ تذکرہ ضرور ہوتا۔

ایک عظیم استاد اپنی ہلکی پھلکی گفتگو میں وہ سب کچھ بتادیتا ہے، جسے درس گاہوں سے سیکھ کر ''سند یافتہ'' بننے کے لئے برسوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ ذیل میں ایسے ہی چند واقعات پیش کررہا ہوں، اِس اُمید پر کہ انہیں پڑھ کر کسی کا بھلا ہوجائے۔

 

اچھا ایڈیٹر وہ ہوتا ہے جو۔۔۔۔۔۔


ستمبر 1989ء میں اُستادِ محترم سے میری پہلی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ اِس دوران صحافت اور ابلاغِ عامّہ کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے کہنے لگے:

''اچھا ایڈیٹر وہ ہوتا ہے جو مضمون مسترد (reject) کرنا جانتا ہو۔''

اُس وقت یہ جملہ سُن کر سر ہِلا دیا لیکن سچ تو یہ ہے کہ اپنا معاملہ ''سر توں لنگھ گیا'' (سر سے گزر گیا) والا تھا۔ البتہ اِس ایک جملے کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ، درست طور پر سمجھنے میں تقریباً دس سال لگ گئے۔ اِس ایک دہائی میں ادارت (ایڈیٹنگ) اور مُدیری (ایڈیٹرشپ) کے مختلف تجربات سے گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اچھے ایڈیٹر کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ موصول ہونے والی ہر تحریر کو، ہر مضمون کو مسترد کرتا چلا جائے بلکہ اِس کا مطلب اِن حدود و قیود سے بخوبی واقف ہونا ہے جو کسی فرد پر مُدیر کی حیثیت سے عائد ہوتی ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ کسی تحریر کو مسترد کرنے کا تعلق ایڈیٹر کی ذاتی پسند کے بجائے کسی اخبار، رسالے، جریدے، ویب سائٹ وغیرہ کی ادارتی پالیسی سے ہوتا ہے۔

مثلاً اگر کوئی مصنف کسی اخبار کو اپنا ''تحقیقی مقالہ'' بھیج دے جس میں اُس نے کسی نئی دریافت یا ایجاد کا دعویٰ کیا ہو تو ایک اچھا مُدیر یہ جانتا ہے کہ کسی بھی تحقیقی مقالے (ریسرچ پیپر) کی اشاعت صرف تحقیقی مجلے (ریسرچ جرنل) ہی میں ہوسکتی ہے، اخبار میں نہیں۔ لہذا وہ شائستہ انداز میں مصنف سے معذرت کرلیتا ہے اور اِس مقالے کو مسترد کردیتا ہے، چاہے وہ اِس کا کتنا ہی قریبی واقف کار یا اچھا دوست ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اگر مُدیر اِن سب باتوں سے لاعلم ہے تو پھر وہ حماقت کر بیٹھے گا جس سے اخبار کی عزت بڑھنے کے بجائے بے عزتی ہوسکتی ہے۔



یہ واقعہ لکھنا اِس لیے بھی ضروری خیال کیا کیونکہ پاکستان میں ہر سال اوسطاً ایک مرتبہ ایسا ضرور ہوتا ہے جب کوئی شخص صرف ذرائع ابلاغ کی بدولت کسی نئی ایجاد یا اچھوتی دریافت کا دعویدار بن کر عوام کے سامنے پیش ہوجاتا ہے لیکن مزید چھان بین سے اِس کا دعویٰ بالکل غلط ثابت ہوتا ہے اور نتیجتاً سارے ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اگر ہمارے صحافی اور مُدیران یہ بات سمجھ لیں تو اِس سے ہمارے میڈیا ہی کا بھلا ہوگا۔

 

پہلا ڈرافٹ ہی آخری ڈرافٹ


سیّد صاحب کے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ''ماہنامہ سائنس میگزین'' (طالب علم) سے وابستگی کے ابتدائی دنوں میں ایک روز یہ ہوا کہ استادِ محترم نے کسی مضمون کا مسودہ مانگا تو میں نے جواب دیا کہ خام مسودہ تیار ہے، ایک دو گھنٹے میں آخری مسودہ تیار کرلوں گا۔ اِس پر سیّد صاحب نے سرزنش کرتے ہوئے کہا:

''میاں! پہلا ڈرافٹ ہی آخری ڈرافٹ ہونا چاہیئے۔''

اُس روز چائے پیتے ہوئے انہوں نے تقریباً دو گھنٹے تک جو کچھ سمجھایا، اُس کا لبّ لباب یہ تھا کہ کسی بھی تحریر کو کاغذ پر منتقل کرنے سے پہلے اُسے دماغ میں مرتب کرلیا جائے اور دماغ ہی میں حتمی شکل دی جائے۔ اِس کے بعد جب وہ کاغذ پر منتقل ہوگی تو پہلے ہی مرحلے میں آخری ڈرافٹ تیار ہوجائے گا۔ اِس طرح وقت کی بچت ہوگی اور کام کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ابتداء میں اِس نصیحت پر عمل کرنا خاصا مشکل محسوس ہوا لیکن پھر اُستادِ محترم نے رہنمائی فرماتے ہوئے بتایا کہ پہلے ایک ایک جملے کو اپنے دماغ میں حتمی شکل دے کر لکھا کرو۔ جب مشق ہوجائے تو پھر ایک ایک پیراگراف کے ساتھ یہی سلوک کرنے کی کوشش کرو، اور جب اِس کی مشق بھی پختہ ہوجائے تو ''پہلا ڈرافٹ دماغ میں اور آخری ڈرافٹ کاغذ پر'' منتقل کرنے صلاحیت بتدریج بہتر بناتے جاؤ۔

مجھے اعتراف ہے کہ اب تک میں اِس مشق میں پوری طرح سے طاق نہیں ہوسکا لیکن پھر بھی ٹوٹی پھوٹی کوششوں کے نتیجے میں تحریر اپنی مقدار اور معیار کے اعتبار سے خاصی بہتر ہوگئی۔ شوقیہ قلم کاروں کے علاوہ پیشہ ورانہ صحافی بھی اس صائب مشورے سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

 

گھڑی سے ریس لگاؤ


سیّد صاحب کی ایک خاص عادت تھی کہ جب وہ لکھنے بیٹھتے تو گھڑی اپنے سامنے رکھ لیتے اور 32 سطروں والا رجسٹر پیپر استعمال کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وہ اس طرح گھڑی سے ریس لگاتے ہیں کہ اگر انہوں نے آدھے گھنٹے میں رجسٹر پیپر جتنا مواد لکھ لیا (جو کسی صورت 400 الفاظ سے کم نہیں ہوتا تھا) تو وہ جیت جائیں گے اور اگر آدھے گھنٹے سے زیادہ ہوگئے تو گھڑی جیت جائے گی۔

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ استادِ محترم کی تیز قلمی کا ایک راز یہ بھی تھا۔

آپ اپنی سہولت کے اعتبار سے گھڑی کے ساتھ ریس لگانے کے لیے مختلف وقت کا تعین کرسکتے ہیں جسے آپ بتدریج کم کرتے ہوئے اِس مقام تک پہنچ سکتے ہیں کہ صرف 30 منٹ میں 400 یا 500 الفاظ تحریر کرلیں۔

 

چھوٹا منظر، بڑا منظر


استادِ محترم جناب سیّد قاسم محمود کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ وہ اپنے لکھنے پڑھنے کی جگہ ہمیشہ کھڑکی کے ساتھ یا کسی ایسے مقام کے نزدیک رکھا کرتے تھے جہاں سے وہ باہر دیکھ سکیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم لکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں تو ہماری نظر قریب کے چھوٹے منظر پر مرکوز ہوتی ہے اور زیادہ دیر تک مرکوز رکھنے کی وجہ سے آنکھوں میں درد ہونے لگتا ہے۔ لیکن اگر ہم وقفے وقفے سے اپنی نظریں کسی بڑے منظر کی طرف کرلیا کریں جس میں بڑی جسامت والی چیزیں ہوں تو اِس تبدیلی سے کچھ دیر کے لیے آنکھوں کو آرام ملے گا۔ اِس کے بعد جب ہم دوبارہ مطالعے یا تحریر کا آغاز کریں گے تو ہمیں تازگی کا احساس ہوگا اور اِس طرح ہم زیادہ دیر تک کام کرسکیں گے۔

آنکھوں دیکھی کہوں تو اپنی اسی عادت کی بناء پر سیّد صاحب لگاتار بیس بیس گھنٹوں تک لکھا کرتے تھے۔ اپنے محترم استاد کی تقلید کرتے ہوئے راقم نے مسلسل کئی گھنٹوں تک تحریر کا ہدف حاصل کیا ہے۔ آپ بھی کوشش کرکے دیکھئے، شاید آپ کو بھی فائدہ ہوجائے۔

سچ تو یہ ہے کہ استادِ محترم سیّد قاسم محمود کی نصیحتوں اور عملی مشوروں کا احاطہ کرنا اِس مختصر سے بلاگ میں ممکن ہی نہیں۔ البتہ کوشش کی ہے کہ روایتی اور لگے بندھے انداز میں اپنے استاد کو یاد کرنے کے بجائے اُن کی ذات سے حاصل ہونے والے فیض کا کچھ حصہ نئی نسل تک منتقل کروں۔

اگر اِس تحریر سے کسی بھی پڑھنے والے کو کچھ عملی فائدہ ہوتا ہے تو سمجھوں گا محنت وصول ہوئی؛ اور اِس تحریر کا اختتام بھی اپنے استاد کو یاد کرتے ہوئے، ان ہی کے انداز میں کروں گا:

آپ کا،
علیم احمد

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔




اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں