مستقبل دفن نہیں کیا جاسکتا
جماعت اسلامی بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سیاسی اتحادی ہے
مشرقی و مغربی پاکستان کی 24 سالہ مشترکہ تاریخ میں اس تلخی اور نفرت کے شواہد ملتے ہیں جن کی بنیاد پر 16دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش کی ریاست قائم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کو ابھی دوبرس بھی نہیں گزرے تھے کہ 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو جب شیخ مجیب الرحمن کی دعوت پر ڈھاکا گئے تو ''پاکستان زندہ باد'' کے نعروں سے ان کا پُرجوش عوامی استقبال کیا گیا۔نئے قائم ہونے والے ایکسپورٹ پروسیسینگ زونز میں پاکستانی سرمایہ کاروں کی جانب سے غیر معمولی دل چسپی دکھائی گئی، یہ اعتماد کی بحالی کی علامت تھی۔ اگلے 30 برسوں تک یہ تعلق دوستی میں بدل گیا لیکن پھر ماضی کی تلخیوں نے دوریاں پیدا کرنا شروع کردیں۔
عوامی لیگ کے دوسرے دور میں حسینہ واجد نے سب کچھ بدل ڈالا۔ 2009ء تک 71ء کی تلخی اور نفرت کو ہوا دے کر اجاگر کردیا گیا۔ بنگلادیش کی بانی پارٹی کی حیثیت سے عوامی لیگ نے بجا طور پر ہمیشہ قومیت پرستانہ ایجنڈے کو فروغ دیا۔ بھارتی ایما پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا پھیلایا گیا جس کے باعث محبت اور دوستی کے مضبوط ہوتے رشتے غیر ضروری طور پر نفرت میں تبدیل ہونے لگے۔
بھارت نے ان بنگلہ دیشیوں کا خوب استعمال کیا جن پر 1971ء میں جنگی جرائم کے الزامات تھے۔ 2010ء میں عوامی لیگ کی حکوت نے گڑے مردے اکھاڑنا شروع کیے۔ ان افراد پر مقدمات چلاکر حسینہ واجد نے بھارت سے عہدوپیماں نبھانے کا آغاز کیا۔ یہ مقدمات انٹرنیشنل کرائمز ٹرائیبیونل کے تحت چلائے گے، جو نام سے تو عالمی عدالت معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ عدالتیں 1973ء میں بنگلادیشی قوانین کے تحت قائم کی گئی تھیں۔
اکثر مرکزی ملزمان جماعت اسلامی کے کارکن تھے۔ جماعت اسلامی بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سیاسی اتحادی ہے۔ اسلام پسند سیکیولرازم کے لیے خطرہ تصور کیے جاتے تھے، عوامی لیگ جس کی علم بردار ہے۔ 2013ء کے آخر تک جماعت اسلامی کے چار رہنماؤں سمیت حزب مخالف کے کئی رہنماؤں کو آئی سی ٹی نے موت اور عمر قید کی سزائیں دیں۔ ''مجرم'' قرار پانے والے اکثر عالم دین اور بی این پی کی حکومت میں وزیر رہ چکے تھے۔
بیلفر سینٹر انڈیا اور ہارورڈ یونیورسٹی کے ساؤتھ ایشیا پروگرام سے منسلک روناک ڈی ڈیسائی نے( ہفنگٹن پوسٹ اورBerggruen انسٹی ٹیوٹ کی شراکت سے شایع ہونے والے) ورلڈ پوسٹ میں ''بنگلادیش میں جنگی جرائم کے خلاف مقدمات، انصاف کی عدم فراہمی'' کے عنوان سے لکھا ''ضوابط کے سقم اور بنیادی نوعیت کے نقائص کے باعث آئی سی ٹی میں چلنے والے مقدمات بین الاقوامی قوانین کے معیار پر کسی طور پورا نہیں اترتے۔ خصوصی عدالتیں اور آئی سی ٹی عوامی لیگ کی آلہ کار ثابت ہوئیں جنھیں سیاسی مخالفین کو ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ناقص کارروائیوں نے مشکل اور پیچیدہ سوال بھی اٹھائے کہ قدرے نوزائیدہ ریاست بین الاقوامی مسائل میں غیر جانب داری اور دیانت داری سے انصاف فراہم کر سکتی ہے۔ ٹرائبیونل کے جج استغاثہ کے ساتھ مل کر بلاخوف سازشیں کرتے پائے گئے۔ جذبہ انتقام سے بھڑکی ہوئی حکومت کی جانب سے عدالتی کارروائی میں مداخلت کے ثبوت کثرت سے سامنے آئے۔ وکلائے صفائی اور گواہوں کو ہراساں کرنے، دہشت زدہ کرنے اور گرفتار کرنے کی اطلاعات معمول بن گئیں۔''
29اکتوبر 2014ء کوالجزیرہ کی سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق''ہیومن رائٹس واچ اور انٹرنیشنل بار ایسوسی ایشن ان متعدد تنظیموں میں شامل ہیں جنھوں نے آئی سی ٹی کے نقائص، شفافیت اور عدل کے بین الاقوامی تقاضے پورے نہ کرنے اور ضوابط کی خلاف وزری کے باعث اسے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔''حسینہ واجد کی حکومت اس تنقید کو کسی خاطر میں نہیں لائی اور پاکستان مخالف ایجنڈے کو مزید تیز کر دیا۔ 2013ء کے بعد میاں نواز شریف اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے مابین دوستانہ روابط قائم ہوئے۔
1971ء کے بعد گزرنے والا وقت ماضی کے زخموں کو بھرنے کے لیے کافی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ حقائق کا حصول اور تصدیق دشوار تر ہوچکی۔ ماضی کے زخموں کو کریدتے ہوئے بنگلہ دیش خود تردیدی پر مصر ہے۔ افسانوں کے دلدادہ، ڈھاکا میں جنھیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے(''شاہ باغ'' میں احتجاج کرکے جو روزانہ ڈھاکا کی ٹریفک روک دیتے ہیں) اپنی مرضی کی بنگلہ دیشی تاریخ گھڑنا چاہتے ہیں۔ سرسری تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ ہوٹل شاہ باغ میں سکونت اختیار کرنے والے ماہرین کے اخراجات ''نامعلوم ذرایع'' کی جانب سے پورے ہورہے ہیں۔
بنگالیوں پر اجتماعی مظالم کے تاثر کو عام کرنے کے لیے وہ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں، جو ان کی ذاتی مفادات اور پاکستان کے خلاف جنونی نفرت کے ایجنڈے کا تقاضا ہے۔ ان داستانوں میں سب سے زیادہ من گھڑت اور بے بنیاد افسانہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج نے مارچ تا دسمبر 1971ء بنگالیوں کی ''نسل کُشی'' کی اور ''تیس لاکھ بنگالیوں'' کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس داستان کی بنیاد کسی اور نہیں خود شیخ مجیب الرحمن کے دعوے پر ہے۔ یہ مبالغہ آمیز اور بے معنی کہانی من و عن قبول کرلی گئی۔ میڈیا، مضامین اور کتابوں میں اسے کسی حوالے کے بغیر جوں کا توں پیش کیا جانے لگا۔ اس دعوے کی حقیت کو بنگلہ دیشی شہریوں سمیت کئی بین الاقوامی محققین نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔
شرمیلا بوس نے اس موضوع پر باریک بینی سے کئی گئی تحقیق پر مبنی اپنی کتاب 'Dead Reckoning' میں لکھا ''ہلاکتوں کی جو تعداد بتائی جاتی ہے، عینی شاہدین کے بیانات یا کسی سروے سے ان کی توثیق نہیں ہوتی۔ اس کے باوجود جنوبی ایشیا اور مغربی کی درس گاہوں اور میڈیا میں انھیں دہائیوں سے تصدیق کیے بغیر دہرایا گیا ہے۔'' وہ مزید لکھتی ہیں کہ علیحدگی پسندوں کی جانب سے پاکستانی فوج کو ''خوںخوار'' بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مظالم کی بے حقیقت داستانیں سنائی جاتی ہیں۔ بنگالیوں کو ''مظلوم'' بنا کر پیش کرنے والے ان غیر بنگالیوں کا کوئی نام تک نہیں لیتا، مشرقی پاکستان میں جن کا قتل عام کیا گیا۔
خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے بھارت کی شدید خواہش ہے کہ بنگلہ دیش اپنی اسلامی شناخت سے دستبردار ہوجائے۔ چین بنگلہ دیش میں توانائی اور دیگر شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے۔ بھارت اس بنگلادیش بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ کو زائل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے بھارت بنگلہ دیش کو اپنی معاشی ترقی میں بڑا حصہ دینے کے لیے آمادہ ہے۔
ماضی بدلا نہیں جاسکتا، لیکن عالمگیریت کے اس دور میں جب سرحدیں غیر اہم اور رکاوٹیں تحلیل ہورہی ہیں، بہتر مستقبل کے امکانات پیدا کیے جاسکتے ہیں۔
آج اقوام کے پاس اپنی بقا کے لیے باہمی انحصار بڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ تاریخ کے ایسے تاریک گوشوں کو دہرانے سے گریز کیا جائے جو باہمی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ عوامی رابطوں کو فروغ دے کر مفاہمت اور باہمی اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے اور وسیع البنیاد تعاون کی بنا ڈالی جاسکتی ہے۔بنگلہ دیش اور پاکستان کی سرحدیں جڑی ہوئی نہیں جس کی وجہ سے باہمی تعلقات کو درپیش چیلنجز مزید کم ہوجاتے ہیں۔ دونوں ممالک دہشتگردی کا شکار اور دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے حامی ہیں۔ دونوں مسلم ممالک کو سنجیدگی کے ساتھ اپنے اختلاف مٹانے ہوں گے۔ماضی کے آسیب سے رہائی حاصل کر کے مستقل مزاجی کے ساتھ مفاہمت کی فضا پیدا کرنا ہوگی۔ دلوں کی کدورتیں دور کرنے میں اب دیر نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کی تلخیاں دفن کی جا سکتی ہیں، مستقبل نہیں!