آئیے اداروں کو بنائیں
آج کل میڈیا کا زمانہ ہے سب کی نگاہیں اسی طرف لگی ہوئی ہیں
ISLAMABAD:
آج کل میڈیا کا زمانہ ہے سب کی نگاہیں اسی طرف لگی ہوئی ہیں اوراب یہ میڈیا پر ہے جسے چاہے کالا کہے جسے چاہے سفید ۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ بجائے ڈوری سْلجھانے کے اور اْلجھا دیتے ہیں اور جتنا بڑا لیڈر اْتنے ہی بڑے اس کے سننے والے۔ بس ٹی وی کے سامنے بیٹھو چینل تبدیل کرو ہر جگہ وہی چہرے نظر آئیں گے۔خبر اور پروپیگنڈا میں کل جو فرق تھا وہ گڈمڈ ہوگیا۔ پارٹیوں نے اپنے ترجمانوں کی بھی ڈیمانڈکے مطابق سپلائی شروع کردی ۔ بس اک اکھاڑہ ہے، نْورا کْشتی ہے اِس میں اْمید کی کِرن بھی ہے، تو منفی رویہ بھی ہے۔
اس میں میڈیا ، ٹیکنالوجی اور سائنس کا قصور نہیں۔ قصور فتورکا ہے جو دماغوں میں ہے۔ سوشل میڈیا بندکرنے کی باتیں ہوئیں توکسی نے یہ نہ دیکھا کہ وہ کاغذکی مانند ہے یا یوں کہیے خودکاغذ کا ارتقاء ہے۔کاغذ پرکوئی اچھا لکھے یا بْرا لکھے اِس میں کاغذ کا کیا قصور، تو پھر کاغذ کوکیوں جلایا جائے۔ یہ نیک نیتیں ہیں یا بدنیتیں، یہ اہلِ ہوس، اہل نفس، اہلِ بے یقیں، اہلِ جبر جب مسند پر بیٹھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں یرقان سا بھرجاتا ہے جو عام اور سادہ آنکھ دیکھ سکتی ہے وہ یہ لوگ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
تبھی توکہتے ہیں ادارے ہونے چاہئیں فرد پر نہیں اداروں پر چھوڑا جائے جو یہ تعین کرے کہ حقیقت کیا ہے۔فرد کی ذات کبھی کبھی اداروں پر مسلط ہوجاتی ہے۔ وہ اْن سماجوں یا ریاستوں میں ہوتا ہے جس کی تاریخ غلامی میں جکڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بحث سے ہٹ کر ایک دو مثالیں اس حوالے سے بھی دے دوں۔
ٹرمپ امریکا کا صدرتو بن گیا مگر آمر نہیں بنا۔یہ اْن کی بدنصیبی کہ اس نے سوشل میڈیا جیسے FOX TVجیسے فاشسٹ چینل وغیرہ وغیرہ کو استعمال کرتے ہوئے امریکا کے ایک مخصوص پاگل پَن پر اِس طریقے سے کھیل کھیلا کہ ایک الیکشنNarrative بنایا جو حقیقت سے بہت دور تھا۔ وہ جیت تو گئے مگر امریکا کی جمہوریت تو لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانی ہے، اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ٹرمپ کوگھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ مگر یہ ماجرہ پیوٹن کے رْوس میں نہیں ہے ۔ اِدارے ہی نہیں ہیں وہ اِس لیے کہ اْس کی تاریخ آمریتوں سے بھری ہوئی ہے۔ ادارے بنے ہی نہیں۔
دوتین روز پیشتر چیف جسٹس آف پاکستان کو جسٹس امیر مسلم ہانی کی الوداعی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کچھ سْنا ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں اْن لوگوں کا تعاقب کرنا پڑے گا جو اِداروں کو توڑتے ہیں۔ادارے عمارتوں کی عظمتوں کا عکس نہیں ہوتے ورنہ سندھ اسمبلی کی موجودہ بلڈنگ کو اگر پیمانہ بنایا جائے تو یہ برصغیر کا عظیم جمہوری ادارہ کہلایا جائے گا اور بے چارے صدیوں سے ہاؤس آف کامنز کی بینچوں پر بیٹھنے والے برطانوی پارلیمنٹیرین بدترین جمہوریت کے عکاس ہونگے۔ تبھی تو شاعر نے کہا تھا ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہمارے جسٹس امیر ہانی ہم سے کچھ مانگتے ہیں وہ جاتے جاتے بھی اپنے قلم سے وہ حرف تحریر کر گئے جس سے ادارے اْجڑتے نہیں، بنتے ہیں۔ برطانیہ اور امریکا ہو یا ہندوستان ہو اْن کی عدالتوں میں ایسے ہی جج بیٹھے ہوئے تھے ۔ایسے اشخاص کا تعاقب کیا جو اداروں کے لیے زہرِ قاتل تھے۔ہماری عدالت یوں تو اتنا ترقی کر کے اِس منزل تک نہیں پہنچی جس طرح ہندوستان کی عدالت کیشو انند کیس کے فیصلے کے وقت پہنچی تھی، مگر وہ گامزن ہے کہ ایسے مشکل وقت، جب ہماری پارلیمنٹ خود فوجی عدالتوں کی بات کرتے ہوئے آئین سے انحراف کرتی ہیں۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن یا تحریک انصاف کی قیادت جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں فوجی عدالتوں کے معاملے پر ایک Page پر ہوجاتے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رْسوائی کی۔
میڈیا ہمارا بہت بڑا ادارہ ہے، بلکہ بہت ہی وسیع ادارہ ہے ، اس کو رہبری کرنی ہے مخبری نہیں۔ اس کو خبر اورپروپیگنڈا میں تفریق کرنی پڑے گی۔ اگر کھڑکی سے ماحولیاتی آلودگی آسکتی ہے تو وہاں سے بادِصباء بھی آسکتی ہے نوید ِ صبح، امیدِ وصل بھی وہیں سے آسکتی ہیں۔ دیا جلائے رکھنا ہوتا ہے اسے بجھانا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ گھر تو آخر اپنا ہے سوشل میڈیا درس گاہ ہے کہ یہ وقتِ مسافر ارتقاء در ارتقاء ہے کہ ہمیں جانا ہے۔چاند کو فتح کرنا ہے۔ ہمیں نئی دنیا تلاش کرنی ہے۔ آیندہ نسل کے لیے بہت کچھ چھوڑکرجانا ہے۔ انھیں یتیم نہیںکرنا،ان کے ہاتھوں سے قلم نہیں چھیننا اْنھیں گھروں میں بند کرکے پابند نہیں کرنا ۔ انھیں میدانوں میں کھیلنے دینا ہے۔لہلہاتے کھیتوں اورکھلیانوں کو بھسم نہیں کرنا اْن کی اور آبیاری کرنی ہے اور ہرا بھرا کرنا ہے اِس ہرے بھرے پاکستان کو ۔ یعنی اورادارے بنانے ہیں ،اور ادارے ،اور ادارے۔ابنِ قاسم پارک کی طرح بندر بانٹ نہیں کرنی ہے۔
قانون و اصول کی غلط تشریح نہیں کرنی ،اس کے منفی معنی نہیں نکالنے۔ 64پیجز کی اتنی بڑی ججمنٹ جوچند ہی روز پہلے سپریم کورٹ نے سْنائی اور یہ کہا کہ جو کے ۔ایم ۔سی کا ہے اسے واپس کردو۔ اس کے برعکس وہ کے۔ ایم۔سی سے ابنِ قاسم بھی چھین رہے ہیں۔ ایک سو ساٹھ ایکڑ پر مبنی یہ پارک ایک ایسے کمرشل و پرائیویٹ ادارے کو دے رہے ہیں جس کے خلاف زمینیں ہتھیانے اور قبضہ کرنے کے بہت سے کیسزالتوا میں پڑے ہیں اور بہت سے کیسز کے فیصلے سْنائے بھی جا چکے ہیں اور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہورہا ہے۔ کے ایم سی بھی لوگوںکا چْنا ہوا ادارہ ہے ۔ اِس کو بگاڑا بھی لوگوں نے ہے اور بنائیں گے بھی لوگ۔ سندھ حکومت سندھ کے دہقانوں کے ووٹ سے بنی ،وہ دہقان جنہوں نے ابھی غلامی کے طوق نہیں توڑے ، تو دیکھیے کیا شکل بنی ہے سندھ حکومت کی۔ دماغ مفلوج اور آنکھوں پر یرقان۔
میں یہ نہیں سمجھتا کہ عدالتیں ابنِ قاسم کا بندر بانٹ ہونے دیںگی، ایڈاپشن کے نام پر۔
یونہی ہمیشہ اْلجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
یونہی ہمیشہ کِھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
اسی سبب فلک کا گِلا نہیں کرتے
تیرے فراق میں ہم دل بْرا نہیں کرتے
(فیضؔ)