دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانوی حصہ دوم
ساحر لدھیانوی کی شہرت اورعظمت اس کے فلمی گیتوں ہی کی مرہون منت نہیں تھی
BARA:
ساحر لدھیانوی کی شہرت اورعظمت اس کے فلمی گیتوں ہی کی مرہون منت نہیں تھی بلکہ ساحرکی نظموں نے بھی ادبی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا تھا۔اس کا شعری مجموعہ ''تلخیاں'' ایک ایسی کتاب تھی جس کے یکے بعد دیگرے ایڈیشن کے ایڈیشن چھپتے رہتے تھے،اس کی ایک نظم نے ہمارے متعفن معاشرے کوآئینہ اس طرح دکھایا تھا کہ کوئی شاعر اس سے پہلے ایسی جرأت نہ کرسکا تھا اور یہ جرأت صرف ساحرکی شخصیت ہی کا حصہ تھی اور وہ نظم تھی۔
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسئلہ کچلا، جب جی چاہا دھتکار دیا
مردوںنے بنائیں جو رسمیں ان کو حق کا فرمان کہا
عورت کے زندہ جلنے کو، قربانی اور بلیدان کہا
عصمت کے بدلے روٹی دی اور اس کو بھی احسان کہا
عورت نے جنم دیا مردوں کو، مردوں نے اسے بازار دیا
یا پھر ''شاہکار'' نظم کے یہ اشعار:
مصور میں ترا شاہکار واپس کرنے آیا ہوں
جواب آلود نظروں میں ذرا بے باکیاں بھر دے
یا پھر ساحر کی یہ غزل جو اس سے حالات کے عکاسی کرتی ہے۔
تنگ آچکے ہیں کشمکشِ زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
یا پھر ہندوستان کی تاریخی عمارت ''تاج محل'' کو تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے درد بھرے دل سے کہا تھا :
اِک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
جہاں ساحرکی شاعری میں یاس، نا اُمیدی، معاشرے کی بے رحمی، عورت کی بے توقیری کا تذکرہ کیا گیا تھا وہاں ساحر کی شاعری، امن، سلامتی اور محبت کے بھرپور جذبوں کی عکاسی بھی کرتی تھی جیسے ان کی ایک نظم کے یہ چند اشعار:
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی اُمید رکھوں دلنوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز آنکھوں سے
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
بمبئی کی فلمی دنیا میں جانے سے پہلے ساحر کی شاعری کے چرچے فلمی دنیا میں ہونے لگے تھے۔ ساحر لدھیانوی نے فلمی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلے جس فلم کے لیے گیت لکھنے کا آغاز کیا وہ فلم تھی ''آزادی کی راہ پر'' اس فلم کی کہانی ہندوستان کی آزادی سے متعلق تھی یہ فلم 1949ء میں بنائی گئی تھی ۔ اس فلم میں ساحر لدھیانوی نے کئی گیت لکھے تھے اور پہلا جو گیت لکھا تھا اس کے بول تھے۔
بدل رہی ہے زندگی
یہ اُجڑی بستیاں
یہ لوٹ کی نشانیاں
یہ ظلم کی کہانیاں
اب ان دکھوں کی راہ سے
نکل رہی ہے زندگی
بدل رہی ہے زندگی
اس فلم کے ہدایت کار للت چندرا مہتاجی تھے اور موسیقار جی ڈی کپور تھے۔ یہ گیت کورس کی شکل میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جسے کورس کی لڑکیوں کے ساتھ ایک پارسی گلوکار بہادر سہراب نان جی نے لیڈ کیا تھا۔ یہ فلم آزادی کے موضوع پر تھی اور اس فلم میں پرتھوی راج کپور، جگدیش سیٹھی، جیراج اور ون مالانے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم نے باکس آفس پر تو زیادہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی مگر ساحر لدھیانوی بطور فلمی نظم نگار فلمی دنیا سے وابستہ ہوگئے تھے۔ ساحر لدھیانوی کی دوسری فلم ''نوجوان'' تھی جس میں پہلی بار مدھر دھنوں کے خالق ایس ڈی برمن کا ساحر لدھیانوی کے ساتھ ملن ہوا اور نوجوان کے لیے جو پہلا گیت لکھا تھا اس کے بول تھے:
ٹھنڈی ہوائیں لہرا کے آئیں
رت ہے جواں تم ہو یہاں
کیسے بھلائیں۔ ٹھنڈی ہوائیں
اس گیت کو بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار مہیش کول تھے یہ گیت لتا منگیشکر نے گایا تھا اور اس گیت کو اداکارہ نلنی جیونت پر فلمایاگیا تھا۔ یہ فلم 1951 میں ریلیز ہوئی تھی، اس فلم کے بعد اور اسی سال ساحر لدھیانوی کو فلم ''سزا'' میں گیت لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ فلم ''سزا'' کے ہدایت کار فلمی مستری تھے اور موسیقار بھی ایس ڈی برمن تھے۔ ساحر نے اس فلم کا جو پہلا گیت لکھا وہ بہت خوبصورت تھا اور بے مثال شاعری تھی جس کے بول تھے:
تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے
ہم بھری دنیا میں تنہا ہوگئے
موت بھی آتی نہیں آس بھی جاتی نہیں
دل کو یہ کیا ہوگیا کوئی شے بھاتی نہیں
لوٹ کر میرا جہاں چھپ گئے ہو تم کہاں
تم نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے
اس گیت کو فلم میں اداکارہ نمی اور دیو آنند پر فلمایا گیا تھا اور یہ گیت لتا منگیشکر نے گایا تھا۔
فلم سزا کے گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی اور پھر فلم بھی سپر ہٹ ہوئی تھی۔ پھر ساحر لدھیانوی اور موسیقار ایس ڈی برمن کی جوڑی کو فلمساز و ہدایت کار گرودت نے فلم بازی میں یکجا کیا اور دونوں کے اشتراک سے فلم کے خوبصورت گیتوں نے جنم لیا اور بازی کی کامیابی میں ساحر لدھیانوی اور برمن داسی موسیقی کو بڑا دخل تھا اور اس فلم کے سارے گیتوں نے سارے ہندوستان میں دھوم مچادی تھی اور یہ تمام گیت روزانہ ہی کئی کئی بار ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا کرتے تھے۔ چند گیتوں کے بول ہیں:
٭...تدبیر سے بگڑی ہوئی تقدیر بنالے۔ اپنے پہ بھروسہ ہے تو اک داؤ لگالے
٭...آج کی رات پیا دل نہ توڑو۔ من کی بات پیا مان لو
٭...یہ کون آیا کہ میرے دل کی دنیا میں بہار آئی
٭...سنو گجر کیا گائے سمے گزر تا جائے
اس فلم کے گیت گیتا دت، شمشاد بیگم اور کشور کمار نے گائے تھے۔
اس زمانے میں اداکار دیوآنند کا بھائی چیتن آنند مشہور فلمساز تھا۔ چیتن آنند نے جب اپنی فلم ٹیکسی ڈرائیور بنائی تو اس میں ساحر لدھیانوی کے ساتھ پھر موسیقار ایس ڈی برمن کو لیا گیا اور ان دونوں نے مل کر جو گیت لکھے وہ اتنے خوبصورت اور دل میں اتر جانے والے تھے کہ اس فلم کو صرف گیتوں کی وجہ سے بے مثال کامیابی حاصل ہوئی تھی ہرگیت ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ چند گیتوں کے مکھڑے نذر قارئین ہیں۔
٭...دل جلے تو جلے غم پلے تو پلے۔ کسی کی نہ سن گائے جا۔
٭...دیکھو مانے نہیں روٹھی مینہ کیا بات ہے
٭...اے میری زندگی۔ آج رات جھوم لے۔ دل سے ملاکے دل پیارکیجیے،کوئی سہانا اقدار کیجیے۔
٭...چاہے کوئی خوش ہوچاہے گالیاں ہزار دے۔ مست رام بن کے زندگی کے دن گزار دے۔ اور خاص طور پر طلعت محمود کی آواز میں ایک گیت فلم کی ہائی لائٹ تھا جس کے بول تھے:
جائیں تو جائیں کہاں۔ سمجھے گا کون یہاں
درد بھرے دل کی زباں۔ جائیں تو جائیں کہاں
اس گیت کو لتا منگیشکر نے بھی گایا تھا اور یہ گیت آج بھی سنو تو دل پر بڑا اثر کرتا ہے اب میں 1957ء میں ریلیز ہوئی فلم ''پیاسا'' کی طرف آتا ہوں جس کے فلمساز و ہدایت کارگرودت تھے، فلم ''پیاسا'' کی کہانی ایک شاعر کی زندگی پر مبنی تھی اور بہت ہی متاثر کن کہانی تھی۔ اس فلم میں بھی ساحر لدھیانوی اور موسیقار ایس ڈی برمن کی جوڑی نے بڑے لاجواب گیتوں کو جنم دیا تھا۔ فلم میں شاعر کا کردار گرودت نے خود ادا کیا تھا اور اس کے ساتھ وحیدہ رحمان اور مالا نسیا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ اس فلم کے گیتوں نے ایک بار پھر ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں ساحر لدھیانوی کے گیتوں کی دھوم مچادی تھی اس فلم میں ساحر کی ایک نظم نے فلم بینوں کے دل ہلادیے تھے۔ اس نظم کا ایک ایک لفظ دلوں پر ہتھوڑے کی طرح لگتا تھا (جاری ہے)