اہل چین ہوشیار
چینی قوم انتہائی محنتی، خوداعتماد اوراب ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہے
چینی قوم انتہائی محنتی، خوداعتماد اوراب ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہے۔ ترقی کی دوڑ میں اس نے حیرت انگیزکامیابیاں حاصل کی ہیں اورمعاشی ترقی میں وہ اب بڑی بڑی طاقتوں کے ہم پلہ بن گئی ہے اور یہ سب کچھ اس نے اپنی مسلسل جدوجہد اور قومی یکجہتی کے بل بوتے پر انجام دیا ہے۔
اب دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو چین پیدا نہ کرتا ہو یا بناتا نہ ہو۔ وہ خود کفیل ہی نہیں دنیا بھر میں ہر قسم کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اشیاء کا برآمد کنندہ ہے۔ چند صدی پہلے تک چین کو افیون کا عادی بناکر غلام رکھا گیا تھا مگر جب اس کی غیرت قومی جاگی تو وہ آج عالمی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔
خود چین میں غیر معمولی ترقیاں ہورہی ہیں۔ اب تک چینی مال ودولت کی ریل پیل اور ان فضول خرچیوں سے دور رہے ہیں جو بڑی طاقتوں کا شیوہ رہا ہے۔ ان کے یہاں نہ اس طرح دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں جیسے امریکا، یورپ اور کینیڈا وغیرہ میں ہیں۔ آبادی کا انتقال اس زوروشور سے جاری ہے جس طرح پسماندہ اقوام مغربی ممالک کو جنت ارضی سمجھ کر ان کی طرف دوڑ لگائے ہوئے ہیں۔
چینی معاشی طور پر اعتدال و میانہ روی کو اپنائے ہوئے ہیں اور ان کے یہاں فضول خرچی کی داستانیں تیز رفتاری سے چل رہا ہے مگر وہ صورت حال ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے کہ لوگ معاشی خوش حالی کی خاطر اپنے وطن، اپنی تہذیب، اپنے دین و ایمان کو بھلا کر چین کا رخ کرنے لگیں۔ شاید خود چین نے بھی اس رجحان کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا۔ چین غیر ملکیوں کو وہ معاشی آسودگی مہیا ہی نہیں کرتا جو ان کے لیے کشش کا سبب بن سکے۔ خود اپنے شہریوں کو بھی وہ ''اقتصادی حدود'' میں رکھنے کی پالیسی پر گامزن رہا ہے۔
اس وقت پاکستان چین سے لا تعداد اشیا در آمد کررہا ہے اور پاکستان میں ترقی کے انتہائی اہم منصوبے چینی ادارے پائیہ تکمیل کو پہنچ رہے ہیں۔
خود چین میں بھی ترقیاتی عمل جاری ہے۔ اب وہاں ایک انڈسٹریل زون بنایا جا رہاہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے سڑکیں بھی بنائی جائیںگی اور دوسرے انفرا اسٹرکچر بھی وجود میں آئیںگے۔ اسی قسم کے ترقیاتی منصوبوں کے تحت وہ انڈسٹریل زون کی راہ میں آنے والے ایک قصبے جیانگ بی کو مسمار کررہے ہیں۔ ظاہر ہے وہ وہاں کے مکینوں کو معاوضہ بھی دیںگے۔ چنانچہ چینی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جیانگ بی کے ہر خاندان کو ایک پلاٹ اور مکان کی تعمیر کے لیے 20 ہزار ڈالر بطور معاوضہ ادا کرے گی۔
اگر کسی خاندان میں میاں بیوی میں طلاق واقع ہوگئی ہو اور وہ علیحدہ علیحدہ رہ رہے ہوں تو ایسے خاندان کو ایک اضافی پلاٹ اور مقررہ رقم ادا کی جائے گی۔ گویا مطلقہ جوڑے کو دوگنا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ یہ معاوضہ اس قدر دلکش اور پرکشش ہے کہ اس وقت اس چھوٹے سے قصبے کے 165 چینی جوڑے طلاق پر آمادہ ہو گئے ہیں اور دفتر طلاق میں طلاق رجسٹر کرانے والوں کا رش لگا ہوا ہے۔ تاکہ طلاق حاصل کرنے کے بعد میاں بیوی الگ الگ مکان کے مالک بن جائیں۔
اس سلسلے میں عبرت انگیز بات یہ ہے کہ طلاق لینے اور دینے والوں میں معمر افراد کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ایک طویل اور خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد محض ایک پلاٹ کے لیے گزرے لمحوں کو خیرباد کہہ کر خوش حالی کے خریداروں نے چین کے خود اعتماد معاشرے کا کھوکھلا پن ظاہر کر دیا ہے۔
جب کسی قوم کی جد وجہد کا حاصل محض معاشی خوش حالی اور دنیوی عیش و عشرت ہو تو انجام یہی ہو سکتا ہے۔ اگرچہ چین ابھی معاشی خوشحالی کی اس نہج پر نہیں پہنچا ہے جہاں یورپ پہنچ کر عیش و عشرت کے شادیانے بجا رہا ہے مگر جیانگ بی کے باسیوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ در اصل اسی عیش کوشی کی پوشیدہ خواہش ہے جو انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی ہے۔ یہی عیش کوشی اقوام کے زوال کا باعث بنتی ہے۔
ہوش باش اے اہل چین کہ علامات زوال نے ترقی کی منازل آخر تک پہنچنے سے پہلے ہی ظہور میں آنا شروع کر دیا ہے یا تو اس رجحان کے آگے بند باندھ لو یا پھر زوال کا انتظار کرو۔ ابھی تو یہ پوشیدہ علامات ہیں جب ان کا ظہور ہو گا تو آپ بھی یورپ کی صفت میں کھڑے ہوںگے یا اس سے بھی زیادہ برے حال میں۔
اس سارے مسئلے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ چین دنیا میں کمیونزم کی دوسری بڑی ''تجربہ گاہ'' تھا اور کارل مارکس کے نظریات پر مبنی سوسائٹی کے قیام کا دعویدار۔ جب روس نے امریکی سرمایہ داری کے ساتھ بقائے باہمی نظریہ کو اختیار کیا تو یہ چین ہی تھا جس نے اس کی سخت مخالفت کی مگر یہ بقائے باہمی کمیونزم کے لیے منافقانہ رویہ ثابت ہوئی اور روس میں کمیونزم کی ناکامی کا سبب ہی نہیں بنا بلکہ خود روس کی شکست و ریخت کا بھی باعث ہوا۔
مذکورہ چینی قصبے کے باسیوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ کمیون سسٹم اور اشتراکی صنعت کاری فطری چیزیں نہیں ہیں۔ ذاتی ملکیت کی طلب اور تڑپ بڑی شدید ہوتی ہے اور اس کے حصول کے لیے جائز و ناجائز کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔ جاتا کیا رہتا ہے بغیر خوف آخرت کے پیدا ہی نہیں ہوتا۔ بھلا ایک چھوٹے سے قصبے کے 165 خاندان محض ایک زمین کے ٹکڑے اور چند ٹکوں کے عوض اپنے خاندانی و ازدواجی زندگی کو خیرباد کہنے کو کیسے تیار ہو گئے۔
کمیونزم کا سارا فلسفہ یہاں آ کر ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے اور طلب دنیا کے مقابلے میں آخرت میں جواب دہی کا تصور انسانی ضرورت معلوم ہوتا ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا۔ کمیونزم سے قبل چینی بھی ایک مذہبی قوم تھے کیا یہی رویہ رہا تو اہل چین کو مذہب کی طرف واپس تو نہیں آنا پڑے گا۔ ہر پھر کر مذہب انسانی زندگی میں اپنی اہمیت منواتا رہتا ہے۔