انسان اور کرۂ ارض
حضرت انسان نے مادی طور پر خود اپنی اور کرۂ ارض کی تخلیق کے بابت قیاسی وفرضی تصور قائم کیا ہوا ہے
قابل ستائش جہد: بلاشبہ کائنات کے تمام جانداروں میں سے انسان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کروڑہا صدیوں کا ارتقائی سفر طے کرکے ''حیوانِ ناطق'' کی منزل کو پہنچا ہے۔ یعنی انسان کی اساسی افضلیت میں اس کے صاحب فہم وفراست اور عقل ودانش ہونے کو گنوایا جاسکتا ہے، جس سے دیگر جاندار و موجودات اب تک محروم ہیں۔ جب کہ دوسری جانب کائنات کے تمام موجودات میں سے کرۂ ارض ہی وہ واحد فلکی جسم ہے جس پر زندگی پائی جاتی ہے۔ فلکی اجسام میں کرۂ ارض کو یہ فضیلت اس کی ثقلی کشش کی وجہ سے حاصل ہے، جو کرۂ ارض پر زندگی کو ماں کی فرحت بخش گود جیسا سکون اور پرورش فراہم کرنے میں جتی ہوئی ہے۔ اگر اہمیت و اساسیت کی بنیادوں پر کائنات کو تقسیم کیا جائے تو انسان اور کرۂ ارض تمام موجودات ومادی اجسام کا مرکز و محور دکھائی دیتے ہیں۔ گو حضرت انسان نے مادی طور پر خود اپنی اور کرۂ ارض کی تخلیق کے بابت قیاسی وفرضی تصور قائم کیا ہوا ہے اور ان کی روشنی میں اپنے جدید ارتقائی مرحلے پر انتہائی تیز رفتاری سے رواں دواںہے۔ چونکہ گوریلے کی نسل سے انسانی شکل لینے کے اعزاز کے باعث اب یہ دیگر فلکی اجسام (سیاروں) پر اپنی رہائش کے ارتقائی مرحلے کو طے کرنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ کیونکہ اس کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر موسمیاتی تبدیلیوں نے انسان کو مجبور کیا ہوا ہے کہ وہ کرۂ ارض کے علاوہ بھی کسی دیگر سیارے پر اپنا گھر بنائے، تاکہ کسی ناگہانی صورت حال کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے حیات انسانی کو مکمل تباہی سے بچایا جانا ممکن بن سکے۔ انسان کا ایسا جذبہ و جہد بے شک لائق تحسین وقابل ستائش ہے۔
حل اور قیادت: کائنات کے تمام مادی اجسام سمیت انسان نے جو کروڑوں صدیوں کا ارتقائی سفر طے کیا ہے اس نے انھیں نڈھال کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں آج کائنات سمیت انسان کا دفاعی نظام کمزور ہوچکا ہے۔ شاید اسی لیے انسان اور کائنات کے وجود میں توڑپھوڑ کا عمل جاری ہے۔ چونکہ فہم وفراست کی تمام تر حیات بخش ندیاں وگہرے چشمے انسان کے دست نگر ہیں۔ چونکہ انسان اپنی پختہ العمری Maturity کو پہنچ چکا ہے۔ اس لیے اس پر کائنات سمیت خود اپنے وجود میں ہونے والی اس توڑ پھوڑ کا حل تلاش کرنے کی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں، جنھیں سمجھتے ہوئے اس نے اپنے موجودہ ارتقائی مرحلے پر ماحولیاتی تبدیلیوں پر ضابطہ لائے جانے کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے زہریلی گیسز کے اخراج کو کم کرنے اور میڈیکل سائنس کی مدد سے انسانی دفاعی نظام مضبوط کرنے کے حل تجویز کیے ہوئے ہیں۔ ابھی ان کی ایجاداتی تحقیقات کاملیت سے تو محروم ہیں، ہاں البتہ ان تحقیقات ہی کو اس حل کا کمال مانا جانے لگا ہے۔ جس کے عملی اقرار میں انھی تحقیقات کو نصاب کے طور پر تمام انسانی گروہوں میں یکساں سطح پر رائج کیا جاچکا ہے۔ چونکہ موجودہ جدید تحقیقات وایجادات مغربی انسانوں کی مرہون منت ہیں، اس لیے انسان کو لاحق ان مشکلات کے حل کے عملی اطلاق کی ذمے داریاں بھی انھوں نے اپنے کاندھوں پر لی ہوئی ہیں۔
ارتقائی خاتمہ: انسان نے موسمیاتی تبدیلیوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے، پہاڑوں پر سے وزن کے ہٹ جانے کے نتائج میں کرۂ ارض کی گردشی رفتار میں اضافے کے اسباب کی بابت یہ فرض کرلیا ہے کہ ان سب کی بنیادی وجہ سورج کی گرم شعاعوں کا زمین پر بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچنا ہے، یعنی کرۂ ارض پر اوزون کی تہہ کی شکل میں جو دفاعی شیلڈ نصب تھی وہ اب کمزور ہوچکی ہے۔ کیوں کمزور ہوئی؟ اس کے اقرار اور کرۂ ارض سے محبت کے اظہار کے لیے ایک گھنٹے تک غیر ضروری بتیاں بجھائے رکھنے سے یہ اعلان کردیا گیا ہے کہ جہاں ان جدید فیکٹریوں و مشینریوں سے نکلنے والی زہریلی گیسز نے اس شیلڈ کو نقصان پہنچایا ہے وہیں ویرانوں اور اندھیروں کو بھی وحشت میں مبتلا کرنے والی سیمنٹ اور سریوں سے بنی پہاڑ نما عمارتوں پر مشتمل شہروں کی روشنیوں نے بھی کرۂ ارض کے فطرتی انداز حیات کو شدید متاثر کیا ہے۔ کیونکہ انسانوں کے موجودہ ترقی یافتہ ارتقائی مرحلے پر صدیوں تک طلوع وغروب آفتاب سے منسلک معمولات حیات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور ان شہروں کی وسعتی ضرورتوں کے نتیجے میں بحر وبر میں پائی جانے والی زندگی بھی خطرات سے دوچار ہوچکی ہے، اور بہت سے جاندار اپنی نسل کے اختتامی مرحلے تک پہنچے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب ان کے پاس اتنی صدیاں میسر ہی نہیں ہوسکتی کہ جن میں وہ Survival Of The fittest کے تحت اپنی نسل کو کسی نئی اور جدید شکل میں ڈھال سکیں۔ ایسی صورت حال کی روشنی میں تاریخ کا طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ اب نہ تو کوئی گوریلا انسانی شکل لے سکتا ہے اور نہ ہی کسی بگ بینگ کے نتیجے میں کوئی دوسرا کرۂ ارض وجود لے سکتا ہے۔ یعنی یہ اختتامی مرحلہ ہے۔ اس لیے انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ اسی ارتقائی مرحلے پر ان مشکلات پر قابو پائے۔
انسان نے آج یہ تسلیم کرلیا ہے کہ وہ ابھی تک انسانی زندگی گزارنے کے قابل کوئی سیارہ تلاش کرنے کامیاب نہیں ہوسکا ہے کیونکہ انھیں کسی بھی سیارے پر پانی یا یوں کہیے کہ ثقلی کشش دستیاب نہیں ہوسکی جس سے یہ بات اور بھی کھل کر سامنے آگئی کہ کائنات میں ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمے دار انسان ہے اور انسان ہی نے کرۂ ارض کو بچانا بھی ہے چونکہ عالم انسانیت اپنی بالغ النظری کو پہنچ چکی ہے، یعنی ''جمہور انسان'' اس ذمے داری کو نہ صرف انسانیت کا بوجھ سمجھتے ہیں بلکہ اس کو نبھانے کی عملی کوششوں میں جتے ہوئے بھی ہیں۔ جس کی روشنی میں ''انسان کا طالب علم'' کائنات کے وسیع ترین منظرنامے میں خود کوانسانی ڈی این اے سے بھی کہیں زیادہ موثر انداز میں تعمیر کائنات کا ڈی این اے بنے ملاحظہ فرما سکتا ہے، یعنی انسان کا ہر ایک عمل صحت کائنات پر میرٹ اور ڈی میرٹ رکھنے جیسا ہے۔
مطلب انسان فطرتی طور جلد باز واقع ہوا ہے، اس لیے زمین کی گردشی رفتار میں بھی اضافہ آگیا ہے۔ انسان میں تحمل اور برداشت نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، اس لیے زمین زلزلوں اور سیلابوں کی نذر ہونے لگی ہے۔ انسان آج یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کرۂ ارض بھی ''فلکی جسموں پر مشتمل کائنات'' کے ڈی این اے کی حیثیت رکھتا ہے، جو ان فلکی جسموں کو اپنی اپنی سمت میں گردش دینے کا اساسی کام کرتا ہوا نظر آتا ہے، یعنی کرۂ ارض ''حیات کائنات'' کو ایک ماں کا سا پرشفیق وسکوں آور دامن رحم فراہم کیے ہوئے ہے۔
بے شک رحم مادر کا احترام انسان کے تخلیقی انداز کو اس کے معلوم ارتقائی مراحل کے ساتھ بیاں کرنے کی عظمتوں و رفعتوں کے اقرار جیسا ہی ہے۔ اس لیے موجودہ انسان کو یہ بات سمجھ آنے لگی ہے کہ کرۂ ارض پر حیات دراصل ثقلی کشش کی مرہون منت ہے۔ جسے اگر کرۂ ارض کا دفاعی نظام قراردے دیں تو اعتراض نہیں ہوگا۔ چونکہ کرۂ ارض اپنے مضبوط نظام کے باعث حیات کائنات کے ڈی این اے کی حفاظت کرتا آیا ہے اور انسان اس پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا آیا ہے۔ لیکن موجودہ مرحلے پر انسان نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ اب کی بار اپنے مادی کردار سے ان تبدیلیوں کو حسب منشا موڑ دے گا یا پھر ان تبدیلیوں کے اثرات سے محفوظ رہ پائے گا، اور کرۂ ارض سے اپنے تعلق کو برقرار رکھے گا۔
دوسری جانب اگر ملاحظہ فرمایا جائے اس پوری کائنات کے حسن کا مرکز کرۂ ارض بنا ہوا نظرآتا ہے تو کرۂ ارض کی تمام تر خوبصورتی انسان ہی کی مرہون منت دکھائی دیتی ہے۔ کیا انسان صرف مادی وسائل وذرایع کے دم پر اپنی اور کرۂ ارض کی حیات کو بچا پائے گا؟ کیونکہ اس وقت کل کائنات کی توجہ کرۂ ارض اور انسان پر ٹکی ہوئی ہے۔