رویوں پر نظرثانی کی ضرورت
کسی شہری کی حب الوطنی یا ملک دشمنی کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی صرف اور صرف عدلیہ ہے
گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے اظہاریے میں قرارداد لاہور کے بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کردیا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ ایک نجی چینل کے اینکر نے 23 مارچ کو اپنے پروگرام میں قرارداد لاہور کے بارے میں ملک کے معروف تاریخ دان اور سماجی دانشور ڈاکٹر مبارک علی کی رائے معلوم کی۔ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک محقق ہیں، اس لیے تاریخ کے مختلف پہلو ان کے سامنے رہتے ہیں۔
ڈھائی منٹ کی گفتگو کے دوران انھوں نے بعض دستاویز کے حوالے سے مختصراً بتایا کہ ان کے سامنے یہ بات بھی آئی ہے کہ اس قرارداد کی تیاری میں برطانوی حکومت کی ایما اور رضامندی شامل تھی۔ ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی کہ ابھی یہ دستاویز مستند نہیں ہے، تحقیق کے بعد ہی یہ ثابت ہوسکے گا کہ اس کے مندرجات کس حد تک حقائق پر مبنی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ تاریخ کا عمل جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، تو ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں نئے نئے انکشافات سامنے آتے ہیں۔ مگر جب تک ثابت نہ ہوں، ان نکتہ ہائے نظر کو حتمی تصور نہیں کیا جاتا۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنا نکتہ نظر خاصی وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ اگلے دن ایک سینئر صحافی نے اپنے کالم میں ڈاکٹر صاحب پر ذاتی نوعیت کی تنقید کی۔ تنقید ہر شہری کا حق اور صحت مندانہ بحث کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہوتی ہے، لیکن تنقید اگر افکار اور نکتہ ہائے نظر پر ہو تو اس کے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ذاتیات کی باتیں نہ صرف بحث کے صحت مندانہ ماحول کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، بلکہ تلخیاں پیدا کرنے اور عوام کو تقسیم کرنے کا بھی باعث بنتی ہیں۔
ڈاکٹر مباک علی کے کریڈٹ میں دو صد کے لگ بھگ کتب اور سینکڑوں کی تعداد میں مقالے ہیں۔ ہم شکوہ تو کرتے ہیں کہ معاشرے سے کتب بینی کا رجحان ختم ہورہا ہے، مگر یہ سمجھنے سے عاری ہیں کہ ذاتیات کو موضوع بحث بنانے سے عوام کی فکری تربیت نہیں ہوتی، بلکہ ان کے درمیان تقسیم کا عمل گہرا ہوتا ہے۔
جن معاشروں میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات پر تسلسل کے ساتھ بحث و تمحیص ہوتی ہے، وہاں لوگوں میں ان حالات و واقعات کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تحقیق کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ قرارداد لاہور کے بارے میں جس قدر تحقیق ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوسکی اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اکابرین بعض اہم ریاستی امور و واقعات پر کھلی بحث سے بوجہ گریز کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ خوف عوامی سطح پر بحث ومباحثہ سے روکنے کا باعث بن رہا ہو۔
بہرحال اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، قرارداد لاہور کے مختلف پہلوؤں پر وقت گزرنے کے ساتھ بحث ومباحثہ کی اشد ضرورت ہے۔ یہ وہ قرارداد تھی، جس کے نتیجے میں برٹش انڈیا تقسیم ہوا، تاریخ کی بدترین خونریزی اور سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔ ضروری نہیں کہ ملنے والی ہر دستاویز اور ہر تحقیقی مواد ہمارے تصورات سے مطابقت رکھتا ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ سامنے آنے والے تحقیقی مواد کا غیر جانبداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، تاکہ اس کی روشنی میں معاشرے کی سمت کا ازسرنو تعین کیا جاسکے۔
دوسری بات یہ کہ ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں اختلافی نکتہ نظر کو غداری یا ملک دشمنی قرار دینا، فکری بددیانتی اور فاشسٹ سوچ کی عکاسی ہے۔ کسی شہری کی حب الوطنی یا ملک دشمنی کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی صرف اور صرف عدلیہ ہے۔ کسی فرد واحد یا ریاستی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی دوسرے فرد یا کمیونٹی کو فکری اختلاف کی بنیاد پر ملک دشمن قرار دے کر اس کا میڈیا ٹرائل کرے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ بنگالی عوام کی علیحدگی کی صورت میں برآمد ہوچکا ہے، مگر ہمارے اکابرین نے اس سانحہ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ آج تک جاری ہے۔
حالانکہ یہ بنگالی عوام کی سیاسی بصیرت تھی، جس کے نتیجے میں اس ملک کا قیام ممکن ہوسکا۔ اس لیے یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو اہل دانش دوسری قومیتوں اور کمیونٹیوں کو ملک دشمنی قرار دے کر خود کو محب وطن ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ دراصل نادان دوست کی مانند خود ہی اس معاشرے میں تقسیم درتقسیم کا بیج بوکر اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ پاکستان کے قیام کو ستر برس ہونے کو آئے ہیں، مگر قومی بیانیہ ہنوز کنفیوژن کا شکار ہے۔ اس کا سبب آل انڈیا مسلم لیگ کے اندر نئی ریاست کے حوالے سے واضح نکتہ نظر کی عدم موجودگی تھا۔ سندھ اور بنگال کی قیادت ایک کنفیڈرل ریاست کے تصور سے زیادہ قریب تھی۔ ان کی خواہش قرارداد لاہور میں لفظ States سے ظاہر تھی۔ جبکہ مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو پورے برصغیر کے مسلمانوں کی واحد ریاست کا خواب دکھایا گیا تھا۔
بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے کچھ اکابرین ضرور مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے، مگر Grass root پر مسلم لیگ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ پنجاب جو آج اقتدار و اختیار کا منبع بنا ہوا ہے، 1946ء تک وہاں بھی مسلم لیگ کی تحریک عوامی سطح پر خاصی کمزور تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی تحریک کا مرکز ومحور بنگال اور مسلم اقلیتی صوبے تھے۔ لیکن ان کے تصورات ان علاقوں کے عوام سے قطعی مختلف تھے، جن پر آج کا پاکستان قائم ہے۔ یہ تضاد روز اول سے آج تک برقرار ہے۔
جو لوگ آئین اور قانون کی موشگافیوں کو سمجھتے ہیں، وہ مذہبیت کی جذباتیت کا سہارا لے کر حقائق کو مسخ کرنے کے بجائے اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس ملک کی بنیاد وفاقی جمہوریت پر قائم ہے۔ وفاقی جمہوریت سے نفی اس ملک کے وجود کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وفاقی نظام میں تمام وفاقی یونٹ مساوی حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔ اس لیے کسی ایک صوبے کی اشرافیہ اور صحافیوںکو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کے شہریوں کی حب الوطنی پر انگشت نمائی کرے۔
عرض مدعا یہ ہے کہ صحافی اور تجزیہ نگار اگر اہل علم و دانش کی ذات کو نشانہ بنانے اور ان کے بارے میں نازیبا اور عامیانہ الفاظ استعمال کرنے کے بجائے ان کے پیش کردہ تصورات پر اپنا اختلافی نکتہ نظر پیش کریں، تو اس طرح عوام کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ جب تک ہم دوسروں کے خیالات کا احترام کرنے کی عادت نہیں ڈالتے اور بقلم خود حب الوطنی کے دعوؤں سے باز نہیں آتے، اس ملک میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔ ایک صوبے کی اشرافیہ اور صحافیوں کے ملک کا ٹھیکہ دار بننے کے نقصانات 1971ء میں سامنے آچکے ہیں۔ اس لیے ماضی کی غلطیوں کو باربار دہرانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔