پرندے

چند برس پہلے انسانی رویوں کے پھیکے پن سے اُکتا گیا


راؤ منظر حیات April 03, 2017
[email protected]

چند برس پہلے انسانی رویوں کے پھیکے پن سے اُکتا گیا۔ایسے گمان ہوتا تھاکہ ہمارے ملک میں منافقت، جہالت اورشدت پسندی اس درجہ کی ہے کہ اکثرلوگوں سے ملنانہ صرف باعث آزارہے بلکہ وقت کازیاں بھی ہے۔ خیر اس معاشرہ میں جہاں ہرچیزتیرہ نمبرکی ہے،اس میں مہذب رویوں کی توقع کرناصرف اورصرف حماقت ہے۔تیرہ نمبر کا لفظ منیرنیازی استعمال کرتے تھے۔اکثرکہتے تھے کہ کسی بھی چیزیا ملک کو دو نمبر کہنا دراصل ایک تعریفی جملہ ہے۔ کیونکہ دونمبرہمیشہ ایک نمبرکے نزدیک ہوتاہے۔لہذادونمبرکسی بھی صحیح صورتحال کی عکاسی نہیں کرتا۔اس معاشرے کیلئے تیرہ نمبرکالقب بالکل مناسب ہے۔

خیرانسانی رویوں سے گھبراکرپرندے،جانوروں اور پودوں پروقت صَرف کرناشروع کردیا۔شروع شروع میں توکچھ سمجھ نہ آیا۔مگرآہستہ آہستہ مشاہدہ میں شدت آتی گئی۔ یہ ایک نئے جہان کی ابتداء تھی۔ ناقابل یقین حدتک خوبصورت اور دلچسپ۔ سرکاری گھرمیں ایک چھوٹاسالان ہے۔وقت ملنے پراس میں بیٹھناشروع کردیا۔کبھی علی الصبح اورکبھی شام کو۔زندگی کی بے مقصدتیزرفتاری نے ہم سے بہت سی چیزیں چھین لی ہیں یاشائدچوری کرلی ہیں۔اس رہزنی میں ہماراقدرت کے ساتھ ملاپ اورلگاؤبھی غائب ہوچکاہے۔مشاہدہ کی عادت توخیرلُٹ چکی ہے۔

پہلی کیفیت یہ تھی کہ ہم قدرت کے حسن سے بے خبرہیں۔آپ جہاں بھی رہتے ہیں جس طرح کے قصبہ،گھر،مکان،محلہ میں قیام پذیرہیں۔صبح کے وقت کسی کھلی جگہ پربیٹھ جائیے۔ ایساایسانایاب اورحسین پرندہ نظرآئیگاکہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ ایک صبح پوٹھنے کے بعد،کمرے کی کھڑکی کے باہر ایک ایسی ننھی سی چڑیادیکھی جس کے پروں میں چھ سے سات دلکش رنگ تھے۔گہری نیلی اورفیروزی دھاریاں موجود تھیں۔چھوٹی سی گردن پررنگ برنگے موتی سے بنے ہوئے تھے۔چونچ گہرے سرخ رنگ کی تھی۔

دانہ دنکا کی تلاش میں یہ منفرد پرندے صرف اورصرف صبح کونظرآتے ہیں۔ غور کرتا رہاکہ یہ پرندہ کیاکررہاہے بلکہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ مڑ کر دیکھا توغائب ہوچکاتھا۔شائدکسی درخت کے تنے کے پیچھے یا کسی پودے کی آڑمیں بیٹھ چکا تھا۔ خوبصورت چڑیاکے ایک دم غائب ہونے سے مجھے ولیم ورڈزورتھ کی آفاقی نظم سمجھ آئی جواس نے"To the Cuckoo"کے عنوان سے صدیوں پہلے تحریرکی تھی۔ کیا نظم ہے۔ صاحبان کیا گہرائی ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ یہ زمانہ طالبعلمی میں پڑھائی جاتی ہے۔اس وقت تو قطعاً سمجھ نہیں آتی۔ ذہنی پختگی کے عالم میں جب سمجھ آتی ہے تواس وقت بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔

انسانی عمرکی شام کاوقت ہوتاہے۔اندھیرے سے تھوڑاپہلے۔جس سرکاری کالونی میں رہتاہوں وہاں درخت، پودے اورپرندے بہتات میں ہیں۔ویسے توسبزہ انسان کی نفسیات پرجادوئی کیفیت رکھتاہے۔مگرپرندے اس کیفیت کو مزید سحرانگیز کر ڈالتے ہیں۔دووقت ایسے ہیں جب یہ معصوم جادوگراپنی موجودگی کا شدت سے احساس دلاتے ہیں۔

ایک علی الصبح،اپنے اپنے گھونسلوں سے اُڑنے سے پہلے اورایک شام کو،رات کی تاریکی سے قبل۔حیران رہ جاتا ہوں کہ اَن گنت پرندے جب بولتے ہیں توایک ایساقدرتی نغمہ ترتیب ہوتاہے جو دنیا کا عظیم ترین موسیقار بھی ترتیب نہیں دے سکتا۔یہ قدرت کی فیاضی کالمحہ ہوتا ہے۔ ہرشَر سے پاک، صرف اورصرف قدرتی جمال کی انتہا۔چڑیوں اورپرندوں کوصبح وشام کے وقت اس قدرخوش الحانی میسر آجاتی ہے کہ میرے جیساطالبعلم صرف اورصرف سردھن سکتا ہے۔ پرندوں کی آوازکوریکارڈکرکے ایک دوست کو سنائی۔

دوست موسیقی سے ظالم حدتک شغف رکھتا ہے۔ آوازوں کی چہچہاہٹ اورغنایت سے وہ حیران رہ گیا۔دونوں ہی موسیقی کی انتہا ہیں۔پرندوں کی خوشی،غمی اورگھائل ہونے کی کیفیت بھی صوتی اثرات میں نمایاں ہوتی ہے۔انکی زبان تو خیر انسانی سمجھ سے باہر ہے۔ مگر انسانی ذہن نے اس پربے مثال کام کیاہے۔جان ینگ نے اپنی کتاب"What the Robin Knows" میں پانچ آوازوں کوقلمبندکیاہے۔ انکے چہکنے پرلکھتاہے کہ یہ مختلف پرندوں کی وہ آرام دہ آواز ہوتی ہے جب اپنے آپکومحفوظ سمجھتے ہیں۔کسی قسم کاخطرہ محسوس نہیں کرتے۔یہ انکی بنیادی اورفطری آوازہوتی ہے۔ جان ینگ اسکوتوازن اوراعتدال کی آوازکانام دیتا ہے۔

اگر آپ جانوروں اورپرندوں کوخوفزدہ نہ کریں توآپ سے ڈرناچھوڑ دیتے ہیں۔نزدیک آکربیٹھ جاتے ہیں۔ آپکواپنی غیرموجودگی کااس سے بہترین احساس کبھی نہیں ہوسکتا۔ شائدموجودگی اورغیرموجودگی کی کیفیت میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔بات صرف اورصرف ادراک کی ہے۔ سمجھنے کی ہے۔

چندماہ قبل شوق ہواکہ کچھ پرندوں کوصرف اسلیے پال لیاجائے کہ انکوبغوردیکھاجائے یاان سے کچھ سیکھا جا سکے۔ جملے کادوسراحصہ انتہائی اہم ہے۔تاندلیانوالہ میں اپنے چچا زادبھائی کوکہاکہ چندمورمل سکتے ہیں۔میرے کزن کو بچپن سے گورے کے نام سے پکاراجاتاہے۔اس نام کی اہمیت اس درجہ ہے کہ میں گورے کے اصل نام سے ناواقف ہوں۔سوچوں توشائد یاد آجائے۔

گورے نے مجھے چار مور بھجوائے۔دوسفید اوردوسبزاورنیلے رنگ کے۔جب یہ پرندے میرے پاس تھوڑے دن رہے تواحساس ہواکہ پنجرے میں رکھناظلم ہے۔سراسرزیادتی ہے۔ انہیں کھلا چوڑ دیا۔دوچارہفتوں میں وہ تمام اس قدر مانوس سے ہوگئے کہ سارادن ادھراُدھرپھرنے کے بعدشام کومغرب سے پہلے خودبخودپنجرے میں آجاتے تھے۔شائدرات کے اندھیرے کاخوف انہیں آپنے آپ کومحفوظ جگہ پربیٹھ جانے پر مجبور کر دیتاہے۔ویسے انسانی رویہ بھی بالکل ایساہی ہے۔ وہ جیسے ہی خوف محسوس کرتاہے، فوراً اپنی محفوظ پناہ گاہ میں چلا جاتا ہے۔

ویسے محفوظ تو پرندے نہ جنگل میں ہوتے ہیں نہ پنجرے میں۔بالکل اسی طرح انسان بھی کسی پناہ گاہ میں محفوظ نہیں ہوتے۔کہیں نہ نہیں کوئی درندہ گھات لگائے ضروربیٹھاہوتاہے۔شب خون مارنے کیلئے اپنی باری کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔ کبھی باری آجاتی ہے اورکبھی پنجرے کا دروازہ بندہونے کی وجہ سے انسان اورپرندے دونوں تھوڑی دیرکیلئے محفوظ ہوجاتے ہیں۔ایک ماہ کے بعدمحسوس ہواکہ سبزاورنیلے رنگ کاایک مورنقاہت کاشکار ہے۔ کھانا پینا چھوڑ چکا ہے اورپنجرے سے باہرنہیں نکلتا۔بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ لاہورمیں جانوروں کاایک بہت بڑا اور منظم ہسپتال ہے۔

یہ شاندارہسپتال انگریزنے پاکستان بننے سے پہلے بنایاتھا۔اسکے انگریزی نام کی اہمیت اپنی جگہ، مگر عرف عام اسے''گھوڑاہسپتال''کہاجاتاہے۔اس میں تجربہ کارپروفیسراورڈاکٹرموجودہیں۔پرندوں اورجانوروں کا سرکاری علاج بہت اعلیٰ طریقے سے ہوتاہے۔ہمارے ہاں،کیونکہ انسانوں کی کوئی قدرنہیں ہے۔انکے علاج معالجہ کیلئے معیاری ہسپتال نہیں ہیں۔اسلیے جانوروں کے ہسپتال کی بات کرنی عبث ہے۔بالکل بیکار۔مورکوعلاج راس نہ آیا۔ مزید کمزور ہوتا گیا۔

ایک دن گھاس پرآرام سے لیٹا اور آنکھیں بندکرلیں۔چندمنٹوں میں پتہ چلاکہ مرچکا ہے۔ مجھے اس معصوم پرندے کی ذہنی کیفیت تومعلوم نہیں، پر اتنے سکون سے موت کوخوش آمدیدکہتے کبھی نہیں دیکھا۔ ڈاکٹرہونے کی حیثیت سے لاتعداد مریضوں کودنیاسے دوسرے جہان میں جاتے ہوئے دیکھتارہاہوں۔بہت کم لوگ آسودہ موت کاشکارہوتے ہیں۔پرندے کے مرنے سے یہ سیکھاکہ دعاکرنی چاہیے کہ انسان سکون سے مرجائے۔کسی پربوجھ نہ بنے اورکسی کا محتاج نہ ہو۔

یہ ہماری دعا کا حصہ ہونا چاہیے کہ خدااس طرح ہمیں اُٹھالے کہ آنکھیں بندکریں اورکھیل ختم ہوجائے۔ایڑیاں رگڑرگڑ کر مرنااذیت ناک توہے ہی مگریہ دکھ اورتکلیف کی انتہابھی ہے۔اس مورنے بڑی شائستگی سے جان دے دی ،کسی کو تکلیف پہنچائے بغیر۔اب میرے پاس جوبقیہ مور ہیں، انکو بغوردیکھناایک بہت لطف بھرالمحہ ہے۔

پرندے ایک موقع پر ایک دوسرے کی پروا نہیں کرتے۔یہ وقت ان کے کھانے کا وقت ہے۔کوئی پرندہ دوسرے کاانتظارنہیں کرتا۔اسکی کوشش ہوتی ہے کہ سارادانہ کھاجائے بلکہ دوسرے کے سامنے پڑی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھی کھا جائے۔ یہ عادت بالکل انسانوں جیسی ہے۔ معاشرہ پرنظرڈالیے۔ہرانسان کی نظردوسرے کی دولت اور اسکی جیب پرہے۔کسی بھی مثبت یامنفی طریقے سے اپنی تجوری کوبھرناہماری خصلت بن چکی ہے۔مگرپرندوں اور انسانوں میں اس حوالے سے ایک فرق بہت زیادہ ہے۔ پیٹ بھرجانے پرپرندے کھانا چھوڑ دیتے ہیں۔

اس جگہ سے چلے جاتے ہیں۔مگرانسان ایسانہیں کرتے۔دولت جمع کرنے کی نہ کوئی انتہاہے اورنہ کوئی ابتداء۔مجھے اپنا مقتدر طبقہ تواَزحدبیمارنظرآتاہے۔جواتنی دولت کمانے کے باوجود مزید کی ہوس میں پاگل ہواجارہاہے۔میراخیال ہے کہ ہمیں قناعت، پرندوں سے ضرورسیکھنی چاہیے۔مگریہ صرف اور صرف خواہش ہے۔شائدایک خواب۔یہاں قناعت کا خاتمہ توکب کاہوچکاہے۔

اسی اثناء میں یہ بھی اندازہ ہواکہ لاہورمیں انتہائی تعلیم یافتہ بلکہ تہذیب یافتہ لوگوںنے پرندوں اورجانوروں کا کاروبارشروع کررکھاہے۔کاروبارکالفظ درست نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے شوق کو روزی کاذریعہ بنارکھاہے۔یہ جملہ کاروبارسے زیادہ مناسب ہے۔ایک دکان پرگیاتوجنوبی امریکہ میں پائے جانے والے بڑے بڑے رنگدارپرندے نظرآئے۔انتہائی قیمتی اوربیش قیمت۔دکانداراصل میں کمپیوٹرانجینئرتھا۔پوچھنے پربتایاکہ یہ مقامی سطح پرہی مشین کے ذریعے انڈوں سے پیداکیے گئے ہیں۔

ان کا جنوبی امریکہ سے کوئی تعلق نہیں۔یہ بھی پتہ چلاکہ پاکستان میں ہرطرح کے پرندوں کے فارم موجودہیں۔شترمرغ سے لیکرگھروں میں رکھنے والے چھوٹے چھوٹے طوطوں تک۔بہرحال یہ اپنے اپنے شوق کی بات ہے۔اگر سیکھنا چاہیں تو پرندوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔مگریہاں سیکھنے کاوقت اورجذبہ کس کے پاس ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں