مشرق وسطیٰ پر قبضے کا امریکی خواب

امریکا شامی حکومت کو صرف اس لیے ختم کرنا چاہتا ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی حامی اور امریکا مخالف ہے۔


صابر ابو مریم January 15, 2013

مشرق وسطیٰ پر امریکی قبضے کا خواب کوئی نیا خواب نہیں ہے۔ عالمی استعمار امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہی مشرق وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ہاتھ پائو ں چلانا شروع کر دیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کس طرح امریکا اور برطانیہ سمیت فرانس اور دیگر یورپی قوتوں نے مشرق وسطیٰ سمیت شمالی افریقہ کے علاقوں کی بندر بانٹ کی۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ایک ممالک پر براہ راست اور بلا واسطہ امریکی و فرانسیسی تسلط قائم رہا بلکہ آج تک کچھ ممالک میں تو قوانین بھی وہی رائج ہیں جو فرانسیسیویوں نے بنا دیے تھے۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جو انسانیت کے ماتھے پر مغربی و یورپی ممالک کی طرف سے کلنک کا ٹیکہ لگایا گیا اسے آج ہم ''اسرائیل'' کے نام سے جانتے ہیں۔ جی ہاں! اسرائیل، غاصب صیہونی ریاست۔

بہر حال یہ تو حال ہے کچھ ماضی کا لیکن دور جدید میں بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکا سمیت دیگر مغربی قوتیں اور یورپی قوتیں مشرق وسطیٰ پر اپنی گندی نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح سے مشرق وسطیٰ میں اپنا ناپاک تسلط قائم کر دیں۔ اور اسی لیے شاید مغربی و استعماری قوتیں مشرق وسطیٰ میں سازشوں کے جال بُننے میں مصروف عمل بھی ہیں۔ اب ایک طرف تو استعماری طاقتوں کا یہ خواب ہے جسے وہ پورا کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے عمل سے گریز نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ جنگ چھیڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے یا پھر کسی ملک کے سربراہ کو قتل کروانے جیسے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کرنے سے باز نہیں رہتے۔ اس قسم کی کئی ایک مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، مثال کے طور پر لبنان میں سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کا قتل جس میں براہ راست اسرائیل ملوث تھا۔ اور یقینا اسرائیل نے رفیق الحریری کو امریکی و سامراجی قوتوں کی ایماء پر ہی ایک ڈرون حملے میں قتل کیا۔

عالمی سامراجی و استعماری طاقتوں نے بہت کوشش کی ہے کہ کچھ ایسے مسائل کو جنم دیا جائے جس کے بعد خطے میں کچھ مخالف قوتوں کی ہم آہنگی کو ختم کیا جا سکے۔ مثلاً دسمبر 2012میں غزہ پر اسرائیلی حملہ کر دیا کہ شاید ان کے مقاصد پورے ہو جائیں۔ یہاں پر یاد رہنا چاہیے کہ 2000 میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے لبنان پر اسرائیلی قبضہ کا خاتمہ صرف اور صرف جہاد اور مزاحمت کے راستے سے کیا تھا اور نتیجے میں اسرائیلی فوجیں جو لبنانی دارالحکومت بیروت پر قبضہ جما چکی تھیں لبنان سے فرار اختیار کر گئیں اور لبنان سے اسرائیلی تسلط کا خاتمہ ہوا۔ یہ کامیابی صرف لبنان کی نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی کامیابی تھی کیونکہ اس کامیابی کے بعد مشرق وسطیٰ کو ہتھیانے کے خواب دیکھنے والی استعماری قوتیں یہ جان چکی تھیں کہ ان کا خواب بہت جلد پورا ہونے والا نہیں ہے۔

دوسری بڑی اور اہم کامیابی اس وقت حاصل ہوئی جب لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے 2004 میں سیکڑوں فلسطینی و لبنانی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے صرف دو اسرائیلی فوجیوں کے تبادلے کی صورت میں آزاد کروایا۔

تیسرا اہم ترین اور بڑا واقعہ اس وقت پیش آیا جب 2006میں ایک مرتبہ پھر حزب اللہ کے جوانوں نے اسرائیلی سرحد کے اس پار سے دو اسرائیلی فوجیوں کو ایک جھڑپ کے بعد یرغمال بنالیا اور اٹھا کر لبنان لے گئے۔ اس موقعے پر امریکا سمیت تمام استعماری قوتوں نے اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے لبنان پر حملہ کر دیا جس کے جواب میں لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ نے بھرپور کارروائی کی اور یہ جنگ 33 دن تک جاری رہنے کے بعد اسرائیل کی پسپائی اور اسرائیل کی جنگ بندی کی بھیک پر ختم ہوئی۔ اس جنگ نے پورے مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن کے بدل کر رکھ دیا۔ وہ اسرائیل جس نے 67 اور 73 کی جنگوں میں بیک وقت 6عرب ممالک کو شکست دی تھی لیکن یہاں صرف ایک مزاحمتی گروہ تھا جس نے 33 روز تک اسرائیل کو نہ صرف سرحدوں کے اس پار رکھا بلکہ اسرائیل کو بھاری نقصان بھی پہنچایا۔

چوتھا اہم ترین واقعہ 2008 میں اس وقت رونما ہوا جب ایک مرتبہ پھر امریکی و برطانوی ایماء پر غاصب اسرائیل نے فلسطین کے علاقے غزہ پر حملہ کر دیا اور یہ حملہ اس لیے کیا گیا تھا کہ فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو ختم کر دیا جائے لیکن یہاں بھی صورت حال امریکی و اسرائیلی خوابوں کے بر عکس رہی اور یہ جنگ بھی 22 روز تک جاری رہنے کے بعد اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ اس مرتبہ بھی مزاحمتی گروہوں نے ثابت کر دیا کہ طاقت کا توازن اب بدل چکا ہے۔

یہ وہ چند اہم واقعات ہیں جو درج بالا سطور میں پیش کیے گئے جس کے بعد عالمی استعمار اور سامراجی قوتوں نے اپنے ناپاک عزائم کو مکمل کرنے کے لیے جو ترکیب سوجھی اس میں لبنان سے شامی افواج کا انخلاء تھا جو وہ پہلے ہی شام پر اور لبنان پر دبائو ڈال کر کروا چکے تھے۔ لیکن بات یہاں بھی نہیں رکی بلکہ مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں اٹھنے والی اسلامی بیداری کی تحریکوں کی عظیم الشان کامیابی کے بعد اب امریکا اور اس کے حواریوں نے جس طرف رخ کیا ہے وہ شام ہے۔ یعنی شام میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شامی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے دہشت گردی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

شام جو کہ ایک ایسی حکومت ہے جس نے روز اول سے نہ صرف فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے بلکہ فلسطینی مزاحمتی تحریکوں حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی سمیت دیگر مزاحمتی گروہوں کو شام میں دفاتر سمیت امداد بھی فراہم کی ہے اور آج بھی شام شدید مسائل کے باوجود یہ سب کر رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائٹ پر جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں 70 سے زائد ممالک سے آنے والے جنگجو شامی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے خانہ جنگی میں ملوث ہیں۔

یہ تو ہو گئی شام کی بات۔ اب آئیے ایران کی طرف، ایران جہاں پر 1979 میں امام خمینی کی قیادت میں بپا ہونے والا اسلامی انقلاب روز اول سے ہی فلسطینی کاز کی حمایت کر رہا ہے۔ اسی طرح ایران مشرق وسطیٰ میں ایک مضبوط رکن کی حیثیت سے اپنا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ جب کہ اسلامی مزاحمتی تحریکوں حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی سمیت دیگر فلسطینی گروہوں کی مالی و مسلح معاونت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ شام کے مسئلے پر ایران نے واضح اور دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ شام میں صرف اور صرف سیاسی حل کی حمایت کرتے ہیں اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دنیا بھر سے دہشت گرد گروہوں کو لا کر شام کی فلسطینی حامی حکومت کو کمزور کیا جا سکتا ہے تو ایران کے لیے شام ایک سرخ لائن کی مانند ہے۔ ایران شام کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو گا۔ یہ تو مختصر خلاصہ تھا جو موجودہ حالات کے بارے میں پیش کیا گیا ہے۔ اب دیکھیے امریکی بوکھلاہٹ کے منہ بولتے ثبوت۔

امریکا اور اس کے حواری جہاں ایک طرف مشرق وسطیٰ کو اپنے ناپاک عزائم کے لیے کنٹرول کرنے میں ناکام ہوئے ہیں تو بوکھلاہٹ میں آ کر اب امریکا یورپ سے یہ اپیل کر رہا ہے کہ لبنان کی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ جو اب لبنان کی بڑی سیاسی و سماجی قوت بن چکی ہے کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ واضح رہے کہ امریکا نے بہت پہلے ہی حزب اللہ کے خلاف اس طرح کے اعلانات کیے تھے لیکن بعد ازاں حزب اللہ کی سیاسی قوت اور سماجی فعالیت نے یورپ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ لبنان کی سیاسی حقیقت کو تسلیم کریں لہٰذا یورپ نے حزب اللہ کو ایک سیاسی و سماجی قوت تسلیم کر لیا تھا تاہم امریکا یورپ سے اس بات کی بھیک مانگ رہا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف اقدام کیا جائے لیکن یورپی یونین سے یکسر مسترد کرتے ہوئے امریکی مطالبے کو غلط قرار دے دیا ہے۔24 جولائی 2012 کو بھی یورپی یونین نے اسرائیل کی جانب سے حزب اللہ کے خلاف کیے جانے والے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح امریکی بوکھلاہٹ کا ایک اور منہ بولتا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ شام کے حالا ت پر اپنی گرفت کھو چکا ہے اگرچہ دنیا بھر سے دہشت گرد گروہوں کو لا کر شام میں کھڑا کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باجود اب امریکا خود براہ راست اس جنگ میں وارد ہو رہا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ 3 جنوری کو امریکی فوجی دستے ترکی سے ملحقہ شام کی سرحد پر پہنچ چکے ہیں اور وہاں پر بھاری میزائل سسٹم سمیت اسلحہ نصب کیا جا رہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ امریکی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے اور اپنے آخری انجام کی طرف خود ہی دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے۔ افغانستان، عراق، بحرین، پاکستان اور دیگر ممالک کے بعد اب شام کے خلاف امریکا کا کھل کر سامنے آنا اور پھر ترکی کے ساتھ مل کر شام کی سرحدوں پر امریکی افواج کا بھاری اسلحہ اور میزائل سسٹم نصب کرنا یہ ظاہر کر رہا ہے کہ امریکا شام میں دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے اور شامی حکومت کو صرف اس لیے ختم کرنا چاہتا ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی حامی اور امریکا مخالف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔