غربت و مہنگائی کا شکار عوام
گزشتہ چند ہفتوں سے اٹھنے والی مہنگائی کی لہر اب طوفان کی شکل اختیارکرچکی ہے
گزشتہ چند ہفتوں سے اٹھنے والی مہنگائی کی لہر اب طوفان کی شکل اختیارکرچکی ہے۔ ہوشربا مہنگائی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو ماہ مئی میں رمضان کی آمد اور ممکنہ بجٹ کے اعلان کے بعد مہنگائی سے جاں بہ لب شہریوں پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوجائے گا۔
اسٹیٹ بینک مہنگائی میں اضافے کا سبب شہریوں کی آمدنی میں اضافے کو قراردے رہا ہے جس کی وجہ سے اشیائے صرف کی طلب میں اضافہ مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔ جس کے نتیجے میں مہنگائی گزشتہ دو سالوں کے بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ اضافے کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ پاک افغان سرحد کھلنے پر منافع خور تاجر سبزیاں پولٹری مصنوعات ودیگر اشیا بے دھڑک افغانستان پہنچارہے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کو بھی مہنگائی کا ایک سبب قرار دیا جارہاہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ گرین ہائوسز بند ہونے اور بھارت ودیگر ممالک سے درآمد کی وجہ سے ٹماٹرکی کاشت کم کی گئی ہے جس کی وجہ سے ٹماٹر کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سردی کے موسم کی طوالت کی وجہ سے بھی بعض فصلوں کو نقصان پہنچا یا ان کی پیداوار میں تاخیر ہوئی ہے۔ذخیرہ اندوزوں، ناجائزمنافع خوروں اورآڑھتیوں کی کارستانیوں اور ضلع انتظامیہ نرخ کنٹرول کمیٹیوں ودیگر متعلقہ سرکاری اداروں کے مستعد و فعال نہ ہونے کی وجہ سے بھی مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آمدنی میں اضافہ مہنگائی کے تناسب سے نہیں ہوا ہے۔ اس لیے غریب ومتوسط طبقے کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے لیے جسم وجان کا رشتہ اور اپنی سفید پوشی برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا ہے۔ انڈے، دودھ، ٹماٹر، سبزیوں، چکی جیسی روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتیں آسمانوں تک پہنچ چکی ہیں جب کہ یوٹیلٹی کارپوریشن نے بھی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ شروع کردیا ہے گو کہ وزیراعظم نے مہنگائی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے فوری طور پر تمام وزرا اعلیٰ اور متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ مہنگائی میں ہونے والے اچانک، ہوشربا اضافے کی وجوہات کا جائزہ لے کر قیمتوں میں اضافے کی واپسی کے لیے اقدامات کریں لیکن ایسے اعلانات و ہدایات پر عموماً عمل کم ہی ہوتا ہے جب تک کہ ہنگامی نوعیت کے اقدامات کرکے کڑی نگرانی کا بندوبست نہ کردیا جائے جس کے لیے اہل دیانت دار انتظامیہ کی ضرورت ہوں جو سیاسی مداخلت،ا قربا پروری اور کرپشن سے پاک ہو۔ جو ہمارے ہاں تقریباً ناپید ہے کچھ اہل و ایماندار افسران ہیں تو انھیں اوپر سے تحفظ وتائید اور ماتحتوں سے تعاون و کارکردگی نہیں مل پاتی ملکی نظام میں ان کی حیثیت مفلوج وفالج زدہ جسم کی سی ہے جس کا ذہن تو کام کرتا ہے لیکن جسمانی اعضا اس کا ساتھ نہیں دیتے۔
دو سال قبل کمشنرکراچی شعیب صدیقی نے مہنگائی کے سد باب کے لیے بڑے عمل اور ہنگامی نوعیت کے اقدامات اٹھائے تھے جس کے بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے تھے جنھیں عوامی سطح پر بڑا سراہا گیا تھا۔ لوگ آج بھی اس مہم کو یاد کرتے ہیں۔ جب تک وہ اور ان کی مہم جاری رہی مہنگائی کا سلسلہ رکا رہا لیکن ان کے بعد صورت حال پھر وہی ہوگئی۔
اسکول کی سطح پر ہی ہر طالب علم کو یہ پڑھایا جاتا ہے اور آج بھی ہم سب کے ذہنوں میں ازبر ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کے کاشتکاروں کے کیا مسائل ہیں، اشیا کی نقل و حمل کے ذرایع میں کیا مشکلات ہیں۔ آڑھتی کس طرح کاشتکاروں کی محنت کی کمائی کھا جاتے ہیں۔ قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کیوں ہوتا ہے۔ ڈیموں کی کیا افادیت ہے، زراعت کے پیشے سے وابستہ افراد شہروں کا رخ کیوں کررہے ہیں۔ کارخانوں اور آبادیوں کے قیام سے زراعت کا شعبہ سکڑ رہا ہے، پانی کی قلت اور سیم و تھیور سے پیداوار میں کمی ہورہی ہے۔
زمین کی زر خیزی و غیرہ کم ہورہی ہے، لیکن ہمارے ارباب اقتدار و اختیار لگتا ہے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں یا پھر ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں جس کی وجہ سے عوام غربت و مفلسی کی نچلی سطح پر پہنچ رہے ہیں ۔ بے روزگاری اور غربت کی وجہ سے شہریوں میں قانونی و غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف برین ڈرین کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے لے کر کم اور ناخواندہ افراد ملک سے باہر اسمگل ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ہزاروں پاکستانی شہری بیرونی ممالک کی جیلوں میں مقید ہیں جن میں بے گناہ افراد بھی شامل ہیں جس کے ضعیف العمر والدین اور بیوی بچے ان کی واپسی کی امید لگائے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کے منظم گروہ سادہ لوح شہریوں کو باہر بھیجنے کا جھانسا دے کر لوٹ رہے ہیں ان کی جانوں اور ان کے خاندانوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ کبھی انھیں کنٹینروں میں بند کرکے مار دیا جاتا ہے کبھی پانی کے ٹینکروں میں ڈبودیا جاتا ہے۔
اخبارات میں خبر تھی کہ ترکی سے سمندری راستے سے یورپ لے جائے جانے والے نوجوان کو تلخ کلامی کے بعد اسمگلروں نے اسے کھلے سمندر میں پھینک دیا جس کے والدین آج بھی اس کی واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان انسانی اسمگلروں کی حوصلے اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ اب انھوں نے باہر جانے کے خواہش مند افراد کو حبس بے جا میں رکھ کر ان کے اہل خانہ سے تاوان وصول کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ غربت کے ہاتھوں مجبور لوگ خود اپنے بچے فروخت کررہے ہیں۔
دوسروں کے کم عمر اور نوزائیدہ بچے اغوا کرکے چند ہزار روپوں کے عوض فروخت کرنے کا سلسلہ بھی جڑیں پکڑتا جارہاہے۔ لوگ خود اپنے جسمانی اعضا فروخت کررہے ہیں دھوکے سے زبردستی اور انتہائی کم قیمتوں پر انسانی اعضا خریدنے والی منظم مافیا بھی سرگرم عمل ہے۔ معاشی اور اخلاقی حالت اس حد تک دگر گوں ہوچکی ہے کہ اب خاص تعداد میں خواتین اور بچے بھی ڈکیتیوں، اغوا، منشیات کی ترسیل اور دیگر جرائم میں ملوث ہورہے ہیں۔ گداگری تو ہمارا بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے اس میں بھی منظم مافیا سرگرم عمل ہے۔
ان تمام عوامل میں بنیادی سبب غربت اور جہالت ہے جس کا فائدہ اٹھاکر منظم جرائم میں ملوث گروہ شہریوں کی غربت، جہالت اور بے بسی سے فائدہ اٹھاکر اپنے مذموم کاروبار سے خوب مال بٹور رہے ہیں۔ جن کا سدباب کرنے والے ادارے غیر موثر و غیر فعال بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ ان عناصر کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے غربت میں اضافہ ہوگا یہ نیٹ ورک مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔
حکومتی، ملکی و غیر ملکی ادارے اور تنظیمیں اس بات کا دعویٰ کر رہی ہیں کہ ملک میں معاشی ترقی کا سفر جاری ہے،اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی رینکنگ میں اضافہ ہورہاہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج کا کاروبار اوپر جارہاہے۔ سی پیک منصوبہ کے آغاز، توانائی کی بہتر ترسیل اور خام مال کی کم قیمتوں کی وجہ سے بڑی صنعتوں اور زراعت کی پیداوار بڑھی ہے جس سے شہریوں کی آمدنی اور اشیا کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن عملی صورت حال یہ دکھائی دیتی ہے کہ شہریوں کی قوت خرید میں کمی اور غربت میں اضافہ ہورہاہے۔
بے روزگاری اور جرائم دونوں بڑھ رہے ہیں۔ ملک سے چھوٹی صنعتیں بیرونی مصنوعات کی درآمدات کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے بند ہورہی ہیں۔ چھوٹے تاجر خاص طور پر پریشانی کا شکار ہیں۔ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا تناسب بہت زیادہ ہے، صنعت کاروں، تاجروں اور شہریوں کو بجلی و پانی کی فراہمی تعطل کا شکار ہے۔ آبی ذخائر میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔
بھارتی آبی جارحیت اور ملک میں ڈیمز نہ بننے کی وجہ سے دریا خشک ہوتے جارہے ہیں، کوئی واضح موثر زرعی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار اورعوام شہری بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اس کے شہری غذائی قلت اورمہنگائی کے آسیب میں جکڑے ہوئے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غیر موثر قو پس پردہ ملوث ہے۔ ورنہ ہمارے ارباب اقتدار اور اختیار اور سیاست دان نان ایشوز پر ہی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور کرسیاں بچانے اور کرسیاں حاصل کرنے کے لیے توانائیاں کیوں ضایع کررہے ہیں وہ بنیادی شہری مسائل پر بولنے اور انھیں حل کرانے کے لیے پوائنٹ اسکورننگ کرلیں تو شاید غریب عوام کا بھلا ہوجائے اور عوام ان کے احتجاجوں اور دھرنوں پر خرچ ہونے والی خطیر رقم کا کچھ بدل حاصل کر پائیں۔