ہے زندگی عزیز تو لازم ہے احتیاط
غلط سرنج کے استعمال کی اس سے بھی زیادہ خطرناک شکل منشیات کے عادی لوگوں میں دیکھی گئی ہے
SUKKUR:
یہ پیغام اس پروگرام کا منشا اور ماحصل ہے جو حکومت پنجاب' ایڈز جیسے موذی مرض سے بچاؤ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہی کے حوالے سے عوام الناس تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے، اس کے انچارج ایک نوجوان بیوروکریٹ ڈاکٹر عدنان ظفر ہیں جن سے چند دن قبل مجھے اسی پروگرام کے حوالے سے ملاقات کا موقع ملا جس کی سب سے اہم اور یاد رہ جانے والی بات موصوف کا ادبی ذوق تھا کہ سائنس کی تعلیم اور سرکاری نوکری کی بند گلی میں رہنے کے باوجود ان کی معاصر اور کلاسیکی ادب پر بہت گہری نظر تھی، اسی ملاقات کی معرفت ہی مجھے پتہ چلا کہ اب تک قدیم ترین سمجھے جانے والے انیسویں صدی کے وسط میں لکھے گئے یوسف خان کمبل پوش کے سفرنامہ انگلستان سے قبل بھی ایسا ہی ایک سفرنامہ لکھا گیا تھا جس کا مصنف ابوطالب لندنی' اور فارسی میں لکھے گئے اس کے سفرنامے کا نام ''سفرنامہ فرنگ'' ہے لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس کی پہلی اشاعت اس کے انگریزی ترجمے کی شکل میں سامنے آئی جو 1810 میں یورپ میں شایع ہوا، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس سے بھی بیس پچیس برس قبل بنگال کے اعتصام الدین نامی ایک شخص نے بھی انگلستان کی سیاحت کا حال ''شگرف نامہ ولایت'' کے عنوان سے لکھا تھا مگر وہ بہت مختصر اور سرسری تھا۔
سو ہوا یوں کہ ہماری بات چیت اصل موضوع یعنی ایڈز سے آگہی کے سلسلے میں ایک خصوصی تقریب سے زیادہ ادبی حوالوں کے گرد گھومتی رہی البتہ ڈاکٹر عدنان ظفر کی اپنے کام سے غیرمعمولی دلچسپی دیکھ کر میں نے دل میں یہ فیصلہ ضرور کر لیا کہ جہاں تک ممکن ہو سکا میں اس عوامی خدمت کے احسن اور ضروری کام کے ضمن میں ان کا ہاتھ بٹانے کی بھرپور کوشش کروں گا، سو جب ان کے اسسٹنٹ عزیزی سجاد نے بتایا کہ وہ اس سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے رازی ہال میں ایک خصوصی سیمینار کا اہتمام کر رہے ہیں جس میں یونیورسٹی کے چند متعلقہ شعبوں کے طلبہ و طالبات کو ایڈز کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں گی تاکہ آگے چل کر یہ بچے ایک طرح سے ماسٹر ٹرینر بن جائیں اور یوں پورا معاشرہ مل کر اس موذی مرض اور اس کے متعلقہ اسباب کے سلسلے میں نہ صرف اچھی طرح سے باخبر ہو بلکہ اس کے سدباب میں بھی موثر رول ادا کر سکے۔
اس تقریب میں مقررین نے سب سے زیادہ زور جس بات پر دیا وہ اس کے اسباب کی نوعیت اور ان کی تفصیل تھی یعنی یہ بیماری صرف ایک مخصوص نوع کی جنسی بے راہ روی اور بے احتیاطی سے ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بہت سے اسباب ایسے بھی ہیں جن میں مریض کا سرے سے کوئی دخل ہی نہیں ہوتا، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل چار بڑی اور عام وجوہات ایسی ہیں جن سے کوئی بھی شخص ایڈز میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
-1 غیر ٹیسٹ شدہ خون کے انتقال سے
-2استعمال شدہ سرنج سے
-3 سرنج کے ذریعے منشیات کے استعمال سے
-4استعمال شدہ اور خون آلود اوزاروں کے استعمال سے
تفصیل کچھ یوں ہے کہ فوری طور پر خون کی ضرورت پڑنے پر کسی مریض کو جو خون دیا جاتا ہے وہ بازار سے خریدا گیا ہو یا بطور عطیہ حاصل کیا گیا ہو جلدی یا غیرذمے داری کیوجہ سے اس کا ٹیسٹ نہیں کیا جاتا اور یوں بعض اوقات اس کے ذریعے ایڈز کے جراثیم خوامخواہ کسی جسم کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اسی طرح عام طور پر چھوٹے اسپتالوں' ڈسپنسریوں' کیمسٹوں کی دکانوں اور عطائیوں میں اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا کہ کسی استعمال شدہ سرنج کو دوبارہ استعمال نہ کیا جائے اور یوں بعض اوقات محض چند روپے بچانے کے لیے کسی صحت مند جسم کو ایڈز جیسے موذی مرض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے جس کی خبر نہ لواحقین کو ہوتی ہے اور نہ مریض کو۔ غلط سرنج کے استعمال کی اس سے بھی زیادہ خطرناک شکل منشیات کے عادی لوگوں میں دیکھی گئی ہے کہ مختلف لوگ ایک ہی سرنج سے منشیات اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں اور یوں ایڈز کا ایک مریض کئی اور زندگیوں کو بھی مزید برباد کر دیتا ہے۔ باہر سے ایڈز کے جراثیم کی کسی شخص کے خون میں منتقلی کا ایک سبب ایسے خون آلود اور صفائی کے بغیر استعمال شدہ آلات کا استعمال بھی ہے جیسے کسی اناڑی یا غیر ذمے دار دندان ساز سے دانتوں کا علاج کرانے کے دوران یہ جراثیم ایک صحت مند جسم میں منتقل ہو سکتے ہیں۔
اب جہاں تک جنسی بے راہ روی سے اس کے پھیلاؤ کا تعلق ہے تو بلاشبہ یہ اس مرض کی تباہ کاریوں کا بنیادی سبب ہے۔ غلط تربیت' بری صحبت یا کسی فوری تحریص سے کوئی مرد یا عورت عمر کے کسی بھی حصے میں اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے عام طور پر طوائفوں یا خواجہ سراؤں وغیرہ سے یہ مرض مردوں میں منتقل ہوتا ہے جب کہ عورتیں ایڈز کے کسی مریض سے جسمانی قربت کے باعث اس کا شکار ہو جاتی ہیں اور یوں ایک ہنگامی غلطی عمر بھر کا روگ بن جاتی ہے جو جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ مریض اور اس کے قریبی لوگوں کو نفسیاتی طور پر بھی تباہ کر دیتی ہے۔
عام طور پر ایسے مریضوں کے ساتھ اچھوتوں کا سا برتاؤ کیا جاتا ہے اور خود ان کے اپنے بھی ان سے بے تعلق ہو جاتے ہیں اور ان سے ہاتھ ملانا انھیں چھونا یا ان کے استعمال شدہ برتن یا کپڑے کو بھی بیماری کی منتقلی کا ذریعہ جان کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا جاتا ہے جو طبی اور معاشرتی دونوں حوالوں سے غلط اور تباہ کن ہے کہ مریض کو سب سے زیادہ ضرورت ہمدردی اور اپنائیت کی ہوتی ہے جدید طبی تحقیق کے مطابق اس مرض کا علاج ممکن سے ممکن تر ہوتا جا رہا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ ایڈز کا مریض روز مرہ زندگی کے حوالے سے بالکل ایک عام اور صحت مند آدمی کی طرح ہوتا ہے کہ مرض صرف اس کے خون تک محدود ہوتا ہے اور اس کا کوئی تعلق اس سے ملنے جلنے' مل کر کھانے پینے مشترکہ بیت الخلا یا کپڑوں کے استعمال سے نہیں ہوتا یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں عوام کو اس مرض کے پھیلاؤ اور بچاؤ کے طریقوں سے باخبر اور ہوشیار کیا جائے وہاں انھیں اس کے مریضوں سے ہمدردی اور اپنائیت کی تربیت بھی دی جائے اور یہ سلوک حادثاتی طور پر اس مرض کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ باقی مریضوں کے ساتھ بھی روا رکھا جانا چاہیے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔
معاف کرنے اور حساب لینے والی ذات تو بے شک اسی قادر مطلق کی ہے جس نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اور جس کے فیصلوں اور مشیت کو بھی صرف وہی جانتا ہے جب کہ انسانوں کے لیے بہترین راستہ اس کے بندوں سے محبت ہے اور یہ محبت اس وقت اور زیادہ محترم اور مقبول ہو جاتی ہے جب یہ مصیبت میں گھرے اور گرے پڑے لوگوں سے کی جاتی ہے اور قابل تعریف و تقلید ہیں وہ لوگ جو نہ صرف رستوں میں آنے والے گڑھوں سے مسافروں کو خبردار کرتے ہیں بلکہ چوٹ لگنے کی صورت میں ان کی مدد اور تیمارداری بھی کرتے ہیں کہ بقول درد
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں