ممتاز برطانوی کالم نویس پال جانسن کے فکر انگیز خیالات
ایک اچھا کالم نویس اپنے قاری کو علم کا صرف اتنا ذائقہ چھکاتا ہے، جو اس کے لیے خوشگواری کا باعث ہو۔
اچھے کالم نویس کی چوتھی خوبی موضوعات کا تنوع ہے۔ فوٹو : فائل
پال جانسن ممتاز برطانوی صحافی، مورخ، تقریر نویس اور مصنف ہیں۔ 88 سالہ کالم نویس نے 50 کی دہائی میں پہلے صحافی اور پھر مدیر کی حیثیت سے اپنی شناخت بنائی۔
40 سے زیادہ کتابوں کے مصنف پال جانسن نے اخبارات اور مجلوں کے لیے بہت زیادہ لکھا اور ان کا شمار نمایاں ترین کالم نویسوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے 1981ء سے 2009ء تک معروف برطانوی ہفت روزہ جریدے ''دی سپیکٹیٹر'' کے لیے کالم لکھے۔ ''دی سپیکٹیٹر'' میں لکھے ہوئے کالموں کا ایک انتخاب 1996ء میں شائع ہوا، جس میں ان کے بہترین کالموں کو جگہ دی گئی۔
اس کتاب (To Hell with Picasso & other essays) کے آغاز میں پال جانسن نے ''دی آرٹ آف رائٹنگ اے کالم'' (کالم نویسی کا فن) کے عنوان سے ایک مضمون شامل کیا، جس میں کالم نویسی کے بارے میں اپنے خیالات کے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایک اچھے کالم نویس میں کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں اور اسے کالم لکھتے ہوئے کن باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ قارئین کی ایک بڑی تعداد اس موضوع میں دلچسپی رکھتی ہے، چناں چہ اس کی اہمیت کے پیش نظر، اس مضمون کا ترجمہ و تلخیص یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
لکھنے کا کام خوشی دینے کے بجائے مشقت طلب ہو سکتا ہے، اور صحافت بھی بسا اوقات ذمہ داری سے زیادہ ذلت بن جاتی ہے، لیکن اپنے پسند کے کسی موضوع پر باقاعدہ کالم لکھنا بلاشبہ زندگی کی بڑی عنایات میں سے ایک ہے۔ میں اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی کے دوران کالم لکھتا رہا ہوں، جس کا آغاز 1953ء میں ہوا، جب میں 24 برس کا تھا۔
میں نے ''نیو سٹیٹسمین'' ، ''ایوینگ سٹینڈرڈ'' ، ''دی ڈیلی ٹیلیگراف'' ، ''دی سن'' اور ''ڈیلی ایکسپریس'' کے ساتھ دوسرے ملکی اور غیرملکی اخبارات کے لیے کالم لکھے۔ کئی برسوں تک میں نے ''نیو سٹیٹسمین'' میں ''لندن ڈائری'' لکھی اور 1980ء سے ''دی سپیکٹیٹر'' میں ہفتہ وار کالم لکھ رہا ہوں۔ مختصر یہ کہ میں کالم نویسی کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا ہوں، اگرچہ ابھی بہت کچھ ایسا ہے جو میں نہیں جانتا۔ میں کالم نویسی کے لیے کارآمد نت نئے حربے اور ذرائع دریافت کرتا رہتا ہوں اور اس کے ساتھ مجھے نئی نئی قسم کی مشکلات کا سامنا بھی تقریباً ہر بار کرنا پڑتا ہے۔
کیا چیز اچھا کالم نگار بناتی ہے؟ میرے خیال میں اس کے لیے پانچ خوبیاں ضروری ہیں۔ پہلی چیز علم ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ایک کالم نویس کو چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہونا چاہیے، نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ اس شخص سے زیادہ بور کوئی نہیں ہو سکتا جس نے معلومات اور اعداد و شمار کو رٹا ہوا ہو اور وہ اپنے اوپر لدے ہوئے خزانے کا بوجھ کسی بھی طرح اپنے سر سے اتار کر دوسرے کو منتقل کرنا چاہتا ہو۔ اس لیے کچھ بہت زیادہ بور کرنے والی شخصیات میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔
لیکن بہرحال جو شخص کالم لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے، اسے کئی موضوعات کے بارے میں اچھی خاصی جانکاری ہونی چاہیے۔ اس کا علم ایک مرتب انداز میں اس کی یادداشت میں محفوظ ہونا چاہیے، اور اسے تازہ علم کی آکسیجن مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے دماغ میں ذخیرہ شدہ علم پر جمی ہوئی گرد کو بھی جھاڑتے رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ کالم لکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق فوری طور پر اپنے علم کو بروئے کار لا سکے۔
ایک اچھا کالم نویس اپنے قاری کو علم کا صرف اتنا ذائقہ چھکاتا ہے، جو اس کے لیے خوشگواری کا باعث ہو اور جس سے وہ کالم کی صورت میں پیش کیے گئے مشروب کے معیار کا اندازہ کر سکے۔ لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی قاری آپ کی اس علمی مہمان نوازی سے محروم نہ رہ جائے۔ کسی کالم میں مجھے کوئی اچھوتا یا دلچسپ خیال، یا کوئی غیر معمولی بات جو پہلے میں نہیں جانتا تھا، نہ ملے تو مجھے ایسے لگتا ہے جیسے مجھے دھوکہ دیا گیا ہو۔
کوئی بھی کالم نویس اس دنیا سے الگ تھلگ رہ کر زیادہ عرصے تک نہیں ٹھہر سکتا۔ علم کئی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے، جن میں سے ایک یقینی طور پر دنیاداری کے معاملات ہیں۔ مثال کے طور پر وزیراعظم کابینہ کا اجلاس کس طرح چلاتا ہے، یا بکر پرائز کیونکر ملتا ہے، یا فلاں شخص کو لوگ کیوں ناپسند کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ ایک کالم نویس کو دور دراز علاقوں کا سفر کرنا چاہیے، خاص طور پر ان ملکوں کا جو زیادہ تر خبروں کی زینت بنتے ہیں۔ اسے پیرس، نیویارک، روم اور وینس جیسے شہروں سے واقف ہونا چاہیے اور دوسرے مقامات پر بھی کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور جانا چاہیے۔ دوسری زبانوں کا علم ثانوی چیز ہے، اصل بات یہ ہے کہ کالم نویس اس زبان کو بولنے، لکھنے اور سمجھنے میں مہارت رکھتا ہو، جس میں اس نے کالم لکھنا ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والے عام انسانوں سے لے کر اہم حکومتی عہدے داروں اور سربراہان مملکت تک سے اس کی ذاتی شناسائی ہونی چاہیے۔
لیکن اعلیٰ ترین سطح سے ملنے والی معلومات قارئین تک اس طرح پہنچانی چاہئیں جیسے اتفاقیہ طور پر ہاتھ لگی ہوں، نہ کہ بڑے بڑے دعوے کرنے چاہئیں۔ ایک اچھے کالم نگار کے لیے تاریخ کا علم سب سے زیادہ سودمند ہے۔ اس کے ساتھ آپ نے اپنے تجربات کو ملا کر اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے کہ قاری کو لگے کہ جو بات کی جا رہی ہے وہ کتابی نہیں بلکہ جانچی پرکھی ہوئی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایک کالم نویس کو بوڑھا ہونا چاہیے، لیکن اسے بہت زیادہ کم عمر بھی نہیں ہونا چاہیے۔
علم کے بعد دوسری چیز مطالعہ ہے۔ ایک اچھا کالم نویس کتاب دوست ہوتا ہے۔ لیکن کالم کو، چاہے وہ ادبی کالم ہی کیوں نہ ہو، کتابی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ پھر اس جیتی جاگتی دنیا سے متعلق نہیں ہو گا، جو کہ ایک کالم کے لیے بہت مہلک چیز ہے۔ تاہم مطالعہ بہت ضروری ہے اور یہ جتنا زیادہ ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ ایک کالم میں لکھنے والے کو اپنے مطالعے کی نمائش کے بجائے صرف اتنا کہنا چاہیے جتنا کہ ضرورت ہے اور جسے قارئین بغیر کسی مشقت کے پڑھ سکیں۔ کالم نویس کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی موضوع کے لیے کن کتابوں سے مدد مل سکتی ہے۔
میرے خیال میں کسی کالم میں بہترین کتابی حوالہ وہ ہوتا ہے، جو قاری کو کتاب خریدنے پر مجبور کر دے۔ یعنی یہ اتنا برمحل، دلچسپ ہونا چاہیے اور کالم کے موضوع کی مناسبت سے اس کو مہارت سے استعمال کرنا چاہیے۔ مطالعے کا دوسرا مقصد آئیڈیاز حاصل کرنا ہے۔ میری لائبریری میں میری دلچسپی کے موضوعات پر ہزاروں کتابیں ہیں، اور بالخصوص یہ اس وقت میرے کام آتی ہیں، جب کالم بھیجنے کا آخری دن آ جاتا ہے لیکن میں اپنے کالم کے موضوع کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوتا۔ لیکن یہ ایک طرح سے خطرناک عمل بھی ہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ گھنٹوں ایک کتاب میں کھوئے رہنے کے بعد آپ اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ آپ کے کسی کام کی نہیں۔ اور اس دوران آپ کا کافی قیمتی وقت ضائع ہو چکا ہو گا۔
پھر بھی اس عمل نے کئی مرتبہ میری عزت بچائی ہے۔کالم نویسی کے لیے تیسری ضروری چیز خبری فہم (نیوز سینس) ہے۔ ایک کالم نویس مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص ہو سکتا ہے، لیکن اسے یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ اپنی اس حیثیت میں، وہ ایک صحافی ہے۔ اسے باخبر ہونا چاہیے کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے، اور مختلف چیزوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں کیا کہا جا رہا ہے۔
قارئین ہمیشہ نئی، انوکھی اور معمول سے ہٹی ہوئی چیزوں میں کشش محسوس کرتے ہیں۔ بہترین کالم وہ ہے جس میں شگفتگی اور دانائی کے ساتھ قاری کی اس فطرت کو پیش نظر رکھا جائے۔ یہ نئی اور غیرمعمولی بات کسی بھی موضوع سائنس، ادب، گھریلو معاملات، فیشن، آرٹ، ڈراما، معاشرے اور مذہب وغیرہ سے متعلق ہو سکتی ہے۔ ایک اچھا کالم نویس ایک ابھرتے ہوئے معاملے یا موضوع کی اہمیت کو فوراً بھانپ لیتا ہے، جب وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنتا ہے۔ اور وہ اس کے پامال ہونے سے پہلے ہی اپنے خیالات کا اظہار کر دیتا ہے۔
اچھے کالم نویس کی چوتھی خوبی موضوعات کا تنوع ہے۔ یعنی وہ اپنے قدرتی خبری فہم کے ساتھ کالم کے موضوعات میں تنوع کی ضرورت کو بھی پیش نظر رکھے۔ زیادہ تر کالموں کو ظاہر ہے روزمرہ زندگی سے متعلق ہی ہونا چاہیے، چاہے وہ مختلف موضوعات مثلاً سیاست، سماج یا ثقافت پر لکھے گئے ہوں۔ لیکن کالم نویس کو ان یا دوسرے موضوعات میں تبدیلی لاتے رہنا چاہیے۔
میری کوشش ہوتی ہے کہ عام حالات میں مقامی سیاست یا جیوپولیٹیکس پر مسلسل دو کالم نہ لکھوں، لیکن ذرائع ابلاغ پر چھائے ہوئے کسی معاملے کی وجہ سے مجبوری بن جائے تو اور بات ہے۔ اور اگر کوئی بہت بڑی سیاسی خبر سامنے آئے جس پر ہر کوئی لکھ رہا ہو، تو میں اپنے مدیر سے پوچھتا ہوں کہ وہ اس خبر کو کیسے دیکھ رہا ہے۔
اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس پر پہلے ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے تو میں اس معاملے کو نظرانداز کر کے کسی بالکل مختلف اور ہلکے پھلکے موضوع پر لکھتا ہوں۔ میں اگر اپنے پسند کے کسی موضوع پر قلم اٹھاؤں تو شدید خواہش کے باوجود کم از کم اگلے چھ کالم اس موضوع پر نہیں لکھتا۔ اسی طرح میں دوسرے موضوعات کی تکرار سے بچنے کے ساتھ پامال ایشوز پر لکھنے سے بھی گریز کرتا ہوں۔
پڑھنے والے کو اپنے سے کم تر سمجھنا بہت مہلک ہے۔ کبھی اس کے اعصاب پر سوار ہو کر اسے ستانے کی کوشش نہ کریں۔ یاد رکھیں یہ اس کے لیے دنیا میں سب سے آسان کام ہے کہ وہ پہلے پیراگراف کے بعد آپ کا کالم پڑھنا چھوڑ دے اور اخبار ایک طرف رکھ دے۔ اور اس کے لیے اسے کوئی شعوری فیصلہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی نظریں تھوڑی دیر کے لیے اخبار سے ہٹ جائیں یا فون کی گھنٹی بجنے کے بعد وہ اخبار ایک طرف رکھ دے، دوبارہ نہ اٹھانے کے لیے۔ اپنے کالم کے ہر پیراگراف، ہر جملے، بلکہ ہر لفظ سے اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں، لیکن سب سے مشکل بات یہ ہے کہ اسے آپ کی اس کوشش کا احساس نہیں ہونا چاہیے۔
اپنے قاری سے پیار کریں، لیکن اس میں آپ کی اس پریشانی کا اظہار نہیں ہونا چاہیے کہ آپ بھی جواب میں اس سے ایسی ہی محبت چاہتے ہیں۔ قارئین کو آپ کی روزمرہ زندگی اور معمول کے واقعات سے کوئی غرض نہیں، آپ کے دکھڑے سننے کے لیے آپ کا اپنا خاندان موجود ہے۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ کالم لکھ کر اپنے قاری پر کوئی احسان نہیں کر رہے، بلکہ وہ اس مقصد کے لیے پیسے خرچ کر رہا ہے کہ اسے کوئی کام کی بات پڑھنے کو ملے اور وہ محظوظ ہو۔
ان سب کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ کالم میں آپ کی اپنی جھلک بھی نظر آنی چاہیے۔ آپ کے کالم کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قاری آپ کو پسند کرے اور پسند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کو جانتا ہو۔ لوگ جو باقاعدگی سے اخبارات و جرائد خریدنے کے لیے پیسے خرچ کرتے ہیں، وہ لکھنے والے کے ساتھ ایک ذاتی تعلق استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ کو اپنے قاری کو بتانا چاہیے کہ آپ اس کے وجود سے باخبر ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں۔
اور ایک آخری بات۔ زندگی بہت سے لوگوں کے لیے اداسی اور غم کا نام ہے، بلاشبہ یہ آپ کے لیے بھی اداسی کا نام ہے، لیکن آپ نے اس کو ظاہر نہیں ہونے دینا۔ ہر ممکن طریقے سے اپنے کالم میں عظیم ترین پر تنقید کریں، حکومتوں کو ہلاڈالیں اور لوگوں کو پندار کی بلندیوں سے نیچے لا کر اپنے جیسے انسانوں میں کھڑا کرنے میں سرگرم کردار ادا کریں۔ لیکن وقتاً فوقتاً اس بات کا اظہار کرتے رہیں کہ ہم ایک بے پایاں خوبصورت دنیا میں رہتے ہیں، جو حیرت انگیز شاندار انسانوں سے بھری ہوئی ہے، اور دل کو گرمانے والے واقعات، بے ساختہ قہقہوں کے قصے بیان کریں۔ اور لوگوں کو بتائیں کہ خدا آسمانوں سے دیکھ رہا ہے!