سرمایہ کاری خطرے میں ہے
ہماری کمپنی نے 2011ء میں کے ای ایس سی سے راہیں جدا کرلیں
ISLAMABAD:
کراچی الیکٹرک پاکستان کی واحد کمپنی ہے جسے پیداوار سے ترسیل کے تمام مراحل کا اختیار حاصل ہے، اسے vertical integration کہتے ہیں۔ اسے کراچی میں بجلی کی فراہمی کا لائسنس جاری کیا گیا۔ کمپنی کا نیٹ ورک 6500 اسکوائر کلومیٹر اور تقریباً دو کروڑ آبادی والے شہر کے پچیس لاکھ صارفین پر مشتمل ہے، یعنی یہ کمپنی پاکستان کی دس فی صد آبادی کو بجلی فراہم کرتی ہے۔ 2005ء میں اس کی نج کاری ہوئی اور کے ای ایس پاور کے پاس اس کا کنٹرول آگیا۔ 2009ء میں ابراج نے اس کا کنٹرولنگ اسٹیک الجمیح اور این آئی جی سے حاصل کرلیا۔
کے ای ایس سی کی نجکاری کی گئی تو چیف ایگزیکٹیو لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد امجد نے میری کمپنی کی خدمات حاصل کیں۔ ہمیں کے ای ایس سی کو اندر اور باہر سے نقصان پہنچانے والوں کی نشان دہی کا ہدف دیا گیا۔ جب ابراج کے بانی اور سی ای او عارف نقوی نے کے ای ایس سی میں سرمایہ کاری کے لیے میری رائے مانگی تو میری رائے تھی''کے ای ای ایس کو حقیقی معنوں میں قیمتی اثاثے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔'' سرکاری کمپنی کی ری برانڈنگ اس کا امیج بہتر کرنے کے لیے اہم فیصلہ تھا۔ 2008ء میں عارف نقوی نے صورتحال کا بیان یوں کیا ''کمپنی کی بہتری کے لیے کوئی اقدام کارگرثابت نہیں ہورہا۔ پوری یکسوئی کے ساتھ بھی اس سے زیادہ مشکلات میں گھری کمپنی کا نقشہ تیار نہیں کیا جاسکتا۔ صرف ہمی ہیں جو اس کمپنی کی جانب دیکھنے کو تیار ہیں۔''
ابراج نے کے ای میں اصلاحات کے لیے پیدواری صلاحیت میں بہتری، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے بجلی کے ضیاع اور نقصانات میں کمی کے پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جب کہ تیسرا اہم ترین پہلو Earnings before interest, tax, depreciation and amortization (EBITDA کو بہتر بنانا تھا، جو 2015ء میں 339ملین تھا۔ کل آمدن 1084ملین ڈالر سے 1778ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ EBITDAمیں 87ملین ڈالر سے 372ملین ڈالر کی بہتری آئی۔ صارفین کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ کر 25لاکھ تک پہنچ گئی۔
گرڈ اسٹیش بڑھ کر 52سے 55ہوگئے جب کہ بجلی کی ترسیل و تقسیم میں ہونے والا ضیاع اور نقصانات 35.9فی صد سے کم ہو کر 23.3فی صد کی سطح پر آگئے۔ ماہانہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالر کے نقصان کے باعث مطلوبہ مقدار میں فرنس آئل کی خریداری نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں مسلسل کمی واقع ہوئی۔ پلانٹس کی مرمت اور400میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت تک گر جانے جانے والے نظام کی بہتری کے لیے ایک کھرب ڈالر کا سرمایہ درکار تھا۔
مہنگے فرنس آئل اور سستی گیس سے ایندھن کی ضروریات پوری کی جاتی رہیں، ترسیل و تقسیم میں ہونے والے نقصانات اور ضیاع 40فی صد تک بڑھ گیا۔ ضرورت سے زاید بھرتیاں ہوچکی تھیںاور کارکنان کام کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ انتظامیہ کے ناموافق اہداف اور لیبر یونین ساڑھے 17ہزار سے زاید ملازمین سے کام لینے میں رکاوٹ ثابت ہوئی۔سرخ فیتے نے آپریشنز کو ناقص بنا دیا۔ شہر میں قائم نو گو ایریاز کے باعث 11 علاقوں میں وصولی کے اہداف حاصل نہیں ہوئے جس کی وجہ سے ڈسٹریبیوشن لاسز 44فی صد تک پہنچ گئے۔
ہماری کمپنی نے 2011ء میں کے ای ایس سی سے راہیں جدا کرلیں۔ بہر حال یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ عارف نہ صرف پاکستان کے غیر معمولی کاروباری افراد میں شامل ہیں بلکہ اپنے ملک کی بہتری کے لیے بے غرضی سے مصروف عمل رہتے ہیں۔ کے ای میں بہتری کے لیے انتہائی قابل مینجمنٹ ٹیم نے اپنا کردار ادا کیا انتہائی متحرک انداز میں طیب ترین نے جس کی قیادت کررہے تھے۔
کے ای کی نئی انتظامیہ نے اہلیت کار میں اضافے، لائن لاسز میں کمی اور آپریشنل پراسیس میں بہتری سمیت کئی اہم اقدامات کیے۔ جدید پلانٹس لگا کر پیداواری صلاحیت میں بہتری لائی گئی جس کے لیے 2009ء تک 850ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ چار بڑے منصوبوں کی تکمیل کے ساتھ ہی پیداوار 1037میگاواٹ ہوگئی۔ 3500ملازمین کو نان مینجمنٹ سے مینجمنٹ لیول میں ترقی دی گئی اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے 5700ملازمین کو مستقل کیا گیا۔ رضاکارانہ طور پر ملازمت چھوڑنے کے لیے 4459 فاضل ملازمین کو 6ارب روپے ادا کیے گئے۔ چوری، بدعنوانی اور قواعد کی خلاف ورزی کرنے والے 1372ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ اوورٹائم کی مدد میں کی جانے والی اضافی ادائیگیوں کا سلسلہ ختم کیا گیا۔ جن عہدوں یا کاموں کے لیے باقاعدہ ملازمین کی ضرورت نہیں تھی وہاں کامیابی کے ساتھ آؤٹ سورسنگ کی گئی۔
28اکتوبر 2016کو ابراج کے زیر انتظام کے ای ایس پاؤر(KESP) نے ایک معاہدے کے تحت کے الیکٹرک میں اپنے 66.4فی صد شیئرز 1.77بلین ڈالر کے عوض شنگھائی الیکٹرک پاؤر کمپنی لمیٹڈ(SEP) کے حوالے کردیے۔ بعدازاں نیپرا نے 12.07روپے کلوواٹ فی گھنٹہ کے نرخ جاری کیے جب کہ کے الیکٹرک نے موجودہ 15.57روپے کے مقابلے میں نرخ 16.23روپے کرنے کی درخواست کی تھی۔
فی کلو واٹ پر 3.50روپے کمی کئی گئی جب کہ درخواست 66پیسے بڑھانے کے لیے کی گئی تھی۔ نیپرا کی جانب سے کے الیکٹرک کے فی کلوواٹ نرخوں میں 3.5روپے کی کمی سے صارفین کو تو کوئی براہ راست فائدہ نہیں ہوگا لیکن یہ کمی کے الیکٹرک کی آمدن کو 25فی صد تک متاثر کرے گی، جس کے بعد ایک منافع بخش ادارہ راتوں رات خسارے میں چلی جائے گی۔
کے ای کے انفرا اسٹرکچر کے لیے درکار سرمایہ کاری نہیں ہوسکے گی جو کہ صارفین کے لیے انتہائی ضروری ہے اور اس کا حتمی نتیجہ یہی نکلے گا یہ نرخ کے الیکٹرک اور صارفین دونوں کے لیے اطمینان بخش نہیں رہیں گے۔ نئے جاری کردی نرخ غیری حقیقی بنیادوں پر جاری کیے گئے ہیں۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ کسی بھی ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں سو فیصد وصولیاں ممکن ہی نہیں۔ یہ تنازعہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مستقبل پر دور رس نتائج مرتب کرے گا۔ کے ای ممکنہ سرمایہ کاروں کے لیے کشش کھو بیٹھے گی۔
ڈسٹری بیوشن کپمنیاں حکومت سے حاصل ہونے والی سبسڈی کے باعث اپنے آپریشن چلاتی رہیں گی لیکن کیا کے ای کے لیے یہ ممکن ہوگا؟ غیر معمولی لاگت کے باعث کے ای ایک مرتبہ نج کاری سے قبل والے دور میں لوٹ جائے گی اور 4 بلین ڈالر کی مطلوبہ سرمایہ کاری حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گی۔ ادارے میں بہتری کے لیے کی گئی تمام کوششیں اکارت جائیں گی اور اس کے حقیقی متاثرین صارفین ہی ہوں گے۔
شنگھائی الیکٹرک کے چیئرمین وانگ یودان کا کہنا ہے ''ایس ای پی کے الیکٹرک میں گذشتہ سات برسوں میں ابراج کی جانب سے کیے گئے اقدامات کو سراہتی ہے اور کے الیکٹرک کی مینجمنٹ ٹیم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔'' اگلے مرحلے میں کے ای کو کارکردگی اور منافع کے اعتبار سے بہترین ادارہ بنانے کے لیے ایس ای پی 9 بلین ڈالر سرمایہ کاری کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جو پاکستان میں ملکی تاریخ میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔
نیپرا کی حماقت پر مبنی فیصلے سے پاکستان کی تاریخ میں ہونے والی سرمایہ کاری واپس بھی جاسکتی ہے۔ یہاں کئی ایسے ہیں جو سب سے پہلے پاکستان کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کتنی ہی بار ثابت یہ ہوچکا ہے کہ یہ محض نعرہ ہے اور یہ نعرہ لگانے والوں کی اوّلین ترجیح اپنی ہوسِ زر کی تسکین اور مفادات کا حصول ہے۔ چاہے یہ مقصد پاکستان کی قیمت ہی پر کیوں حاصل نہ ہو۔