شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانویحصہ سوم

فلم ’’پیاسا‘‘ گرودت کی کلاسک ہٹ فلم تھی اور انڈین فلم انڈسٹری میں ’’پیاسا‘‘ جیسی مقبولیت بہت کم فلموں کو نصیب ہوئی ہے


یونس ہمدم April 08, 2017
[email protected]

فلم ''پیاسا'' گرودت کی کلاسک ہٹ فلم تھی اور انڈین فلم انڈسٹری میں ''پیاسا'' جیسی مقبولیت بہت کم فلموں کو نصیب ہوئی ہے۔ فلم ''پیاسا'' کے سارے ہی گیت دلوں پر دستک دیتے تھے جیسے یہ ایک دوگانا تھا (ڈوئیٹ)

ہم آپ کی آنکھوں میں اس دل کو بسا دیں تو

ہم موند کے پلکوں کو اس دل کو سزا دیں تو

ان زلفوں میں گوندھیں گے ہم پھول محبت کے

زلفوں کو جھٹک کر ہم یہ پھول گرا دیں تو

یہ دوگانا محمد رفیع اور گیتادت نے گایا تھا اور یہ گانا مالاسنہا اور گرودت پر فلمایا گیا تھا یا پھر یہ ایک اور گیت جس میں ایک ناکام عاشق اور ٹوٹے دل کی عکاسی کی گئی ہے:

جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا

ہم نے تو جب کلیاں مانگی کانٹوں کا ہار ملا

خوشیوں کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی

چاہت کے نغمے چاہے تو آہ سرد ملی

دل کے بوجھ کو دونا کرگیا جو غم خوار ملا

بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ

کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ

ہم کو اپنا سایا تک اکثر بے زار ملا

اور یہ گیت ہیمنت کمار نے گایا تھا اور درد میں ڈوب کر خوب گایا تھا۔ فلم پیاسا 1957 کی فلم تھی اور ایک سال کے بعد پھر ساحر لدھیانوی نے ایک اور کلاسیک فلم ''پھر صبح ہوگی'' کے لیے لازوال گیت لکھے تھے اور اس فلم کے موسیقار ظہور احمد خیام تھے جب فلم ''پھر صبح ہوگی'' میں موسیقارخیام اور ساحر لدھیانوی کی جوڑی بنی تو خیام نے ساحر لدھیانوی کو یہ بات بتا کر حیرت میں مبتلا کردیا تھا کہ وہ اس کی کتاب تلخیاں کی ہر نظم اور ہر غزل کو بہت پہلے سے دھنوں کا روپ دے چکا ہے اور وہ خیام کی شاعری کا دیوانہ ہے۔ خیام وہ واحد موسیقار تھے جنھوں نے ساحر لدھیانوی کی بیشتر غزلوں اور نظموں کی مدھر دھنیں بنائی ہوئی تھیں اور پھر بعد میں بہت سی غزلیں اور نظمیں فلموں کی زینت بنتی رہی تھیں۔ساحر کی ایک نظم کو فلم کا تھیم سانگ بنایا گیا تھا جس کے بول تھے:

جب دکھ کے بادل پگھلیں گے

جب سکھ کا ساغر چھلکے گا

جب دھرتی نغمے گائے گی

جب امبر جھوم کے ناچے گا

وہ صبح کبھی تو آئے گی

وہ صبح کبھی تو آئے گی

یہ 1950 کی فلم تھی، فلمساز و ہدایت کار رمیش سہگل تھے راج کپور اور مالاسنہا نے مرکزی کردار ادا کیے تھے اس فلم کے دیگر گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی جیسے یہ ایک دوگانا:

پھر نہ کیجیے میری گستاخ نگاہی کا گلہ

دیکھئے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

میں کہاں تک نہ نگاہوں کو پلٹنے دیتی

آپ کے دل نے کئی بار بلایا مجھ کو

یا پھر یہ چند خوبصورت گیت جو انفرادیت کے ساتھ بڑے سحر انگیز تھے:

٭آسماں پر ہے خدا اور زمیں پہ ہم

آج کل وہ اس طرف دیکھتا ہے کم

٭دو بوندیں ساون کی

اک ساگر کی سیپ میں پل کے موتی وہ بن جائے

دوسری گندے جل میں گر کر اپنا آپ گنوائے

کس کو مجرم سمجھے کوئی کس کو دوش لگائے

دو بوندیں ساون کی

''پھر صبح ہوگی'' کے بعد موسیقار خیام اور ساحر لدھیانوی کے اشتراک سے اسی دور کی ایک اور فلم ''شگون'' کا تذکرہ بھی ضروری ہے یوں تو کئی گیت اس فلم کے ہٹ تھے مگر ایک غزل تو ایسی تھی کہ جس نے دلوں کو لوٹ لیا تھا ہر شعر سحر انگیز تھا۔ چند اشعار درج ذیل ہیں:

تم اپنے رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو

تمہیں ان کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو

یہ مانا میں کسی قابل نہیں ہوں ان نگاہوں میں

برا کیا ہے اگر یہ دکھ یہ حیرانی مجھے دے دو

میں دیکھوں تو سہی دنیا تمہیں کیسے ستاتی ہے

کوئی دن کے لیے اپنی نگہبانی مجھے دے دو

کیا خوبصورت الفاظ اور خیال تھا یہ انداز صرف ساحر لدھیانوی کی شاعری ہی کا خاصہ ہے اس غزل میں اس نے اپنا دل نکال کر رکھ دیا تھا۔ یہاں میں ایک اور دلچسپ حقیقت بیان کرتا چلوں کہ اس غزل کو ایک سکھ گلوکارہ جگجیت کور نے گایا تھا اور کیا خوبصورت گایا تھا۔ پھر جگجیت کور موسیقار خیام کی شریک زندگی ہوگئی تھی اس نے پھر موسیقار خیام کے دل میں گھر کرلیا تھا اور وہ خیام کے موسیقی کے سفر کی ہم سفر بن گئی تھی اور اس نے دوسری فلموں کے لیے گانا چھوڑ دیا تھا۔

اب میں ساحر لدھیانوی کے اس جگمگاتے دور کا تذکرہ کروں گا جو 1950 سے لے کر 1970 تک بڑی شہرت، مقبولیت اورکامیابی کا دور تھا۔ اس دوران ہندوستان کے شہر شہر، گاؤں گاؤں اور گلیوں گلیوں ساحر لدھیانوی کے گیتوں کی دھوم اور چرچا تھا ۔ لاکھوں بھرے دلوں میں ساحر لدھیانوی کی خوشبو بسی ہوئی تھی اور ساحر لدھیانوی کی شاعری اس دور کے بے شمار ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا بنی ہوئی تھی یہ وہ دور تھا کہ ہر فلم میں ساحر ہی کے گیت ہٹ ہو رہے تھے ساحر کے سپرہٹ گیتوں کی ایک آبشار تھی جو اپنے جلوے بکھیرے ہوئے تھی اس کے تمام گیتوں کا تذکرہ تو اس کالم میں کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے ہاں اس کے گیتوں کی آبشار سے کچھ گیت چن کر قارئین کی نذر کر رہا ہوں:

جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو

اور دے جاتے ہیں یادیں تنہائی میں تڑپانے کو

(فلم: منیم جی)

یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں' سن جا دل کی داستاں

(فلم : جال)

چاند مدھم ہے آسماں چپ ہے' نیند کی گود میں جہاں چپ ہے(فلم: ریلوے پلیٹ فارم)

زندگی بھر نہیں بھولے گی یہ برسات کی رات

ایک انجان حسینہ سے ملاقات کی رات

(فلم: برسات کی رات)

نغمہ و شعر کی سوغات کسی پیش کروں

یہ چھلکتے ہوئے جذبات کسے پیش کروں

(فلم: غزل)

ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک

خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے

(فلم: بہو بیگم)

مانگ کے ساتھ تمہارا میں نے' مانگ لیا سنسار

(فلم: نیا دور)

اڑیں جب جب زلفیں تری کنواریوں کا دل مچلے

(فلم: نیا دور)

چھو لینے دو نازک ہونٹوں کو

کچھ اور نہیں ہے جام ہے یہ

قدرت نے جو ہم کو بخشا ہے' وہ سب سے حسیں انعام ہے یہ

(فلم: کاجل)

جرم الفت میں ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں

کتنے نادان ہیں شعلوں کو ہوا دیتے ہیں

(فلم: تاج محل)

پیار پر بس تو نہیں ہے میرا لیکن پھر بھی

تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں

(فلم سونے کی چڑیا)

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں