مین میڈ غریبی امیری

ڈیڑھ ملین امریکی ڈالرآپ کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفرکیے جانے کے منتظر ہیں


سید معظم حئی April 08, 2017
[email protected]

ڈیڑھ ملین امریکی ڈالرآپ کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفرکیے جانے کے منتظر ہیں ۔دراصل ایک اہم سابق حکومتی عہدیدار جوکہ گزشتہ دنوں آنجہانی ہوگئے کہ کرپشن سے حاصل کی گئی تقریباً پندرہ بیس کروڑ امریکی ڈالرکی کالی دولت کو سفید کرنے کے لیے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔

آپ کو بس یہ کرنا ہے کہ آپ اپنا بینک اکاؤنٹ ٹائٹل اوراکاؤنٹ نمبر اس پتے پہ بھیج دیں اور ہاں اپنا پن کوڈ بھیجنا نہ بھولیے گا تاکہ آنجہانی عہدیدارکی دکھی بیوہ آپ کے اکاؤنٹ میں یہ دولت منتقل کرسکیں جس میں سے ڈیڑھ ملین ڈالر آپ کے ہوںگے۔ ڈیڑھ ملین ڈالر یعنی کوئی 15 کروڑ روپے۔ واہ قسمت ہو آدمی کی تو ایسی۔ مگر ہائے ری قسمت کہ افریقا سے اس طرح کی خوش گوار ای میلز ہمیں بھیجنے والے ہمارے ہاں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہماری ہزاروں کی ''لاٹری'' کھلنے کے ایس ایم ایس بھیجنے والے فراڈیوں کے دور پار کے کزن نکلتے ہیں۔

''اور کیا کریں بے چارے، افریقا میں غربت بھی تو بہت ہے۔'' ہم ہمدردی سے سوچتے ہیں۔ افریقا میں کرپشن بھی تو بہت ہے اور جہاں جتنی کرپشن ہے وہاں اتنی ہی غربت ہے۔ اپنے ہاں ہی دیکھ لیں کوئی چھ کروڑ انسان یعنی ملک کی تقریباً ایک تہائی آبادی غربت سے بھی نیچے موجود ہے۔ ویسے دنیا میں غربت کا یہ عالم ہے کہ ایشین ڈیویلپمنٹ بینک (ADB) کے صدرکے مئی 2015 میں بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے دیے گئے بیان کے مطابق صرف براعظم ایشیا میں ہی تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ لوگ انتہائی غربت کے مارے ہیں۔

یہ وہی ایشیا ہے جہاں تھوک کے حساب سے ایشین ٹائیگرز پائے جاتے ہیں، جہاں چین اور بھارت جیسی پھول کے کپا ہوتی معیشتیں ہیں، جہاں سنگا پور، ہانگ کانگ، شنگھائی، تائی پے، سیول، کوالالمپور، دبئی، ابوظہبی جیسے شہر ہیں کہ جن کی اونچی اونچی عمارتوں کو دیکھنے کو جو آپ سر اٹھائیں تو ٹوپی پھسل جائے۔ اسی ایشیا میں ہمارا ملک بھی ہے جہاں ڈالرز کی ایسی ریل پیل ہے کی لانچیں بھر بھر کے ''ایکسپورٹ'' ہوتے ہیں۔عام انسانوں کی دنیا میں مگرغربت کی فراوانی ہے یہاں تک کہ ہمارے کھرب پتیوں کے مائی باپ امریکا میں بھی جہاں امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی یکم مارچ 2016 کی ایک اسٹڈی کے مطابق پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں جو کم ہوجائیں تو دسیوں لاکھ زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

لیجیے ہم ناشکرے کہیں کے کہ اپنے ہاںٹماٹر اور مرغی کی قیمتوں کو روئے جاتے ہیں۔ ادھر غربت بھی طرح طرح سے پھلتی پھولتی رہتی ہے مثلاً۔ اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن (ILO) کی 30 ستمبر 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 48 فی صد مستحق افراد پنشن سے محروم ہیں۔ جب کہباقی 52 فی صد میں سے بھی بہت سوں کو ناکافی سہولت ملتی ہے۔ غربت غربت کی اتنی تکرار سے کچھ اکتاہٹ سی ہوگئی۔ چلیے سوئزرلینڈ چلتے ہیں کہ جہاں 5 جون 2016 کو لوگوں نے ریفرنڈم میں 76.9 فی صد کی اکثریت سے یہ تجویز مسترد کردی کہ ان میں سے ہر ایک کو چاہے وہ کوئی کام کرتا ہو کہ نہیں ہر مہینے 2500 سوئس فرینک برابر دو لاکھ ساٹھ ہزار پاکستانی روپوں کے دیے جائیں۔

جی ہاں یہ وہی خوبصورت ملک ہے جس کے بینکوں میں صرف پاکستان سے لوٹے گئے 200 ارب ڈالر برابر 20 ہزار ارب روپے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کرپٹ، ٹیکس چوروں اور دوسرے جرائم پیشہ افراد کا مال محفوظ ہے۔ اب آپ سوئزرلینڈ کے لوگوں کو داد دیجیے کہ انھوں نے مزید کی ہوس نہیں کی ورنہ ہمارے وی آئی پی قسم کے بہت سے ٹیلنٹڈ فنکاروں کا پیٹ کسی صورت بھرتا ہی نہیں، اربوں کھربوں کے قرضے اور ترقیاتی فنڈز ڈکار جاتے ہیں طبیعت مگر سیر نہیں ہوپاتی، بھوک ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔ ویسے دنیا میں سب ہی ارب پتی اور کھرب پتی مگر چوری کے مال سے امیر نہیں ہوتے۔ اب آپ Oxfam کی اس سال جنوری کی ایک رپورٹ کے مطابق ان آٹھ آدمیوں کو ہی لے لیجیے جو دنیا کی آدھی آبادی کی دولت کے برابر دولت رکھتے ہیں۔ ان لوگوں نے جائز اور معروف قانونی طریقوں سے دولت کمائی ہے۔

مثلاً مسٹر مارک زکر برگ کو دیکھیے، آپ جب بھی اپنے فیس بک اکاؤنٹ کو کھولتے ہیں ان صاحب کی 44.6 ارب ڈالر کی دولت میں مزید اضافے کی وجہ بن جاتے ہیں۔اب ہم پھر پاکستان آتے ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ یہاں غربت کے ساتھ ساتھ دولت کی بھی زیادتی ہے اور کچھ ایسی زیادتی ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی اس سال کے شروع میں جاری کردہ انٹرنیشنل نارکو ٹیکس کنٹرول اسٹریٹجی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے صرف ایک سال میں ہی 10 ارب ڈالر یعنی ایک ہزار ارب روپوں سے زیادہ ہی منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھیجے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک غربت کا سوال ہے تو اس کی بھی کچھ ایسی زیادتی ہے کہ خود موجودہ وفاقی حکومت کے وزیر برائے سائنس اور ٹیکنالوجی جناب رانا تنویر کے 6 ستمبر 2016 کو سینیٹ میں دیے گئے، ایک بیان کے مطابق 80 فی صد سے بھی زیادہ پاکستانی آلودہ اور غیر محفوظ پانی پینے پہ مجبور ہیں۔

مگر یہ غریبی اور یہ مجبوری ہم پہ نازل کوئی آسمانی آفت نہیں بلکہ مین میڈ شاہکار ہیں۔ یہ شاہکارکیسے بنتے ہیں؟ ہمارے ہاں اس سلسلے میں مثالیں ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں۔ مثلاً آپ یہ دیکھیے کہ 1947 سے 2008 تک یعنی 61 سالوں میں پاکستان نے 6 کھرب روپوں کا قرضہ لیا۔ اب آپ عوامی جمہوریت کا کرشمہ دیکھیے کہ 2008 سے صرف 2013 تک یعنی صرف پانچ سالوں میں پاکستان پہ مزید 8 کھرب روپوں کا قرضہ چڑھ گیا۔ پاکستان کے کل 61 سالوں میں لیے گئے تمام قرضے سے بھی زیادہ قرضے میں کم ازکم اتنا تو کام ہو تاکہ جتنا 61 سالوں میں ہوا مگر کچھ بھی نہ ہوا البتہ کھربوں کا یہ قرضہ اڑن چھو ہوگیا کہاں یہ پتا نہیں اور یہ ہم نے نہیں موجودہ وفاقی حکومت نے کہا جس نے 23 اگست 2013 کو قومی اسمبلی میں وعدہ کیا کہ وہ تحقیقات کریگی کہ یہ کھربوں آخر کہاں خرچ ہوئے۔

ہمیں ویسے آج تک پتا نہ چل سکا کہ ان تحقیقات سے کیا پتا چلا البتہ یہ ضرور معلوم ہوا کہ 80 فی صد سے زیادہ پاکستانیوں کو پینے کو صاف پانی تک نصیب نہیں۔ پاکستان میں یہ ہر سو پھیلی غریبی اور زبوں حالی ملک میں عشروں سے قائم ''سسٹم'' کی دین ہے ہم عام نادان انسان در در مایوس ہوکے کچھ معزز اداروں سے امید لگاتے ہیں کہ وہ اس سسٹم سے ہماری جان چھڑائینگے، انھی اداروں سے جنھوں نے تاریخی اور روایتی طور پر اس سسٹم کے نگہبان و پاسبان کا ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔ ہم بھی کیا سادہ ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں