’لانگ ویک اینڈ‘ ضروری تو نہیں

چین میں سرکاری تعطیلات کے اگلے روز اگر ہفتہ یا اتوار بھی ہیں تو تب بھی تمام سرکاری دفاتر اور نجی ادارے کھلے رہیں گے


شاہد افراز April 09, 2017
پاکستان میں عیدین کی چھٹیوں کے بعد پہلے روز دفاتر بالخصوص سرکاری ادارے سائیں سائیں کر رہے ہوتے ہیں، لیکن چین میں ایسا نہیں ہوتا، سب لوگ شوق سے کام پر روانہ ہوجاتے ہیں۔

ہم اکثر سوچتے ہیں کہ چین کی ترقی کا راز کیا ہے؟ پاکستان میں اکثر سیاسی قیادت کی جانب سے کہا جاتا ہے، ہمیں چین کی ترقی کے تجربے سے سیکھنا چاہیئے لیکن شاید اِس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور صرف خالی بیانات سے کام نہیں چلایا جاسکتا۔ اگر ہم چینی افراد کی جانب سے سرکاری یا نجی اداروں میں پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کا جائزہ لیں تو یقین مانیے پاکستان اور دیگر ممالک کی نسبت ایک واضح فرق محسوس ہوگا اور یہی اُن کی ترقی کی بنیاد بھی ہے۔

چین میں قیام کے دوران جو باتیں بہت ہی دلچسپ لگی اُن میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چین بھر میں لانگ ویک اینڈ کا سرے سے کوئی تصور نہیں ہے۔ عام طور پر لانگ ویک اینڈ سے ہم مراد یہ لیتے ہیں کہ ہفتہ اتوار کے ساتھ مزید چھٹیوں کا مل جانا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں حکومتوں کی جانب سے جب کچھ خاص مواقعوں، تہواروں یا دیگر اہم نوعیت کی قومی تقریبات کی بناء پر عام تعطیلات کا اعلان کیا جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہفتہ اتوار بھی انہی تعطیلات کے دوران آجاتے ہیں، سو عام الفاظ میں کہا جاتا ہے کہ ''چھٹیوں کا مزہ دوبالا ہوگیا۔'' پاکستان میں تو زیادہ تر لوگ اپنے آبائی علاقوں کا رُخ بھی کرتے ہیں کیونکہ تعطیلات معمول سے زیادہ جو ہوجاتی ہیں، لیکن چینی سماج میں چھٹیوں کے معاملات باقی دنیا سے بہت مختلف ہیں۔

بیجنگ میں کام کے دوران پہلی بار اکتوبر کے مہینے میں یہ حقیقیت ہم پر آشکار ہوئی کہ بھیا چین میں لانگ ویک اینڈ کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے، اگر حکومت نے پانچ روزہ تعطیلات کا اعلان کیا ہے تو مقررہ تعطیلات کے اگلے روز اگر ہفتہ یا اتوار بھی ہیں تو تب بھی چین بھر میں تمام سرکاری دفاتر اور نجی ادارے کھلے رہیں گے اور کسی قسم کی چھٹی نہیں ہوگی۔

بہت عجیب سا لگا کہ یہ کیا بات ہوئی، لانگ ویک اینڈ کا تصور تو تقریباً پوری دنیا میں ہی پایا جاتا ہے، اور ویسے بھی ہفتہ اتوار تو دنیا کے اکثریتی ممالک میں چھٹی ہوتی ہے سو اِس دن کام کرنے کی منطق کچھ سمجھ نہیں آئی۔ لیکن آہستہ آہستہ پتہ چلا کہ چینیوں کے نزدیک کام کے وقت صرف کام اور چھٹیوں کا مطلب صرف تفریح، سیر سپاٹا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ چھٹی بناء کسی لانگ ویک اینڈ کے مقررہ دنوں کی دی جاتی ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اگر جشنِ بہاراں یا چین کے قومی دن کے حوالے سے تعطیلات کا آغاز پیر کے روز سے ہورہا ہے تو تب بھی ہفتہ اور اتوار دونوں دن آپ کو دفتر آنا پڑے گا۔

اگر سال بھر میں حکومت کی جانب سے دی جانے والی عام تعطیلات کا جائزہ لیا جائے تو دو مواقع ایسے ہیں، جب تعطیلات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ چین میں نئے قمری سال کے آغاز سے جشنِ بہاراں شروع ہوجاتا ہے اور اِس تہوار کو خاندانوں کے ملاپ کا تہوار بھی کہا جاتا ہے۔ جشنِ بہار کے موقع پر عام طور پر سات سے دس روزہ تعطیلات ہوتی ہیں، جس کے دوران چین کے مختلف حصوں میں روزگار، تعلیم یا دیگر مصروفیات کے باعث رہائش پذیر باشندے اپنے آبائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں، جبکہ اکتوبر میں بھی چین کے قومی دن (یکم اکتوبر) کی مناسبت سے چھٹیوں کا دورانیہ تین سے سات روز تک ہوتا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ اِن تعطیلات کا دورانیہ ہفتہ، اتوار کو شامل کرتے ہوئے بڑھایا نہیں جائے گا اور جوں ہی تعطیلات ختم، آپ کو دفتر کا رُخ کرنا ہوگا۔

چلو مان لیا کہ حکومت نے تو آپ کو مقررہ دنوں کی تعطیلات دے دیں لیکن اگر ایک چینی فرد کے پاس اپنے سال بھر کے کوٹے سے چھٹیاں پڑی ہوئی ہیں، تو اُسے اُن تعطیلات کے ساتھ اضافی چھٹیاں لے لینی چاہیئے جس طرح ہم پاکستان میں کرتے ہیں کہ عیدین یا دیگر مواقعوں پر عام تعطیلات کے ساتھ اپنی دفتری چھٹیاں ساتھ ملا لیتے ہیں، لیکن انفرادی سطح پر یہاں ہمیں چین کی ترقی سے سیکھنے کا پہلو نظر آتا ہے، کیونکہ چین میں ایسا کوئی رواج نہیں ہے اور کسی قسم کی اضافی چھٹی عام تعطیلات کے ساتھ نہیں لی جاسکتی۔

پاکستان میں کام کے دوران اکثر یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ عیدین کی چھٹیوں کے بعد پہلے روز دفاتر بالخصوص سرکاری ادارے سائیں سائیں کر رہے ہوتے ہیں، لوگ پہلے روز کام پر نہیں آتے ہیں، کچھ نے اضافی چھٹی لی ہوتی ہے، کچھ بیماری کا بہانہ کردیتے ہیں، کچھ کو گاڑی کا ٹکٹ ہی نہیں ملتا، یا پھر کسی کی ذاتی گاڑی راستے میں خراب ہوجاتی ہے۔ چین میں ایسا نہیں ہوتا، عام تعطیلات کے اختتام پر جوں ہی دفاتر کھلتے ہیں سب لوگ شوق سے کام پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ کہیں آپ کو حاضری کم نہیں ملے گی چاہے دفاتر ہوں یا تعلیمی ادارے، سب لوگ اپنی حاضری کو یقینی بنائیں گے۔

قارئین دفاتر میں کام کے دوران چھٹی کی طلب تو ہر فرد کو رہتی ہی ہے لیکن چھٹی سے ہٹ کر اگر عام روٹین میں دفتر میں گزرے وقت کو محنت، لگن، ایمانداری سے استعمال کیا جائے تو یقین مانیے، ملک و معاشرہ ترقی کرسکتا ہے اور اِس کی ایک حقیقی مثال چین ہے جو اِس وقت دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں