کیا قوم ہیں ہم دوسرا حصہ
ترقی پذیر اقوام اورریاستوں میں جن کے پاس دولت آنے لگتی ہے وہ جدت کی جانب گامزن ہونے میں دیر نہیں کرتے
استعماری قدغن:عملی اثرات ترقی پذیر قوموں کے پاس آنے والے دس بیس برسوں میں اپنی ایجاداتی تعلیمات اورجمہوری روایات کے دم پر ترقی یافتہ وجمہوریت یافتہ بن جانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ، لیکن ایسا کرنے کے لیے نشاۃ ثانیہ کی قوموں کی طرح انھیں توسیع پسندی کے ذریعے ان ایجادات کی مارکیٹ بنانے کی خاطر دیگر اقوام کواپنی قومی حکومت کے زیر سایہ لینے کے لیے بھی اقدامات کرنا ہوں گے، اگر مارکیٹ بھی بنالی گئی تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ ایجادات قوموں کے مقابلے پر اپنے موجدین کے لیے زیادہ منافع بخش ثابت ہوں گی۔ کیونکہ یورپی نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں قدیم استبداد نے پہلے ہی سے جدیداستعمارکی شکل لی ہوئی ہے۔ جس کے دم پرآج ترقی یافتہ اقوام اور ان کی ریاستیں انھی موجدین یا پھر ان کے منتظمین کی دست نگر بنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یعنی جس طرح یورپی نشاۃ ثانیہ کی صدیوں میں جارحانہ استبداد کے ساتھ جدید استعمار نے جنم لیا، بالکل اسی طرح ان مؤجدین کا طبقہ قومی صفوں سے نکل کر اسی استعماری قومیت میں داخل ہوتا جائے گا۔
کیا کوئی انکارکرسکتا ہے کہ ترقی پذیر اقوام اورریاستوں میں جن کے پاس دولت آنے لگتی ہے وہ جدت کی جانب گامزن ہونے میں دیر نہیں کرتے ۔یعنی دیہاتوں سے جدید شہروں اور ترقی پذیر ممالک سے ترقی یافتہ ممالک کی جانب نقل مکانی کرنے کے چلن کو رائج کیاجاچکاہے جس کی سب سے چھوٹی ''آن ریکارڈمثال''پاناما لیکس کی ہے ۔جب کہ اس قسم کی ترقی وتوسیع پسندی کے اثرات ریاستوں کے اندر موجود مزید ترقی پذیر مقامی تشخص سے متعلق افراد پر ظاہر ہونگے۔ جن میں پھراحساس محرومی کا ابھرنا لازمی امر ہوگا اور اسی صورت حال میں جمہوریت ان کی پشت پناہی کرے گی تب وہ بھی ریاستوں اور ان کے مرکب شدہ قومی وجود میں انتشارپھیلانے کاسبب بننے لگیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ پہلو بھی قابل فکر ہے کہ ان ایجادات کی فروخت کے لیے محکوم گروہ دستیاب نہ ہونے کی صورت میں عالمی مارکیٹ میں ان کی گنجائش پیدا کرنا بھی عالمی استعماری ایجاداتی قوتوں کے Approveکے بغیر ممکن نہیں بن سکے گا۔اگر اس دوران کوئی تحقیق ، ایجاد یا نظریہ یقینی طور پرکسی قوم یا ریاست کی فلاح وبہبودکا عملی کام کرتے ہوئے نظر آجائے تو اس پر عالمی استعمار کی جانب سے ہر قسم کے قدغن لگائے جانے کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ سرمائے اور قوموں کی طرح ان کی ایجادات وتحقیقات پراستعماری قوم کی اجارہ داری قائم ہے ۔جسے چیلنج کرنا شاید ترقی پسندی کے پیمانوں کو چھلکانے جیسا ہی ثابت ہوگا۔
اس ضمن میں پیٹرول کی بجائے پانی کے عناصر یعنی ہائیڈروجن اور آکسیجن کو علیحدہ کرکے ایندھن کے طور استعمال کرنے کی ایجاد کو باربار دبا دیے جانے کی مثال کو سامنے رکھا جاسکتاہے۔ جس میں روس وجاپان جیسی ترقی یافتہ قومیں بھی مجبوردکھائی دیتی ہیں اوراپنی اس قسم کی تحقیق کو آگے بڑھانے میں بے بس ولاچار نظر آتی ہیں ۔
مسائل یکساںانداز وکھرا: اقوام عالم میں نشاۃ ثانیہ کے جدید تحقیقات ونظریات پر مشتمل نصاب کے دم پر ریاستوں کے مقدس انتظامی منصبوں اور ریاستی اداروں پر جن افراد کوبراجمان کیا جاچکاہے ۔ان میں شامل ہونے والوں کی اکثریت کی صلاحیتیں نشاۃ ثانیہ میں مرتب کی گئیں ان تحقیقات یا نظریات کا رٹا لگانے یا پھر ان کو مضبوط کرنے کے نئے نئے جواز فراہم کرنے سے کچھ زیادہ نہیں رہ جاتی۔ کیونکہ نشاط ثانیہ کی صدیوں پر مشتمل ترقی پذیری کا احساس جرم ''ان کے قومی تشخص ''اور انفرادی اعصابوں پرحاوی ہے۔ جس کے باعث وہ اپنی نام نہاد وسیع النظری میں عالمی اداروں کے قوانین کے سامنے قومی مفادات کی بجائے شخصی طورجمہوریت وترقی پسندی کا تاثر دینے کے لیے سرنگوں ہونے میں دیر ہی نہیں لگاتے۔اہل نظر حضرات ایسے بہت سے واقعات سے بخوبی واقف ہونگے اوروہ میر جعفر اور میر صادق کے ڈی این ایزکو چلتا پھرتا اور''حاظر وناظر'' طور ملاحظہ فرماتے ہونگے اور جن کی موجودگی میں وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یورپی نشاط ثانیہ کی تقلید میں اقوام نے اپنی حالت زار ''نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن''کے مصداق بناکر رکھ دی ہے ۔بلاشبہ قوموں کی صفوں میں اس طرح کے سیاق وسباق کے گہرے عملی اثرات پاکستان ،اس کی ریاست اوراس کی قومیت پر بھی چھائے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جن سے وہ بھی نبردآزماء ہے ، لیکن ''پاکستانی قوم ''کا انداز اقوام عالم کی طرز حیات سے بلکل ہی مختلف ہے اور قوام عالم کی طرح پاکستانی قوم پر بھی جو حالات مسلط کیے جانے لگے ہیں ان پر ہمارے جمہوریت پسند وترقی پسند حضرات کا انداز بیاں بھی بڑا ہی وکھرا نظرا ٓتا ہے ۔
ٹرمپی ذرایع پیداوار: تاریخ کے طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ ترقی پذیری کی رائج اصطلاح کی تفسیر میں اتنا جان لیں کہ جواقوام ابھی مکمل طور نشاط ثانیہ کی فیکٹریات و روایات کے اثرات سے محفوظ اورمقامی ذرایع پیداوار اورروایات پر انحصارکرتی آئی ہیں انھیں ترقی پذیرکہا جاتا ہے۔ ان کے ذرایع پیداوار مقامی اورقدیم ہیں اس لیے ان کاطرز حیات بہت سست تصورکیا جاتا ہے ۔ان اقوام کی مارکیٹس بھی مقامی اشیاء سے بھری ہوئی ہیں۔اسی لیے ان کی ریاستوں میں بے ہنگم اور مضحکہ خیز ی کا عنصرنمایاں نظر آتا ہے ۔ان مارکیٹس میں اشیائے خورونوش بھی کھلے میں بیچی جاتی ہیں، لیکن جدید فیکٹریاتی مصنوعات کے لیے دکانوں کا سجایاجانا ناگذیر تصورکیاجاتا ہے ۔چاہے پھر وہ جوتوں کی دکان ہی کیوں نہ ہو۔شاید اسی لیے یورپی نشاط ثانیہ نے جہاں قوموں کی جڑیں کمزورکردیں ہیں وہیں انھیں جدید سجاوٹی انداز اپنانے پر مجبورکیا ہوا ہے ۔فرض کرلیں اس طرح سے اگر اقوام ترقی یافتہ بن جاتی ہیں تو پھر جس سو ایکڑ رقبہ زمین پر بیس سے پچیس خاندانوں کاانحصار ہواکرتا تھا وہ چار افراد اورآٹھ مشینوں کی مدد سے آبادکی جائیں گی۔کیااسی لیے قوموں کو اپنی آبادی پر ضابطہ لائے جانے کے لیے عالمی استعمارکی جانب سے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جانے ہیں؟ آج جس ترقی پذیر مارکیٹس میں سیکڑوں دکانیں ہزاروں خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کرنے کا سبب بنی ہوئی ہیں ۔ وہا ںپھر ترقی یافتہ ممالک کی ہر ایک مصنوعات کے لیے علیحدہ علیحدہ پلازہ بنے ہوئے ہوں گے، جن کو انگلیوں پر گناجانے والااسٹاف ''ڈیل''کرتا ہوا ملے گا۔ یہاں تک کہ پینے کے پانی سمیت اشیائے خورونوش بھی فیکٹریوں کے کیمیکلی مراحل سے گذرنے کے بعد ان ہی سجاوٹی پلازاؤں سے فراہم کیے جانے لگیں گے ۔شہر ہو یا دیہات ہرگھر کے ہر فرد کے لیے دروازے پر پرانے اور نئے ماڈل کی گاڑیاں کھڑی ہونگی ۔تمام گھر یا یوں کہیے کہ کاٹیجز، بنگلوز وفلیٹس انھی فیکٹریاتی مصنوعات وتعیشات سے سجائے ہوئے ہوں گے۔ تب ان میں رہنے والوں کی تعدادلگ بھگ چار کے ہندسے تک ہوگی جن میں ماں باپ اور دوبچے شامل کیے جاسکتے ہیں۔ماں باپ سوچیں گے کہ جب وہ ان مشنریزکے کام سے ریٹائر ہوں گے توکیا بچے ان کا بوجھ سنبھالنے کو تیار ہوں گے یا پھر انھیں اپنے مرنے تک کی جمع پونجی محفوظ بنانی ہوگی اور اپنی وصیت میں کفن ودفن کا خرچا بھی پس انداز کرنا ہوگا۔ (جاری ہے۔)