دہشت گردی کی مالیاتی معاونت
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خیر کے ساتھ شر لازم و ملزوم ہے۔
اس وقت دنیا میں ایک بہت بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے۔ لیکن اس سے بڑا مسئلہ اس مظہر کی مالی اعانت کی روک تھام ہے۔ مالی وسائل کی بہتات دہشتگرد عناصر کی جدید اور حساس ترین آتشیں ہتھیاروں تک رسائی کو ممکن بنا رہی ہے۔
دنیا کے متوشش حلقے اور عالمی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ دہشتگرد اپنے مالی وسائل میں اضافے کے لیے مختلف ذرایع استعمال کرتے ہیں۔ ان میں منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ، بینک ڈکیتیاں، دولت مند افراد کا اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے علاوہ کاروباری حلقوں اور عوام سے عطیات (Donations) کی زبردستی وصولی کے علاوہ ان کے عقائد و نظریات کے مطابق دیے جانے والے صدقات اور خیرات کا جذباتی بنیادوں پر حصول شامل ہے۔ اس کے علاوہ عوام کے مذہبی جذبات اور نسلی، لسانی اور قومیتی احساسات کو ابھار کر ان کی جانب سے غربا و مساکین کے لیے مخصوص صدقات، خیرات اور عطیات بھی اینٹھ لیتے ہیں۔
اب جہاں تک منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ کا تعلق ہے، تو یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس پر مختلف حکومتیں باہمی تعاون سے اپنے سیکیورٹی اداروں کے ذریعے قابو پا سکتی ہیں۔ دوسرا معاملہ رقوم کی ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی (Money Laundering) ہے۔ اس پر عالمی قوانین کے تحت 1990ء کے بعد سے سخت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ یہ بھی ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، جس پر قابو پانے کے لیے مسلسل کوششیں کی جارہی ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ آغا حسن عابدی مرحوم کے بین الاقوامی بینک BCCI کو منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت بند کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ عالمی سطح پر اس فیصلے کے پس پشت کچھ اور ہی عزائم تھے، مگر تاثر یہی دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس بینک کے ذریعے شدت پسند عناصر کی مالی اعانت کی جارہی ہے۔
اس کے برعکس بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری ممالک کا اندرونی انتظامی معاملہ ہے۔ جس پر انتظامی ڈھانچہ کی فعالیت کے ذریعے قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ متعلقہ حکومتوں کے اداروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی فعالیت کے ساتھ ان جرائم پر قابو پاکر دہشتگردوں کی مالی منفعت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں بینک ڈکیتیوں، بھتہ اور اغوا برائے تاوان سے حاصل رقم کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔
دہشتگردوں کے مالی وسائل کے حصول کا ایک تیسرا ذریعہ عطیات، خیرات اور صدقات کا اینٹھنا ہے۔ دنیا کے ہر مذہب اور عقیدے میں عطیات، صدقات اورخیرات کے ذریعے مفلس و نادار افراد کی امداد کا تصور پایا جاتا ہے۔ عوام کے ذہنوں میں موجود کنفیوژن کا فائدہ وہ عناصر اور گروہ اٹھا رہے ہیں، جن کے مقاصد خیر کے بجائے شر کا فروغ ہے، انسانیت کی خدمت مقصد نہیں۔ اسلام نے صدقات اور خیرات کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔
ان ہدایات کے مطابق سب سے پہلے اپنے مفلس و نادار رشتہ داروں کی مالی امداد کی جائے، پھر محلے میں موجود غریب افراد کی مدد کی جائے۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں، شفاخانوں اور عبادت گاہوں کی تعمیر اور فلاحی اداروں کی مالی معاونت کی جائے، جو غریب، مفلس اور اپاہج افراد کی مختلف طریقوں سے امداد کرتے ہیں۔ لیکن یہ شرط بھی واضح طور پر عائدکی گئی ہے کہ درج بالا عطیات وصدقات دینے سے پہلے اس فرد اور ادارے کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کرلی جائے، دی جانے والی رقم کے کسی منفی سرگرمی میں استعمال ہونے کا خدشہ تو نہیں ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خیر کے ساتھ شر لازم و ملزوم ہے۔ فکری بصیرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہم اس حقیقت کو بھی سمجھیں کہ انسان کی ذہنی کاوشوں کے نتیجے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو ترقی ہوئی ہے، اس نے جہاں نسل انسانی کو ان گنت فوائد پہنچائے ہیں، کچھ عناصر نے اس کا منفی استعمال بھی کیا ہے۔ بارود کی ایجاد ہی کو لیجیے۔ اس کی ایجاد کے وقت نوبل کے ذہن میں گمان تک نہیں تھا کہ اس کی اس ایجاد سے انسان کیا کیا خوفناک ہتھیار بنالے گا۔ اس بیچارے کے مدنظر وہ محنت کش تھے، جو بڑی مشقت کے ساتھ پہاڑیاں توڑتے تھے۔
یہی سبب ہے کہ اس نے اپنی تمام آمدنی کو امن کے لیے کام کرنے والوں کو انعام دینے کے لیے مخصوص کردیا۔ یہی کچھ معاملہ ان سائنسدانوں کا ہے، جنھوں نے Fission Reaction کے ذریعے جوہری توانائی دریافت کی۔ ان کے مدنظر اس توانائی کا مثبت استعمال تھا، مگر مختلف ممالک نے اس توانائی کوتباہ کن جوہری ہتھیاروں میں استعمال کرکے عالم انسانیت کو تباہی کے ایک نئے خوف وہراس میں مبتلا کردیا۔
پاکستان کے شہری اپنی فطرت میں نیک طینت، ہمدرد اور درد دل رکھنے والے ہیں۔ وہ غریب و نادار افراد کے علاوہ قدرتی آفات سے متاثرہ افرادکی بھی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔ 2005ء میں کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آنے والا زلزلہ ہو یا 2010ء کا طوفانی سیلاب پاکستان کے ہر شہری نے حسب توفیق اپنے بھائیوں کی مدد کی۔ مختلف تنظیموں نے شہروں، قصبوں اور دیہات میں کیمپ لگا کر اشیائے ضرورت اور رقوم وصول کیں۔
بیشک کہ جمع ہونے والی اشیا اور رقوم کو بیشتر تنظیموں نے متاثرہ خاندانوں تک نہایت دیانتداری کے ساتھ پہنچایا۔ لیکن یہ شکایات بھی سامنے آئیں ۔بعض افراد جو امداد اکٹھی کی' اسے متاثرین تک نہیں پہنچایا۔اس سلسلے میں عوام عطیات دیتے وقت یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ متعلقہ تنظیم حکومت سے رجسٹرڈ ہے یا نہیں؟ اس کا بینک اکاؤنٹ اور مکمل پتہ رسید میں درج ہے یا نہیں؟ یا وہ اس تنظیم کے اغراض و مقاصد کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں یا نہیں؟
مگر اصل غلطی اور کوتاہی حکومت کی ہے، جو ان جماعتوں اور تنظیموں سے اس وقت تک صرف نظر کیے رکھتی ہے، جب تک کہ پانی سر سے اونچا نہ ہوجائے۔ اس کے بعد بھی بادل نخواستہ انھیں کالعدم قرار دے کر یہ سمجھ لیتی ہے کہ اب وہ بری الذمہ ہوگئی۔
ہر شخص اس حقیقت سے واقف ہے کہ ایسی تنظیمیں جنھیں ملک و معاشرے میں مذہبی منافرت پھیلانے اور متشدد فرقہ واریت کو فروغ دینے کے الزام میں کالعدم قرار دیا گیا، وہ دوسرے نام سے فعال ہوجاتی ہیں۔ کسی جماعت یا تنظیم کی منفی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے آئین و قانون کے مطابق عدلیہ سے کالعدم قرار دلوایا جائے۔ اس کے بعد اس کی قیادت کو کسی نئے نام سے کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔
یہ حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ نہ صرف کالعدم تنظیموں اور جماعتوں کی قیادت کو نام تبدیل کرکے کام کرنے سے روکنے میں ناکام ہے، بلکہ عوام کو بھی اس بارے میں واضح آگہی دینے میں بھی ناکام ہے۔ کالعدم تنظیموں کا نام صرف ویب سائٹ پر ڈال دینا کافی نہیں ہے، بلکہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے مختلف مواقع (رمضان، عیدین، محرم وغیرہ) پر اس کی تشہیر زیادہ ضروری ہے۔
سماجی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں عوام کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ساتھ ہی عوام کی بھی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کسی تنظیم کو عطیات، صدقات اور خیرات دینے سے قبل اس کے بارے میں اچھی طرح معلومات حاصل کر لیں کہ کہیں یہ تنظیم ملک دشمن یا عوام دشمن سرگرمیوں میں تو ملوث نہیں ہے۔ کہیں ان کی جانب سے دی جانے والی رقوم قتل وغارت گری وغیرہ میں تو استعمال نہیں کی جارہیں۔