کیا قوم ہیں ہم   تیسرا حصہ

قوموں کی آزادی کی تحریکوں کا احترام تو لازم ہے۔



جائزے کی ضرورت: نشاۃ ثانیہ میں قومی تشکیل کے اجزائے ترکیبی اور جمہوری نظریاتی طریقوں کے مطابق اگر کوئی انسانی گروہ اپنے سے متعلق قدیم قطہ زمین حاصل کرلے تو اس گروہ کا قوموں کی صف میں شامل ہونے کا حق تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ ایسا وہ جس قیادت کے زیرسایہ کرنے میں کامیاب ہوئے اس قائد کو اس قوم کے ''باپ'' Father Of Nation ہونے کا تاج پہنایا جاچکا ہے۔

تاریخ کے طالب علم کے لیے بڑی ہی حیرت انگیز بات ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے نتیجے میں نوزائیدہ یورپی اقوام نے جب دنیا کو آپس میں بانٹ لیا تھا تو یقینی سی بات ہے کہ انھوں نے قطعاً یہ نہیں چاہا ہوگا کہ ان مفتوح ومحکوم انسانی گروہوں میں نئے قومی تشخص کی بنیاد پر نئے ممالک بنائے جانے کا ''شعور'' بیدار ہو۔ لیکن عملی طور وہ ایسا کرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں، جس کے تحت انھوں نے اپنی محکوم ومفتوح اقوام کو اپنے جیسا ترقی یافتہ بنا ڈالا، تو کیا اس میں ان کا فائدہ ہوا یا پھر وہ اپنے مفتوحہ علاقوں سے دستبردار ہوئے؟

ان مفتوحہ اقوام کی تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سب سے پہلے اور سب سے اکثریت میں وہی ترقی یافتہ اور وسیع النظر بنے جن کے آباؤاجداد نے میر جعفر ومیر صادق کے ڈی این اے کو اپنے عمل سے زندہ رکھا ہوا تھا۔ تو کیا صرف پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے جمہوری احتجاجوں اور مطالبوں کی وجہ سے کرہ ارض پر اتنے سارے ممالک بنائے گئے ہیں؟ (اگر ایسا ہوتا تو فلسطین اور کشمیر کے مسائل کب کے حل ہوچکے ہوتے) یا پھر ان سب کے پیچھے جدید استعمار اپنا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے؟ کیونکہ ان صدیوں کے حتمی نتائج میں یورپ اور اس کی جدید قومیت تو نڈھال و کمزور ہوئیں لیکن جدید استعمار مضبوطی کی نت نئی معراجوں کو پہنچا۔

قوموں کی آزادی کی تحریکوں کا احترام تو لازم ہے لیکن تاریخ کا طالب علم کیا یہ نظرانداز کرسکتا ہے کہ جس فیکٹریاتی جارحانہ ترقی اور جن سرابی ومادی نظریات نے یورپ کو نچوڑ کر دنیا کو امریکی غلامی میں پہنچایا ہے وہ محکوم، مفتوح وترقی پذیر اقوام کو پھلنے پھولنے کے مواقع کیوں کر فراہم کرسکتے تھے یا فراہم کرسکتے ہیں؟

اگر یہ انسانیت کے درد میں اتنے ہی مبتلا تھے تو نشاۃ ثانیہ کے دوران قومی برتری کی خواہش میں اتنی صدیوں کو خون آشام نہ بناتے اور دنیا کو دو عالمی جنگوں کا تحفہ ہرگز نہ دیتے۔ کیا اس سے بڑا کوئی اور ثبوت ہوسکتا ہے کہ نشاۃ ثانیہ میں قومی تشکیل کے لیے مرتب کیے گئے اجزائے ترکیبی سے مرکب اقوام آپسی چپقلش و باہمی تناؤ میں مبتلا ہوکر اپنے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے کے حل کے لیے بھی عالمی استعماری اداروں کی دست نگر بن چکی ہیں؟

ایسی صورت حال میں عالم انسانیت کا درد رکھنے والے اہل دانش حضرات پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی تحقیق کریں کہ جن اجزائے ترکیبی سے قوموں کو تشکیل دیا گیا ہے ان معیارات پر سب سے پہلے کون سی قوم کھرا اترتی تھی اور یہ عناصر ترکیبی اور سرابی نظریات کس انسانی گروہ کے قوم بننے میں معاون ومددگار بنے ہوئے ہیں؟

اس ضمن میں شاید تاریخ کا طالب علم اپنی تمام تر وسیع النظری اور جمہوریت پسندی کے باوجود فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی بنیاد پر بننے والے ملک اسرائیل اور اس سے متعلق قوم یہودکو اس قسم کی ذمے داری سے استثنیٰ دینے کی ہمت کرسکے۔ چونکہ یہی ''قوم'' اور ان کے زیر سایہ یورپ و امریکا ترقی اور جمہوریت پسندی کا ماڈل بنے ہوئے ہیں۔ چونکہ قوموں کے تشکیلی ارتقائی مراحل میں خاص طور پر ان کی تاریخ اساسی اہمیت کی حامل ہے۔

اس لیے لازمی ہے کہ تاریخ عالم کے بنیادی نکات اور تحریف سے محفوظ غیر اختلافی پہلوؤں کے لحاظ سے ان کے کردار کا بغور جائزہ لیا جائے، جس کی روشنی میں ان سرابی نظریات کی بھونڈے پن پر مبنی حقیقت کھل سکتی ہے اور اقوام عالم کو لاحق بھیانک یکساں مسائل کا حل بھی دریافت کیا جاسکتا ہے۔

ترجیحات: قوموں میں دیگر ترجیحات کے علاوہ سرمائے کا حصول یکساں طور رائج ہے اور اسرائیل سرمائے پر اجارہ داری رکھتا ہے۔ ان کی ترجیحات میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اقوام عالم کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانا شامل ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ایسا انسانی گروہ ہے کہ جس نے اپنے باپ اسرائیل (یعقوب نبیؑ) سے اپنی نسبت ختم کی ہوئی ہے۔ شاید اسی لیے قوموں کی صف میں یہ ایک ایسی قوم کا درجہ رکھتی ہے کہ جس کا قانونی طور پر کوئی Father Of Nation نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی Founder Of State ہے۔

یہ تو بس باالفور نامی ایک اعلان سے جنم لینے والی ریاست ہے جو کہ ایک ایسا اعلان تھا جس کی ان سرابی نظریات پر مشتمل قومی صفوں میں نہ باپ کی حیثیت ہے اور نہ ہی وہ ماں کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ جدید دنیا کا ایک ایسا کھلا اور بھیانک سچ ہے جو نشاۃ ثانیہ کے دانشوروں کی جگر سوزیوں وعرق ریزیوں کے نتیجے میں قوموں کی تشکیل کے اجزائے ترکیبی اور ان کے باہمی تعاون و تعلق کو متوازن رکھنے کے لیے مرتب کیے گئے نام نہاد قوانین کی ہر روز دھجیاں بکھیرتے رہنے میں مصروف ہے یا پھر ان قوانین سمیت قومی تشکیل کے مرتب شدہ اجزائے ترکیبی کی حقیقت کو عیاں کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ کیونکہ بغیر کسی نسلی ونظریاتی تعصب کے بھی یہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ چھ کونوں والے اسٹار آف ڈیوڈ کو اپنے ریاستی پرچم میں قومی شناخت کے طور سجانے والوں کے ملک کا آئین ڈیوڈ (داؤد نبیؑ) کے بجائے موسیٰ نبیؑ کی جانب سے آئین ابراہیمؑ کی تشریح پر مبنی ''توریت'' نامی وہ کتاب ہے جس میں اس قوم نے تحریف کردی تھی، اور اسی تحریف کی بنیاد پر خود ڈیوڈ (داؤد نبیؑ) نے اس کو منسوخ کرکے آئین ابراہیمؑ کی جدید تشریح کو ''زبور'' کے نام سے روشناس کرایا تھا، اور اسی منسوخی کو عملی جامہ پہنانے اور آئین ابراہیمؑ کے عملی اطلاق کی کوششیں کرنے والے ڈیوڈ (داؤد نبیؑ) اور ان کے وارث یعنی جناب سلیمان نبیؑ سے انھوں نے جنگیں بھی کی تھیں۔ اور ہمیشہ کی طرح ان جنگوں میں ناکام ہونے پر انھوں نے ڈیوڈ (داؤد نبیؑ) کی فراہم کردہ تشریح زبور میں بھی تحریف کردی۔

کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ جناب یسوع مسیح (عیسیٰ نبیؑ) نے بھی آئین ابراہیمؑ سے متعلق ان دو تحریف شدہ نسخوں کی منسوخی کو برقرار رکھتے ہوئے ''بائبل'' نامی آئین ابراہیمؑ کی ایک نئی اور جدید تشریح فراہم کی تھی، جب کہ اس کے عملی اطلاق کی کوششوں کے جرم میں انؑ کو مصلوب کیا/ کروایا اور اس جدید تشریح کو بھی تحریف کی دیمک لگادی۔ یہی وہ عوامل تھے جن میں یورپی اقوام کے ساتھ ساتھ یہود برابر کے ہم قدم اور شریک کار تھے۔

یورپی اقوام کی اجتماعی دانش تو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ صدیوں تک اپنے کاندھوں اور سینوں پر صلیب اٹھائے اور سجائے پاکستان کے نظریاتی تشخص سے متعلق انسانوں پر چڑھائی کرکے زمین کو خون سے نہلاتے رہے اور تاریخ کے اسی مقام پر یہود نے خود استعماری قوت بننے کے ارتقائی مراحل طے کرنے شروع کیے تھے، اور جب انھوں نے اس خونریزی کا رخ اپنی جانب مڑتے دیکھا تو اس بلاجواز خونریزی کو ہی جواز بناکر یورپ میں اصلاحی تحریکوں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ مارٹن لوتھر کے پمفلٹ اس بات کا ثبوت ہیں۔

اس قسم کے ہتھکنڈوں کے عملی اثرات میں یہ دیکھا جانا ممکن ہوا ہے کہ فکروتدبر کی بلند تر پرواز رکھنے والے ''زور ِبازو'' نشاۃ ثانیہ کے بادلوں سے کہیں آگے اس قوم کی تاریخ پر جھپٹنے سے انکاری ہوکر باربار نشاۃ ثانیہ کے بادلوں کی جانب پلٹنے لگتے ہیں، جو کہ قوموں پر چھائے اس سارے منظرنامے کا حیرت انگیز پہلو ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ معروضی صورت حال میں اقوام عالم پر خونریز ہنگامی حالات نافذ ہیں اور جدید ترقی پسندی وجمہوریت پسندی قوموں کو نشاۃ ثانیہ سے پہلے کی تاریخ سے رجوع کرنے کی اجازت نہیں دیتی، تاکہ اقوام کی کمزور ہوتی ہوئی حالت زار کو ترقی پسندی کی ہنگامہ خیز چکاچوند میں گم کیے رکھنا ممکن بن سکے۔ جب کہ اس وقت تاریخ کے طالب علم کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ نشاۃ ثانیہ کے عملی نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس سے قبل کی تاریخ کو اس کے ارتقائی مراحل ومنازل کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرے۔

ایسا کرنے سے یقینی طور پر وہ اقوام عالم کے جدید عناصر خمیری کو سمجھ بھی سکتا ہے تو عالم انسانیت کو لاحق یکساں مسائل کا حل بھی تلاش کرسکتا ہے۔ تب تاریخ کا طالب علم یہ سمجھ سکتا ہے کہ نظریہ پاکستان قومی تشکیل کے اپنے الگ اور ناقابل تردید اجزائے ترکیبی رکھتا ہے تو تحریف شدہ توریت، زبور اور بائبل کی منسوخی کو برقرار رکھنے والے اس آئین ابراہیمؑ کی جدید تشریح و تفسیر کو بھی اپنے سینے میں سمائے ہوئے ہے۔ جس سے نشاۃ ثانیہ سمیت تاریخ کی تمام استبدادی واستعماری قوتیں لرزہ براندام ہیں۔ یہ قوتیں خوب جانتی ہیں کہ آئین ابراہیمؑ کے مرتب اجزائے ترکیبی سے مرکب ''کیا قوم ہیں ہم''۔ (جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں