یہ چور اور وہ چور

چوری سائنس کے مضمون کی طرح ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت اور بہت سے تبدیلیاں آئی ہیں۔


شہباز علی خان April 17, 2017
صورتِ حال اُس وقت پیچیدہ ہوئی جب ریاست کے خلاف دوسرے ممالک نے اس طبقہ سے راہ و رسم بڑھاتے ہوئے اُنہیں اپنی آغوش میں لے کر دہشت گرد بنا کر جگہ جگہ فِٹ کردیا۔ فوٹو: فائل

ایک غریب مسکین تیسرے درجے کے ''وارداتیے'' کا یہ کہنا ہے کہ چوری سائنس کے مضمون کی طرح ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت اور بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک پولیس آفیسر میں بھی ایک چور چُھپا ہوتا ہے، اُس کے سوچنے کا انداز بھی وہی ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی واردات ہوتی ہے تو وہ سراغ لگانے میں صرف اِسی لئے کامیاب ہوتا ہے کہ وہ جائے وقوعہ پر جاکر چور کے ذہن سے سوچنا شروع کردیتا ہے۔

پرانے وقتوں میں چور جب چوری کے لئے نکلتے تھے تو انہیں اپنے کم سماجی رتبے کا احساس ہوتا تھا اور دوسرا وہ ڈرپوک طبقے سے تعلق رکھتے تھے، یوں وہ بڑا ہاتھ مارنے سے گھبراتے بھی تھے مگر پھر ''جیو اور جینے دو'' کی مفاہمتی پالیسی نے پولیس اور چوروں میں ایک رومانوی سا تعلق جوڑ دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن میں بھی طبقاتی تقسیم کا عمل سائنسی بنیادوں پر شروع ہوگیا اور وقت نے اُن کی چھانٹی اِس طرح کی کہ چھوٹے چوروں کی معاشرے میں گزر بسر مشکل ہوگئی۔

بین الااقومی تجارتی سطح پر آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مہنگے اور دیرپا سامان کی جگہ 'میڈ اِن چائنا' نے لے لی جو سستی اور ناقص کارکردگی سے بھرپور ہوتی تھیں اور اُن کی مارکیٹ ویلیو یعنی ''فروخت بعد از چوری'' کا تو یہ حال تھا کہ پہلے اِس طرح کی چوری سے صرف چور ہی نہیں فائدہ اٹھاتا تھا بلکہ اِس سے وہ تاجر طبقہ بھی منافع حاصل کرتا تھا جو انہیں سستے داموں خریدتا تھا مگر اب ایسا ممکن نہیں تھا۔ اپ گریڈیشن کا فطری عمل بھی شروع ہونے لگا، اب چور، اُچکوں کی اولادیں بھی جوان ہوچکی تھیں اور ہر دوسرے دن اِسی بات کی تکرار ہو رہی ہوتی کہ ابا تم نے ہمارے لئے آخر کیا ہی کیا ہے؟ جاؤ گے تو کیا چھوڑ کر جاؤ گے؟

بوڑھے باپ کے پاس کوئی مناسب جواب نہیں ہوتا تھا، تاہم کچھ نوجوانوں نے ہمت باندھی اور اپنے خاندانی پیشے کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لئے اسلحہ کا استعمال شروع کردیا۔ تاہم اُن کی کوشش شروع شروع میں یہی ہوتی تھی کہ خطرے میں صرف دھمکی سے کام چلا لیں مگر بعض اوقات قتل بھی سر زد ہوجاتا تھا۔ اب تھانے کچہری کے ریکارڈ میں یہ بطور ڈکیت یا ڈاکو درج ہوگئے تھے جن سے اُن کا سماجی رتبہ قدرے بہتر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اِس طبقے نے جب دیکھا کہ بیس کروڑ آبادی کو تو پولیس تحفظ فراہم کرنے سے رہی مگر وہ بھائی لوگ تو گنتی کے ہیں کیوں ناں اُن سے کھل کر اپنے تحفظ کی بات چیت کی جائے، اب رہی سہی کسر نام نہاد جمہوری نظام نے پوری کردی اور یوں اُن کی جڑیں گلی، محلوں، سڑکوں اور شہروں سے ہوتی ہوئی ایوانوں تک جا پہنچی۔

یہ وہ والے پرانے اور فلمی ڈاکو نہیں تھے جو قانون اور قانونی اداروں سے ظالم جاگیردار سے ٹکرا کر اُن عناصر کی سلائی اُدھیڑ دیتے تھے، جو معاشرہ میں ناہمواریوں اور استحصال کا ذمہ دار ہوتے تھے اور امیروں کا مال غریبوں میں تقسیم کردیتے تھے اور غریبوں کو مسرت اور خوشی کے ساتھ ساتھ یہ سکون بھی مل جاتا تھا کہ کوئی اُن کی داد رسی والا بھی ہے۔ بلکہ یہ طبقہ وہ تھا جس کا کام ہلکی پھلکی واردتیں کرنا تھا، یہ منظم ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے سیاسی نظام کا بھی اہم جُز بنتا چلا گیا، جب یہ بے لگام ہونے لگا تو انہیں ''ہاف فرائی اور فل فرائی'' کیا جانے لگا۔

صورتِ حال اُس وقت پیچیدہ ہوئی جب ریاست کے خلاف دوسرے ممالک نے اُن کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہوئے اُنہیں اپنی آغوش میں لے کر دہشت گرد بنا کر جگہ جگہ فِٹ کردیا۔ ہونا تو یوں چاہیئے تھا کہ ہمارے رہنما وقت نکال کر مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرتے کہ موجودہ نظام سے سیاسی، آئینی اور معاشرتی تضادات کو ختم کیا جائے تاکہ ہر صوبے کے شہری کو یہ احساس ملے کہ اُسے تمام حقوق حاصل ہیں اور کوئی صوبہ اُن کے وسائل پر ڈاکے نہیں ڈال رہا، لیکن اِس خلاء کو ختم کرنے کی کوششیں سنجیدگی کے ساتھ کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی یہ تو خوش قسمتی ہے کہ ابھی تک عوامی سطح پر متشدد فکر رکھنے والے گروہوں کو اِس خلاء میں گھسنے نہیں دیا گیا۔

ایک وقت تھا جب لوگ ٹی وی ڈرامے بہت شوق سے دیکھتے تھے مگر اب ہمارے سیاستدانوں نے سب فنکاروں سے زیادہ مال اور نام بنالیا ہے، جس کی اہم وجہ نت نئی کہانیاں، چٹخارے دار القابات و الزامات ہیں جو عوام کو روزانہ سننے کو مل جاتے ہیں۔

ہر سیاست دان یہی راگ الاپ رہا ہے کہ فلاں چور ہے، فلاں چوروں کا سردار ہے اور ملک کا حقیقی مسئلہ فلاں سیاست دان سے ہی ہے اور جب تک یہ رہے گا ملک بحرانوں ہی میں گھرا رہے گا۔ یہ سب مل کر قوم کو مایوسی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کوئی سیاستدان ایک لمحے کے لئے بھی سوچنے پر تیار نہیں کہ اگر اصلی والے چور جو اب روایتی چور نہیں رہے اگر انہوں نے اِس مایوس قوم کی باگیں سنبھال لیں تو پھر وہ کہاں ہوں گے اور یہ سیاستدان کہاں ہوں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں