ہم ڈرامے کے کردار ہیں
اگر اب بھی ہم اپنے آپ کو نہیں سدھاریں گے اور اپنے اندر یہ ہی تینوں خوبیاں جو دنیا میں حکومت کرتی آرہی ہیں۔
گوئٹے لکھتا ہے کہ ''ڈراما اور ناول دونوں میں ہمیں انسانی فطرت اور انسانی عمل دکھائی دیتے ہیں، اس قسم کے افسانوی ادب (Fiction) میں صرف یہی ظاہری فرق ہے کہ ایک میں کرداروں کو بات چیت کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور دوسرے میں ان کی سوانح اور تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے بہت سے ڈرامے ناول ہوتے ہیں جو مکالموں سے چلتے ہیں اور ایک ایسا ڈرامہ لکھنا بھی ناممکن نہیں ہے جو خطوں کے ذریعے ترتیب دیا گیا ہو لیکن ناول میں ''جذبات'' اور ''واقعات'' پیش کیے جاتے ہیں، ڈراما میں ''کردار'' اور ''کارنامے'' پیش کیے جاتے ہیں، ناول آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے اور ہیرو کے جذبات، کسی نہ کسی ذریعے سے مکمل چیز کے کھل کر سامنے آنے اور اختتام تک پہنچنے کے رحجان کو روکتے رہتے ہیں، برخلاف اس کے ڈرامے میں تیز رفتاری ہوتی ہے اور ہیرو کے کردار کا انجام تک پہنچنا لازمی ہوتا ہے۔
ڈراما رکتا نہیں ہے بلکہ اسے روکا جاتا ہے، ناول کا ہیرو دکھ اٹھاتا اور مصیبتیں جھیلتا ہے اور اسے کم از کم بہت زیادہ عملی نہیں ہونا چاہیے۔ ڈرامائی ہیرو سے ہم عمل، سرگرمی اور کارناموں کی توقع رکھتے ہیں۔ گرنڈ ایسن، کلیریسا، پمیلا وکار اوف ویک فیلڈ، ٹوم جونس، اگر دکھ جھیلتے ہوئے انسان نہیں ہیں تو وہ سست رفتار اور پیچھے کی طرف جاتے ہوئے انسان ضرور ہیں اور سارے واقعات کسی نہ کسی طرح ان کے جذبات سے ابھرتے اور پیدا ہوتے ہیں۔ ڈرامے میں ہیرو سوائے اپنے کسی کو ابھرنے نہیں دیتا، وہ ہر چیز پر حاوی ہوتا ہے اور اپنے راستے کی تمام رکاٹوں کو دور کرتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو وہ پھر خود ان کے نیچے دب کر رہ جاتا ہے''۔
چونکہ ڈراما اور ناول دونوں میں ہمیں انسانی فطرت اور انسانی عمل دکھائی دیتے ہیں اس لیے کامیاب، خوشحال، ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا، برطانیہ، روس، چین، جاپان، سوئیڈن، جرمنی، ناروے، فن لینڈ وغیرہ ناول کی طرح ہیں، جہاں تمام کردار زندگی کی تمام لذتوں کا مزا لیتے، تمام رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتے، صحت مند، خوشحال، کامیاب تمام دکھوں وغموں، فکروں سے بے نیاز زندگی کے ہر ہر پل میں جی رہے ہوتے ہیں، جن کے سکھ دیکھ کر دوسرے اپنے غم و دکھ بھول جاتے ہیں۔
جہاں تمام کردار ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں، جس میں ہیرو تمام دکھ اٹھاتے ہیں اور مصیبتیں جھیلتے رہتے ہیں اور اپنے کردار کے ذریعے دوسرے کرداروں کے لیے آسانیاں پیدا کررہے ہوتے ہیں۔ جن میں ہیرو کھوکھلے نہیں ہوتے، نہ ہی ان کے جذبات کھوکھلے ہوتے ہیں اور نہ ہی واقعات کا تسلسل کھوکھلا ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی ذات ان کا محور ہوتی ہے۔
ان کے ہر قدم میں عمل، سرگرمی اور کارنامے نمایاں نظر آرہے ہوتے ہیں، اس لیے پڑھنے اور دیکھنے والا آسانی سے پہچان لیتا ہے کہ یہ ناول ہے، جب کہ غیر مستحکم، برباد، بدحال ممالک جیسے ایتھوپیا، افغانستان، شام، پاکستان، سوڈان، یمن وغیرہ ڈرامے کی طرح ہیں، جس میں ہیرو سوائے اپنے کسی کو ابھرنے نہیں دے رہا ہے، وہ ہر چیز پر حاوی ہے، وہ ملک کی طاقت اور وسائل کو صرف اپنی اور اپنے پیاروں کی ذات کے فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے۔
ملک میں صرف وہ ہی طاقتور اور بااختیار ہے، باقی سب بدحال، برباد اور بے اختیار ہیں۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ ایک دن وہ اپنی ہی طاقت اور اختیار کے نیچے آکر دب جاتا ہے اور ایسا دبتا ہے کہ پھر دوبارہ نکل ہی نہیں پاتا۔ اسی دوران کوئی دوسرا ہیرو آکر اس کی جگہ پر بیٹھ جاتا ہے اور وہ ہی سب کچھ کرنے لگتا ہے جو ملبے میں دبا سابق ہیرو کررہا ہوتا تھا۔ اب اس جگہ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈرامے میں آپ اور میرے جیسے انسان کس حال میں پائے جاتے ہیں۔
جناب اعلی ہم جیسے انسان ڈرامے میں چپڑاسی، مالی، صفائی کرنے والے، ڈرائیور، سبزی بیچنے والے، موچی، مزدور، کسان کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں اور اپنے نصیبوں اور قسمت کو خوب جی بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا ہمارا ملک ہمیشہ ڈراما ہی رہے گا یا کبھی ناول بھی بن سکتا ہے۔ اگر اس کا جواب آپ یہ دیں کہ ہاں اگر ہم چاہیں تو ہمارا ملک ناول بھی بن سکتا ہے، تو پھر جلدی سے بتاؤ ''کس طرح'' اگر اس ''کس طرح'' کا جواب آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر آئیں اس ''کس طرح'' کا جواب تاریخ کے کوڑا دان میں ڈھونڈتے ہیں، جہاں ہر سوال کا جواب موجود ہے۔
کوئی فرد جس کا گہر ا اثر دوسروں پہ، اداروں پہ، معاشرے پر رہا ہو، جس نے اچھائی یا برائی کے لیے واقعی ایک فرق پیدا کیا ہو، ان سب میں تین مشترکہ خوبیاں ''بصیرت، نظم و ضبط اور جذبہ'' پائی جاتی ہیں۔ یہ ہی تینوں خوبیاںدنیا پر ابتدا سے حکومت کرتی آئی ہیں۔ یہ ایسی لیڈرشپ کی نمایندہ ہیں جو واقعتاً موثر ہوتی ہیں۔
آئن اسٹائن نے کہا تھا ''بصیرت مستقبل ہے، یہ غیر محدود اور لامتناہی ہے، بصیرت تاریخ سے زیادہ عظیم ہے، لاؤ لشکر سے زیادہ عظیم ہے، ماضی کے جذباتی داغوں سے زیادہ عظیم ہے''۔ جب کسی نے آئن اسٹائن سے پوچھا اگر اسے خدا سے کوئی ایک سوال پوچھنے کا موقع ملے تو وہ کیا کہے گا؟ آئن اسٹائن نے جواب دیا، میں پوچھوں گا کائنات کا آغاز کیسے ہوا؟ کیونکہ اس کے بعد ہر چیز محض حساب ہے، لیکن پھر ایک لمحے سوچنے کے بعد اس نے اپنا ذہن بدل لیا اور کہا، نہیں میں پوچھوں گا کائنات کیوں تخلیق کی گئی؟ کیونکہ اس کے بعد ہی مجھے اپنی زندگی کے معنی سمجھ میں آئیں گے''۔
یاد رہے سب سے اہم بصیرت اپنی ذات کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے، اپنی قسمت کے بارے میں فہم پیدا کرنا ہے، نظم و ضبط بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی بصیرت۔ نظم و ضبط کسی فرد یا نصب العین کا پیروکار بننے سے آتا ہے۔ عظیم ماہر تعلیم ہوریس مان نے ایک دفعہ کہا تھا ''ایسے لوگ مسرت کے بارے میں لاحاصل گفتگو کرتے ہیں جو کبھی کسی اصول کی اطاعت میں اپنی کوئی خواہش نہیں دبا سکتے، جس نے کبھی مستقبل کی بہتری کیلیے اپنے حال کو قربان نہیں کیا، یا اپنی ذات کو اجتماع کے مفاد میں پس پشت نہیں ڈالا، وہ مسرت کی بات ایسے ہی کرتا ہے جیسے اندھا رنگوں کی بات کرتا ہے۔''
جذبہ، بصیرت اور نظم و ضبط کے قلب میں پایا جانے والا ایندھن ہے، یہ آپ کو اس وقت بھی برسرعمل رکھتا ہے جب باقی کچھ خاموش ہوجاتا ہے۔ جب ایک آدمی سے اس کے ڈاکٹر نے پوچھا کہ وہ ہفتے میں کتنے گھنٹے کام کرتا ہے تواس کا جواب تھا مجھے نہیں معلوم، میں نے کبھی حساب نہیں کیا۔ اس نے پلٹ کر ڈاکٹر سے سوال کردیا آپ ایک ہفتے میں کتنے گھنٹے سانس لیتے ہیں؟ دراصل جب زندگی، کام، کھیل اور محبت ایک ہی چیز کے گرد گھومتے ہیں تو آپ جذبے میں ہوتے ہیں۔
اگر اب بھی ہم اپنے آپ کو نہیں سدھاریں گے اور اپنے اندر یہ ہی تینوں خوبیاں جو دنیا میں حکومت کرتی آرہی ہیں، پیدا نہیں کریں گے اور سارے ملکی معاملات اسی طرح سے چلاتے رہیں گے تو پھر وہ دن اب دور نہیں ہے کہ ہم سب ایک انتہائی دہشت ناک اور وحشت ناک ڈرامے کے کردار بن چکے ہونگے۔