ایک گدھے کی التجا

میں نے کئی بار شکر ادا کیا کہ میں ایک گدھا ہی ہوں انسان نہیں، ورنہ جانے کتنا ظلم سہتا بھی اور کرتا بھی۔


شہباز علی خان April 13, 2017
پہلے ملک کی خارجہ پالیسی ایک پرندے تلور کی قربانی سے چلائی جارہی تھی اور اب ہم گدھوں کو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں ’رگیدنے‘ کی کوشش کی جارہی ہے۔ فوٹو: فائل

آپ نہیں سمجھ سکتے مگر میں سمجھ سکتا ہوں کیونکہ میں وہ نہیں ہوں جو آپ ہیں۔ عرصہِ دراز سے وطن عزیز میں تشویش، بے چینی اور بے یقینی کی انتہائی کربناک صورتِ حال ہے، میں نہایت دل سوزی مگر حد درجہ صبر کے ساتھ ساری صورت حال کا ناقدانہ جائزہ لیتا رہا ہوں۔ کئی بار میری تشویش صبر کی آخری حدود کو چھونے لگی مگر میں نے ملک کے وسیع تر مفاد میں اور اِس اُمید پر کہ بالآخر دانش اور اعتدال کی قوتیں غالب آجائیں گی۔ مسلسل احتیاط کی راہ اپنائے رکھی مگر اِس کا کیا علاج کہ اقتدار کی ہوس میں ملک کے بہترین مفادات کو داؤ پر لگانے والے مہلت اور وارننگ ملنے کے باوجود تباہ کن روش سے ہٹنے پر تیار نہ ہوئے اور انہوں نے اپنی اصلاح اور اصلاحات کی درستگی کے لئے اقدامات کرنے کے بجائے ملک کو انتہائی سنگین بحران سے دو چار کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے۔

دھوبی کے پاس جو کتا 'موتی' تھا، اُس نے کئی بار میرے ضمیر کو سلانے کی کوشش کی کہ میں اتنی محنت کیوں کرتا ہوں، ایک دو کپڑوں کے جوڑے جان کر گرا دیا کروں اور وہ پیچھے سے اُٹھا کر بیچ دیا کرے گا اور پیسے آدھے آدھے کرلیا کریں گے، مگر میرے ضمیر نے گوارہ نہیں کیا کہ اپنے مالک کے ساتھ نمک حرامی کروں۔

ایک عام سے گھرانے میں پیدا ہوا، مختلف انسانوں سے میرا واسطہ پڑا کسی نے لیاری ایکسریس وے پر دوڑیں لگوائیں، کبھی ریڑھی پر جوتا گیا، اور سوزوکی پک اپ سے زیادہ وزن میں نے اکیلے اٹھایا ہے، پھر دھوبی کے ہاں محنت مزدوری کی، واشنگ مشین کا دور آیا تو اُس نے مجھے نکال باہر کیا، بلکہ ڈنڈے سوٹے مار کر بھگادیا کہ مفت کا خرچہ ہے۔ وہاں سے نکلا تو قصابوں کے ہتھے چڑھتے چڑھتے بچ گیا وہ تو بھلا ہو حکومتِ وقت کا، جسے یہ احساس اُس وقت ہوا جب میرے ہی کسی بھائی کا گوشت اُس کے حلق سے اُترا اور اُس نے انسان کے اندر احساس پیدا کیا اور یوں ہمارے قتلِ عام کا سلسلہ کچھ حد تک کم ہوا۔

انسان واقعی احسان فراموش اور جلد باز ہے، میں نے کئی بار شکر ادا کیا کہ میں ایک گدھا ہی ہوں انسان نہیں، ورنہ جانے کتنا ظلم سہتا بھی اور کرتا بھی، مگر آج تو حد ہی ہوگئی ہے۔ سنا ہے کہ چین میں گدھے سپلائی کرنے کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے، جس کے تحت ہمیں چین بھیجا نہیں بلکہ 'بیچا' جائے گا۔ یعنی کہ کمال ہی ہوگیا ہے، پہلے ملک کی خارجہ پالیسی ایک پرندے تلور کی قربانی سے چلائی جارہی تھی اور اب ہم گدھوں کو بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں 'رگڑ' دیا ہے۔ چین میں ہماری کھالوں کا کاروبار بہت منافع بخش سمجھا جاتا ہے اور اب حکومت بھی دو سال پہلے ہماری کھالوں پر لگی بیرون ملک درآمد کی پابندی اُٹھالے گی، کیونکہ یہی ملکی مفاد میں ہے اور ہماری حکومت چین جیسے ملک کو دے بھی کیا سکتی صرف ہماری کھالیں!

کوئی بتارہا تھا کہ ہماری کھال سے بیوٹی کریمز بھی بنتی ہے، سچ بتاوں تو یہ سُن کر بہت خوشی ہوئی اور دل میں بہت سی اُمنگیں جاگیں کہ جانے کتنے اعلیٰ عہدیداران کی بیگمات اور ماڈلز کے حُسن کو چار چاند لگاؤں گا۔ خیر میں اِس صورتحال میں ملک کے دانشوروں سے، رائے عامہ کے رہنماؤں سے اور بطور گدھا ہر صاحبِ نظر سے اپیل کروں گا کہ خدارا، ہمارا یوں قتلِ عام نہ کرواؤ، روزِ حشر کو سوال و جواب تم انسانوں سے ہی ہونا ہے، ہم جانوروں سے نہیں۔ اِس طرح کے جگاڑی منصوبہ جات کی جگہ کوئی ڈھنگ کا منصوبہ شروع کرو، جس سے ذاتی فائدے سے زیادہ ملکی فائدہ بھی ہو۔

پائیدار، مستحکم اور مضبوط معاشی تعلقات گدھوں کو بنیاد بنا کر قائم نہیں کئے جاسکتے۔ کھال وہاں بیچو گے اور گوشت ہم وطنوں کو کِھلا دو گے۔ ایک کام کرو کہ ایسے تمام افسران وہاں کھال سمیت بھجوادو، جو ہم سے بھی زیادہ کوڑھ مغز، ہڈ حرام اور کام چور ہیں، ہمارے نہ بینک اکاؤنٹس ہیں، نہ فوجداری کیس اور نہ پانامہ کیس۔

خدا سب کو صحیح عمل کی توفیق دے، اہل پاکستان کو بُرے وقت سے محفوظ رکھے اور رہنمائی بھی فرمائے۔

پاکستان پائندہ باد
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔



اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔