دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
سب جانتے ہیں کہ امریکا ہے ہی مہاجرین اور تارکین وطن کا ملک ‘ فرق صرف یہ ہے کہ کون کتنا پرانا ہے۔
ISLAMABAD:
جس وقت آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے میں انشاء اللہ کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں ہوں گا۔ 1984ء کے پہلے سفر کے بعد یہ میرا کینیڈا کا پانچواں دورہ ہو گا مگر اس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ طوالت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آئے گا اور میں وینکوور کے اضافے کے ساتھ گزشتہ دورے کے دیکھے ہوئے تمام شہروں سے ایک بار پھر گذروں گا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ تقریباً 33برس قبل برادرم اشفاق حسین کی دعوت پر پاکستان سے جمیل الدین عالی' پروین شاکر اور میں اور بھارت سے علی سردار جعفری سات ہفتوں کے ایک طویل مشاعراتی دورے پر ان کے مہمان ہوئے تھے، قضائے الٰہی سے آج وہ تینوں ساتھی اپنا اپنا سفر مکمل کر کے اس دنیا سے پردہ کر چکے ہیں یہ اور بات ہے کہ ان کی یادیں آج بھی مجھ سمیت بہت سے دلوں میں روشن اور تابندہ ہیں۔
اس سفر کا مفصل حال میرے سفر نامے ''شہر در شہر'' میں محفوظ ہے، کینیڈا کے جن شہروں کی سیاحت کا موقع ملا ان میں ٹورانٹو' آٹوا' مونٹریال' کیل گری 'ولی پیگ اور ایڈمنٹسن شامل تھے جب کہ امریکا کے تین شہر واشنگٹن ' لاس اینجلس اور میامی بھی راستے میں آئے۔
اس بار یہ دورہ اسی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے حوالے سے ہے جو غریب اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے مسلسل اور مثالی کام کر رہا ہے جس کے فنڈ ریزنگ بنیاد پروگراموں میں میں اور انور مسعود پہلے بھی کئی ممالک کا سفر کر چکے ہیں، بیرون وطن مقیم پاکستانی اپنے چھوڑے ہوئے وطن اور اس کی ترقی میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں اس کا حوصلہ افزاء اظہار ہمیں بھی سفر کی صعوبتوں کے باوجود اس کارخیر میں حصہ ڈالنے کا حوصلہ دیتا رہتا ہے اور یوں شاعری کا وہ مقصد بھی ایک حقیقت بن جاتا ہے جس کا اظہار مولانا حالی نے کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ
اے شعر دلفریب نہ ہو تو تو غم نہیں
پر حیف تجھ پہ ہے جو نہ ہو دل گداز تو
سو ان محفلوں میں احباب دل کی باتیں سنتے اور دل کھول کر اہل وطن سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب جمیل الدین عالی مرحوم نے مجھے اور پروین شاکر کو اس دورے کی دعوت دی تو وہ سردیوں کا زمانہ تھا اور ہم دونوں نے اس سے پہلے نقطۂ انجماد سے نیچے کے درجہ ٔ حرارت کا صرف ذکر ہی سن رکھا تھا اور لطف کی بات یہ ہے کہ دورے میں شامل کم از کم تین شہروں(دلی پیگ' کیلگری اور ایڈمنٹسن) کے نام سرے سے ہمارے علم میں ہی نہیں تھے اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں شہروں میں ایسے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی جو کسی نہ کسی وقت میں ایم اے او کالج میں میرے شاگرد رہ چکے تھے واقعی یہ دنیا اتنی بڑی ہے نہیں جتنی کہ نظر آتی ہے۔
1984ء میں ابھی کینیڈا میں ہماری کمیونٹی تعداد میں کچھ بہت زیادہ اور بڑی نہیں تھی نورانٹو میں مقیم پاکستانیوں میں واحد مانوس نام ہمارے میزبان اشفاق حسین ہی کا تھا جو بفضل خدا اب بھی ادب کے حوالے سے وہاں مقیم پاکستانیوں کا سب سے قدیم اور اہم حوالہ ہیں، یہ اور بات ہے کہ اب وہاں مقیم احباب کی فہرست خاصی طویل ہو چکی ہے فوری طور پر ذہن میں آنے والے نام کچھ اس طرح سے ہیں، ڈاکٹر سید تقی عابدی ' ڈاکٹر بیدار بخت' ذکیہ غزل' خواجہ صباح الدین' نسیم سید' عرفان ستار' سعید میو' سید مراد علی' فصیح الرحمن' طاہر اسلم گورا' اور عزیزی نعمان عابد۔
اطلاعات کے مطابق 12 اپریل کی دوپہر قونصل جنرل پاکستان نے اپنے گھر پر ایک ظہرانے کا اہتمام کر رکھا تھا امید تھی کہ وہاں بہت سے ایسے دوستوں سے بھی ملاقات ہو جائے گی جن کے نام اور چہرے اس وقت آپس میں گڈ مڈ ہو رہے ہیں۔ پروین شاکر مرحومہ کا کیا بے مثال شعر ہے۔
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
وینکوور کا ذکر بہت سنا ہے وہاں کی ایشائی آبادی میں سکھ برادری کی کثرت ہے جو باجماعت برادرم انور مسعود کے پنکھے یعنی FANہیں اور یہ بھی شنید ہے کہ یہ کینیڈا کا سب سے خوبصورت علاقہ ہے۔ اس وقت کینیڈا اور آسٹریلیا ہی دو ایسے ملک ہیں جہاں امیگریشن نسبتاً آسان ہے اور جہاں روزگار کے وسائل وافر ہونے کے ساتھ ساتھ باعزت بھی ہیں اور جہاں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف کسی طرح کا تعصب نہ ہونے کے برابر ہے۔
البتہ کینیڈا کے ہمسائے یعنی امریکا میں صورت حال ٹرمپ صاحب کی آمد کے بعد بہت مختلف ہو گئی ہے سب جانتے ہیں کہ امریکا ہے ہی مہاجرین اور تارکین وطن کا ملک ' فرق صرف یہ ہے کہ کون کتنا پرانا ہے، اب اگر ٹرمپ صاحب کے اس ''سینیارٹی'' اور سفید رنگت کے تصور کو معیار مان لیاجائے تو امریکا کے اصل اور قدیمی ریڈانڈین باشندوں کو کس خانے میں رکھا جائے گا؟ اس ضمن میں ایک بہت دلچسپ کارٹون گزشتہ دنوں نظر سے گذرا جس میں ایک ریڈ انڈین، ٹرمپ کو مخاطب کر کے کہہ رہا تھا۔
''یہ تم بہت اچھا کر رہے ہو کہ سب مہاجروں اورغیر ملکی لوگوں کو ان کے اپنے اپنے وطن میںواپس جانے کا حکم دے رہے ہو۔ یہ تو بتاؤ تم کب واپس جا رہے ہو؟''
ہمارا یہ دورہ دو حصوںمیں ہو گا یعنی11سے 25اپریل تک، ہم لوگ کینیڈا کے سات شہروں میں جائیں گے اور اس کے بعد 26 اپریل سے دو مئی تک انگلستان میں قیام ہو گا جہاں مقامی اخبار Light کے ایڈیٹر ندیم مرزا اور ان کے احباب نے لندن' مانچسٹر اور برمنگھم میں تین پروگراموں کا اہتمام کر رکھا ہے وہاں سے ایک شام کے لیے نیو کاسل میں برادرم طارق احمد کی میزبانی کا لطف اٹھایا جائے گا اور تین مئی کو واپس لاہورپہنچیں گے۔
ارادہ یہی ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس سفر کے احوال سے بھی اس کالم کے ذریعے آپ کو ساتھ ساتھ رکھا جائے، امید ہے کہ پرانی یادوں اور نئے تجربات و مشاہدات کا یہ پیکیج دلچسپ بھی ہو گا اور معلومات افزاء بھی۔ اگرچہ اب نہ تو وہاں مقیم احباب اس طرح کے غریب الوطن ہیں جیسے پرانے لوگ ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ہم بوجوہ اس تعریف پر پورا اترتے ہیں مگر اس موقع پر حفیظ جون پوری کے مشہور عالم مطلع کی ایک بہت خوب صورت تحریف ضرور یاد آ رہی ہے جس میں صرف دو لفظوں کی تبدیلی سے شعر کچھ کا کچھ ہو گیا ہے، اصل شعر اور اس کی تحریف دونوں کچھ اس طرح سے ہیں۔
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اب اس کا یہ روپ بھی دیکھئے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے