نئی سیاسی جماعت کی ضرورت

ایک ایسی جماعت ہی ملک کو مختلف نوعیت کے بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔


Muqtida Mansoor April 13, 2017
[email protected]

گزشتہ ہفتے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں یوم شہدائے صحافت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ڈیلیورکرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ملک کے اندر سوچ، رویوں اور طرز عمل میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے، لیکن یہ عمل آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ہونا چاہیے۔ انھوں نے صحافیوں سمیت متوشش شہریوں کو متنبہ کیا کہ اگر اب جمہوری عمل کو نقصان پہنچا تو یہ آمریت سے بھی بدتر ہوگا۔

اس قسم کے خیالات کا اظہار اہم سیاسی دانشوروں کے علاوہ متوشش شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی گزشتہ کئی برسوں سے کرتی چلی آرہی ہے۔ ابھی چند روز پہلے ایک سندھی چینل کے لیے جب ہم نے معروف سماجی دانشور ڈاکٹر سید جعفر احمد کا انٹرویو لیا، تو ان کا بھی یہ کہنا تھاکہ پاکستان میں جمہوری عمل کے کمزور ہونے کے کئی اسباب ہیں۔ جن میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا نہ ہونا،اسٹیٹس کو پر مسلسل اصرار کرنا، اپنی استعداد میں اضافہ نہ کرنا اور سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ نہ کرنا جیسے عوامل واضح اسباب ہیں۔ جس کی وجہ سے ریاستی پالیسی سازی میں ان کا کردارکم سے کم ہوتا چلاگیا۔ اگر آج ریاستی منصوبہ سازی پرغیرسیاسی قوتیں حاوی اور مسلط ہیں، تو اس میں سیاسی جماعتوں کی اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا زیادہ کردار ہے۔

الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ مختلف جماعتوں میں سے صرف ان جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی کوشش کریں، جو چاروں صوبوں سمیت آزادکشمیر اورگلگت بلتستان میں اپنا وجود رکھتی ہیں، تو یہ کل تین جماعتیں ہیں۔ جنھیں قومی سطح کی(Mainstream) جماعتیںکہاجاسکتا ہے۔ یعنی مسلم لیگ(ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی۔ کبھی ان جماعتوں کے قائدین اور منشور ان کی شناخت ہوا کرتے تھے، مگر آج ان کے منشور، طرز عمل اور تنظیمی بنت میں کوئی فرق باقی نہیں بچاہے۔

تینوں جماعتوں پر مراعات یافتہ طبقات (جن میں دیہی جاگیردار اور بڑے شہری کاروباری طبقات) اور Electables حاوی ہیں ،جوسیاسی مقاصد کے لیے عوام کا نام تو ضرور استعمال کرتے ہیں، لیکن عوام کو دینے کے لیے ان کی ٹوکریوں میں کچھ نہیں ہے،کیونکہ ان کی اولین ترجیح اپنے طبقاتی مفادات کا حصول ہے۔ جہاں تک انتخابی منشور کا تعلق ہے، تو ہمارے یہاں ان پر عمل درآمد کی روایت نہایت کمزورہے، اگر کوئی جماعت بمشکل تمام اپنے انتخابی منشور پر10سے15فیصد عمل کرلے تو بڑی بات تصورکی جاتی ہے۔

پاکستان میں حسین شہید سہروردی کی قیادت میں قائم ہونے والی عوامی لیگ ملکی تاریخ کی پہلی ملک گیر عوامی مقبولیت رکھنے والی بڑی جماعت تھی۔ جس کی قیادت کا تعلق سابقہ مشرقی پاکستان سے ہونے کے باعث اسٹبلشمنٹ کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوگئی۔اس کے بطن سے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) برآمد ہوئی، جس میں دونوں حصوں کی کئی چھوٹی بڑی جماعتوں کے ضم ہوجانے سے ایک ملک گیر عوامی جماعت کے طورپر سامنے آئی۔

اس وقت کے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر فروری 1959میں وقت مقررہ پر انتخابات ہوجاتے، توNAP ابھر کر سامنے نہ آتی۔ مگر اکتوبر 1958کے مارشل لا نے سیاسی عمل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جس کے بعد سیاسی جماعتوں کے لیے خود کو سنبھالنا مشکل ہوتا چلا گیا۔NAP بھی ایوبی آمریت کے دور میں دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔

ایوب خان کے آخری دور میں دو جماعتیں خالصتاً عوامی مسائل اور حقوق کی بنیاد پر متحرک ہوئیں۔ان میں سابقہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں عوامی لیگ نے بنگلہ عوام کے ساتھ مغربی پاکستان کی چھوٹی قومیتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، مگر 1971کی دلخراش صورتحال کے باعث مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور عوامی لیگ کو پورے ملک پر حکمرانی کا موقع نہیں مل سکا۔

دوسری جماعت 30 نومبر1967کو گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھرقائم ہونے والی پاکستان پیپلز پارٹی تھی، جس نے عوامی مسائل اور حقوق کو انتہائی موثر انداز میں پیش کیا اور مقبولیت حاصل کی۔ پیپلز پارٹی کے 21 بانی اراکین میں سے 17کا تعلق اربن مڈل کلاس سے تھا۔اس کا آئین، منشور اور سیاسی حکمت عملی اربن نوجوانوں کے لیے کشش کا باعث بنی۔ یہی سبب ہے کہ اس جماعت کو سب سے زیادہ مقبولیت وسطی پنجاب میں حاصل ہوئی۔

لیکن 1970کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور 20دسمبر1971کو اقتدار میں آنے کے بعد اس کے طرز عمل میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں۔ 1977کے آنے تک اس کے بانی اراکین میں سے صرف چند اس کی جھولی میں رہ گئے، جب کہ وہ روایتی وڈیرے اور جاگیردار جنھیں پیپلزپارٹی نے 1970کے عام انتخابات میں عبرت ناک شکست دی تھی، 1977کے انتخابات میں اس کے امیدوار بن گئے۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی، جو محض 7برسوں کے دوران رونما ہوئی تھی۔ پہلے دور اقتدارہی میں محنت کشوں پر فائرنگ کرکے اپنی مزدور دوستی کا پردہ اپنے ہاتھوں چاک کردیا، لیکن اس کے باوجود اس جماعت کی ملک میں بائیں سے مرکزکی جانب رجحان والی(Left to Centre) جماعت کے طور پر شناخت قائم رہی۔

پیپلز پارٹی پر جب Status quoکی قوتیں حاوی آنا شروع ہوئیں ، تو اربن مڈل کلاس بالخصوص وسطی پنجاب میں ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت محسوس کی گئی، جو اس طبقے کی ضروریات، احساسات اور تصورات کی ترجمانی کرسکے۔ یوں پنجاب سے مسلم لیگ (ن) منظرعام پرنمودار ہوئی۔ جس نے ضیا کی آمریت کے بطن سے جنم لیا تھا۔اس جماعت نے پنجاب کی اربن مڈل کلاس کی نمایندگی کا حق خاصی حد تک اداکیا، مگر مخصوص طبقاتی مفادات اور اندرونی فکری تضادات کے باعث عام آدمی کے مسائل کا صحیح طورپر ادراک کرنے اور انھیں احسن طریقہ سے حل کرنے میں ناکام رہی۔ کسی مناسب متبادل کی عدم موجود گی کے باعث ملکی سیاست بالخصوص پنجاب کے سیاسی منظرنامے پر آج بھی غالب ہے۔

تحریک انصاف سابق کرکٹر عمران خان نے 1996میں قائم کی۔ 1998میں معراج محمدخان مرحوم کی جماعت قومی محاذ آزادی کے انضمام کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ یہ جماعت Centre to Left نوعیت کی جماعت کے طورپرتیسرا متبادل ثابت ہوگی۔مگر 2003 میں معراج محمد خان مرحوم کی علیحدگی اور 2011 میں بڑے پیمانے پرElectables کی شمولیت نے تیسری متبادل جماعت بننے کے تصورکو جھٹکا ضرور لگایا، لیکن اس کے باوجود2013کے عام انتخابات میں پنجاب کی دوسری بڑی جماعت اور پختونخوا میں سب سے بڑی جماعت کے طورپر ابھر کرسامنے آئی۔جب کہ کراچی میں چھ لاکھ سے زائد ووٹ لیے۔ ساتھ ہی قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں حاصل کرکے سندھ میںاپنی موجودگی کو تسلیم کرایا، مگر اس جماعت کی قیادت کی حکمت عملیوں اور طرز عمل کی کمزوریوں نے عام آدمی کے لیے اس میں موجود کشش کو ختم کردیا۔ آج یہ جماعت مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی سے مختلف جماعت کے طورپر اپنا تشخص قائم اور برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

درج بالا تینوں جماعتیں اپنا حلقہ انتخاب ضرور رکھتی ہیں، مگر عوام کے حقیقی مسائل کے حل سے عدم دلچسپی ان کی تیزرفتار عدم مقبولیت کا سبب بن رہی ہے۔ پیپلزپارٹی دیہی سندھ تک محدود ہوچکی ہے اور اس کے دیگر صوبوں میں اپنی قبولیت بحال کرنے کی کوششیں بارآور ہوتی نظر نہیں آرہیں۔ تحریک انصاف اس سیاسی عزم سے عاری ہے، جو ملک و معاشرے میں بہتر تبدیلی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

مسلم لیگ(ن) وسطی پنجاب میں برادریوں کے ووٹوں کی بنیاد پر صوبے اور وفاق میں اقتدار میں ضرور موجود ہے۔ یہ پلوں، سڑکوں اور میٹرو بسوں جیسے منصوبوں کے ذریعے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش ضرور کررہی ہے۔ مگر یہ وہ منصوبے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر کک بیکس اور کمیشن ملتا ہے اور یہ ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن اس میں عام آدمی کے مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستان میںقومی سطح پر ایک ایسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے، جوشہری اور دیہی عوام کے مسائل ومعاملات کا واضح ادراک رکھتی ہو۔ اقتدارواختیار کی نچلی ترین سطح تک منتقلی کو بہترکارکردگی کا جزو لاینفک سمجھتی ہو۔ جسے عالمی سیاسی منظرنامے کا واضح ادراک ہو اورعلاقائی مسائل کو حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ جو اپنے منشور پر عمل کرنے کے لیے خود کو assert کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو۔

ایک ایسی جماعت ہی ملک کو مختلف نوعیت کے بحرانوں سے نکال سکتی ہے۔ اگر عام انتخابات سے قبل ایسی جماعت وجود میں نہیں آتی یا قائم کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی،تو ان خدشات کے عمل شکل اختیارکرنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جن کااظہار سینیٹ چیرمین نے اپنے خطاب میں کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں