ہم سب ایک ہیں
ایک ہی مطالبے کے لیے ایک آواز ہوکر احتجاج کرنا اس بات کی علامت ہے کہعوام اپنے حق کیلیے باشعور ہوچکے ہیں
روح تک کو جما دینے والی سخت سردی، دل میں اٹھتے درد و غصے سے کھولتے جذبات، لبوں پر احتجاج، آنکھوں میں اپنے پیاروں کے دور چلے جانے کے غم میں آنسو جنھیں سخت سردی بھی نہ جماسکی، ارادہ پکا منزل کا کچھ پتہ نہیں، راستہ لہو لہو، ایک ہی آواز، ایک ہی نعرہ، فضا ان نعروں کی بازگشت سے سرد ہواؤں سے بھی ٹکراگئی، یہ قافلہ ان چھیاسی جانوں کے ضیاع کے احتجاج میں بڑھتا ہی چلا گیا جس نے کوئٹہ سے کراچی، سندھ اور پنجاب، پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ''گلہ اپنوں سے ہے' مداوا کون کرے''۔
بلوچستان کے حالات خراب ضرور تھے جب پرویز مشرف نے اقتدار کی کرسی کا مزہ چکھا تھا لیکن نواب اکبر بگٹی کی شہادت نے حالات کو جیسے قابو سے باہر کردیا اور ہر روز ایک نیا ہنگامہ، ایک نیا شور، عوام تو بے چاری بے حال تھی ہی لیکن حکومت نے بھی ان کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا سے کوئی ایسے حالات میں بلوچستان جاکر نوکری کرنے پر راضی نہیں، وسیع میدان تھا خالی اور دوسرا کوئی بھی نہ تھا۔ پھر بھی اقربا پروری اور رشوت ستانی نے ساتھ نہ چھوڑا۔ کم ازکم اپنے اردگرد کے حالات سے ہی کچھ سبق سیکھا ہوتا، دل میں کہیں نرم گوشہ ابھرا ہوتا، لیکن نہیں۔
باصلاحیت اور اہل افراد کو ایک کونے میں ڈال کر اپنوں کے دامن بھرے جانے لگے، تو اہل بلوچستان پھر سراپا احتجاج بن گئے اور بات اتنی بڑھی کہ ٹی وی اسکرینوں پر پول کھل گیا۔ خدارا! یہ کیسا اندھا قانون ہے جس نے وطن کے باسیوں کا جینا دوبھر کر دیا، عوام سے بلوں کی صورت میں سارے ٹیکسز وصول کرنے کے بعد بھی نہ صفائی نہ ستھرائی اور نہ ہی دوسری ضروریات زندگی کی آسانی ، سب کچھ جیسے مقفل ہے، اوپر سے دہشت گردی نے بھی گردن پر چھری دھر دی، کیا کریں، کدھر جائیں، کس سے فریاد کی جائے؟ کوئی ہے سننے والا، آئے دن کے بم دھماکوں میں دس، بارہ، پندرہ، بیس، چالیس بے گناہ موت کی وادیوں میں گم ہوتے گئے، کبھی بسوں سے اتار کر شناختی پریڈ کے بعد، کبھی بسوں کے اڈے پر، کبھی قافلوں پر، پوری سازش تھی بھائی کو بھائی سے لڑانے کی، اگر بھائی نہیں سمجھتے تو ایک انسان کو دوسرے انسان کے خلاف نفرتوں کے الاؤ میں جھونکنے کی، لیکن اب وقت گزر چکا ہے، ان پرانی سازشوں کا، سب کے کان کھلے ہیں، سب سوچتے ہیں، دیکھتے ہیں، عقل و شعور رکھتے ہیں۔
میڈیا نے بھی ان روایتی نفرتوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، پھر یہ سب کیا ہے، کون ہے جو دشمن ہے، جو چھپ کر وار کرتا ہے۔زندگی کبھی اتنی دشوار نہ رہی تھی جتنی اس دور میں ہوگئی ہے، مہنگائی، کرپشن، جہالت، اقربا پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال اور دہشت گردی کی لپیٹ میں پاکستانی عوام کا جیسے سانس لینا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ کون کرے گا ان کے درد کا مداوا، کون ان کے پیاروں کو واپس لاسکتا ہے؟ جو ایک بار اس دنیا سے چلا گیا پھر وہ لوٹ کر نہیں آسکتا، لیکن جو آج ہمارے درمیان زندہ سلامت، سانس لے رہے ہیں ان کی زندگیوں کی ضمانت کون دے گا؟ ہر آنکھ اشکبار ہے، پوری قوم ایک ہی طرح سے سوچ رہی ہے، اسے جینے کا حق ہے، آزادی اور عزت کے ساتھ سر اٹھا کر اپنے ملک میں رہنے کا پورا حق ہے اور یہ حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہماری اپنی صفوں میں بارود سلگانے والے اپنے نہیں ہیں یہ تو کسی اور کا مال کسی اور کے لیبل کے ساتھ بیچنے والے ہیں جو اس قیمتی سرزمین سے انسانی فصل کا صفایا کرکے اس پر راج کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود اس میں گرجاتا ہے، عوامی طاقت معمولی نہیں ہوتی ہے، بڑے بڑے بادشاہوں کے تخت اکھاڑ دیتی ہے۔ آسٹریا کا ماضی اپنے بڑے جاہ و جلال اور طمطراق والے بادشاہوں کی خواری سے آج بھی ہم جیسے طالب علموں کے لیے بہت بڑی مثال ہے، تجربے کرنے سے اگر خود سیکھنے کا شوق ہے تو یوں ہی سہی۔
ہم امریکی قوم کی بڑی مثالیں دیتے ہیں لیکن جب قوم اپنے اردگرد اپنے حقوق کا استحصال ہوتا دیکھتی ہے تو چپ نہیں رہتی، چاہے وہ امریکی قوم ہو یا چینی، بھارت میں ایک طالبہ کے ریپ اور مرنے پر جوش و جذبات ہو یا ملالہ یوسفزئی پر بزدلانہ حملے کی کارروائی ہو، عوام باشعور ہوچکی ہے۔ زیادہ دور کی بات نہیں ابھی نومبر 2011 کی بات ہے، جب آزادی اظہار کا حق ختم کرتے ہوئے امریکا کے مختلف شہروں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عوام اٹھ کھڑی ہوئی، نیویارک، آک لینڈ، ڈنیور سمیت امریکا کے مختلف شہروں میں عوام سراپا احتجاج بن گئے اور نیویارک میں پولیس نے مظاہرین پر دھاوا بول دیا، دو سو کے قریب مظاہرین کو حراست میں لے لیا اور وال اسٹریٹ کے قریب پارک کو بھی خالی کرا لیا، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرین کے کیمپس پولیس نے اکھاڑ لیے اس کارروائی پر مظاہرین نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کیونکہ امریکا ایک آزاد ملک ہے جہاں سب کو آزادی سے بولنے اور زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، جہاں جس کا دل چاہے کسی بھی مذہب پر تنقید کرسکتا ہے لیکن عوام کے اس رجحان پر پولیس نے ہمارے دیسی پولیس بھائیوں کی طرح کا سلوک ان پڑھے لکھے فرنگی بھائیوں سے روا رکھا، یہ آگ پھر کب بھڑکے گی، کون جانے۔
لیکن دنیا بھر کی حکومتیں یہ ضرور جانتی ہیں کہ عوام کا متحد ہونا ایک ہی مطالبے کے لیے ایک آواز ہوکر احتجاج کرنا اس بات کی علامت ہے کہ عوام اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے باشعور ہوچکے ہیں ۔ وہ تیار ہیں کہ انہیں ان کے حقوق سونپے جائیں یا ان کے حقوق میں کسی تیسری طاقت کی مداخلت نہ ہو، اور پھر خون تو خون ہوتا ہے اس کی اپنی زبان ہوتی ہے، یہ خاموش نہیں رہتا، کئی مراحل پر ہمیں اپنی حکومت مجبور نظر آتی ہے، اس کے ہاتھ بندھے محسوس ہوتے ہیں لیکن کسی بھی حکومت کا یہ پہلا فرض ہے کہ وہ اپنی عوام کے حقوق کا خیال رکھے اس پر لازم ہے کہ وہ ان حقوق کی پاسداری کے لیے ہر طرح کی کوششیں کرے، اگر امریکا کی حکومت ریمنڈ ڈیوس جیسے انسان کو جو چار زندگیوں کو ببانگ دہل سڑک پر موت کی آغوش میں سلاسکتا ہے، بچانے کے لیے ہر غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کرسکتی ہے تو پاکستانی حکومت بلوچستان کی لاکھوں کی تعداد میں عوام کی زندگیوں کی حفاظت کیوں نہیں کرسکتی؟ یہ عوام کا حق اور حکومت کا فرض ہے۔ آج مظلوم عوام سراپا احتجاج ہے یہ احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ عوام نے اب بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا وہ پڑھے لکھے قوم کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں، نہ جلاؤ گھیرائو، نہ آگ، نہ گولہ، صرف احتجاج۔