غیر معمولی جرأت کا نیا مظاہرہ
مقبوضہ کشمیر کے ان بہادرکرکٹروں نے سوچ سمجھ کراپنی ٹیم کا نام ’’بابا دریاء الدین کرکٹ ٹیم‘‘ رکھا ہے
گاندربَل، مقبوضہ کشمیر کا نسبتاً نیا ضلع ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں پہلے دس اضلاع ہُوا کرتے تھے۔ بھارتی حکمرانوں کے اشارے پر مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی حکمرانوں اور بیوروکریسی نے اب وسطی کشمیر میں ایک نیا ضلع''گاندربَل''کے نام سے تخلیق کیاہے۔ مقصد یہ ہے کہ آزادی کے متوالے کشمیریوں پر مزید گرفت مضبوط کی جاسکے۔ یہ مقصد مگر پورا ہوتا نظر نہیں آ رہاکہ دہلی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے،آزادی کی خاطر، سر بکف کھڑے کشمیری نوجوان اپنے اہداف اور مقاصد سے سرِ مُوانحراف کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
مودی حکومت اور محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی ریاستی سرکار نے یکمشت ہو کر آزادی کے متوالوں کی ہمتیں اور عزائم توڑنے کی ایکبار پھر بھرپور کوششیں تو کی ہیں لیکن ایکبار پھریہ دونوں متحدہ اور سفاک قوتیں اپنی اجتماعی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے ہونٹوں پر پاکستان کا نام نہ آسکے لیکن یہ کوشش بھی ناکامی پر منتج ہُوئی ہے۔ کشمیری نوجوان،مرد،عورتیں اور بچے اپنی جانوں اور مالوں کی پرواہ کیے بغیر پاکستان زندہ باد کے نعرے مارتے اور بھارتی قابض افواج کے سامنے پاکستانی پرچم تو لہراتے ہی تھے، اب وہ زیادہ جرأتوں اور ہمتوں سے لَیس ہو کر بھارت سرکار اور محبوبہ مفتی کی کٹھ پتلی حکومت کے سامنے آ کھڑے ہُوئے ہیں۔
اِس کا تازہ مظاہرہ وسطی کشمیر کے نئے بننے والے ضلعے، گاندربَل، میں سامنے آیا ہے۔ اس شاندار اور جرأتوں بھرے مظاہرے نے دہلی سرکار کے پیٹ میں مروڑ ڈال دیے ہیں۔مذکورہ ضلع کی کرکٹ ٹیم ، جو ''بابا دریاء الدین کرکٹ ٹیم'' کے نام سے مشہور ہے، نے چند دن پہلے کرکٹ ٹورنامنٹ کیا تو اس ٹیم کے تمام کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم کی سبز یونیفارم پہن کر میدان میں نکلے۔ یہی نہیں بلکہ میچ شروع ہونے سے پہلے پاکستان کا قومی ترانہ بجایا گیا جسے دونوں مقابل ٹیموں نے خاموشی، احترام اور سر جھکا کر سُنا۔ اس منظر کی بازگشت سارے بھارت میں دیکھی اور سنائی دی گئی ہے۔
سوشل میڈیا کے توسط سے یہ مناظر وائرل ہو کر پورے ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں دیکھے گئے ہیں۔ یوں ایک ہی جست میں مقبوضہ کشمیر کے جرأت آزما اور بہادر نوجوانوں نے بھارتی استبداد اور مظالم کی رتی بھر پروا نہ کرتے ہُوئے اپنے عزائم اور مقاصدپوری دنیا پر آشکار کر دیے ہیں۔ شکر ہے کہ بھارت نے ابھی تک یہ بیان نہیں داغا ہے کہ سبز وردی پوش یہ کھلاڑی اور پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے اور سننے والے یہ لوگ پاکستان نے بھجوائے تھے!!
مقبوضہ کشمیر کے ان بہادرکرکٹروں نے سوچ سمجھ کراپنی ٹیم کا نام ''بابا دریاء الدین کرکٹ ٹیم'' رکھا ہے۔ دراصل بابا دریاء الدین ضلع گاندربَل کے ایک مشہور صوفی بزرگ رہے ہیں۔ اُن کا مزار شریف لاکھوں عقیدتمندوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ بابا دریاء الدین صاحب خود بھی ایک مجاہد صفت دینی شخصیت تھے جنہوں نے تصوف، محبت اور جہاد کا علَم بیک وقت بلند کیے رکھا۔اپنے اس بے مثل کردار کی وجہ سے وہ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں محبوبیت اور جاذبیت کے مقام پر فائز ہیں۔
بابا دریا ء الدین کرکٹ ٹیم کی طرف سے مذکورہ بالا جرأتمندانہ اقدام اس لیے بھی غیر معمولی قرار دیا گیا ہے کہ جس روز اس ٹیم نے یہ کام دکھایا، اُسی روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں تھے تاکہ ایک طویل پہاڑی سُرنگ (چنانی،نشری ٹنل) کا افتتاح کر سکیں۔ اور اُسی ہفتے گاندربَل میں ضمنی انتخاب بھی ہو رہا تھا جسے مودی کی پارٹی، بی جے پی، ہر صورت جیتنے کی کوشش کر رہی تھی (اِس ضمنی انتخاب میں بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوںایک درجن کے قریب کشمیری شہید ہُوئے ہیں)سخت سیکیورٹی اور زبردست فوجی انتظامات کے باوجود کشمیری کرکٹروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر یہ اقدام کر ڈالا۔ یہ قدم اٹھاتے ہُوئے سب کرکٹر بخوبی جانتے تھے کہ اس کے کیا کیا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔
اُنہوں نے مگر تمام ممکنہ نتائج کے علیہ ما علیہ کو ہوا میں اُڑا دیا۔نئے مستند اعدادوشمار کے مطابق،یکم جنوری1999ء سے لے کر31 مارچ2017ء تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجیوں کے ہاتھوں 95ہزارکشمیری شہید ہُوئے ہیں، 8ہزار کشمیری بھارتی جیلوںمیںجاںبحق ہو گئے، ڈیڑھ لاکھ سویلین کشمیری قید کیے گئے، 23ہزارکشمیری خواتین بیوہ ہُوئی ہیں، ایک لاکھ کشمیری بچے یتیم ہُوئے،11ہزار کشمیری خواتین سے گینگ ریپ کیا گیااور ایک لاکھ سے زائد گھروں و اسکولوں کو بھارتی قابض فوج نے آگ لگا کر تباہ کر دیا ہے۔ یہ سب حقائق گاندربَل کے کلمول کرکٹ کلب کی ''بابا دریاء الدین کرکٹ ٹیم '' کے ہر کشمیری کھلاڑی کو معلوم تھے۔ اِس پس منظر میں وہ بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی سبز وردی پہننے اور کُھلے میدان میں پاکستان کا قومی ترانہ پڑھنے کے کیا کیا نتائج نکل سکتے ہیں۔
اِس جرأت آمیز للکار کے وہی نتائج نکلے ہیں جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ بھارتی حکومت اب ان کشمیری کرکٹروں کو سرکشی اور سرتابی کی سزا دینا چاہتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق،تمام کھلاڑیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ سرینگر سے شایع ہونے والے ممتاز انگریزی اخبار ''رائزنگ کشمیر'' نے خبر دی ہے کہ گاندربَل کے پولیس اسٹیشن (کنگن) میں یہ مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ تھانہ مذکور کے ایس ایچ او، نثار احمد، نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔ زیادہ تر کھلاڑی گرفتار کیے جا چکے ہیں لیکن بھارتی حکومت اور مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی سرکار نے دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے بیانات دیے کہ کھلاڑیوں کو حراست میں نہیں لیا گیا،صرف ''تحقیق اور تفتیش'' کی غرض سے اُنہیں متعلقہ تھانے میں بلایا گیا تھا۔
بلانے کے بعد مگر کیا ہُوا؟ اس سوال کا جواب دینے سے دانستہ گریز کیا گیا۔ گاندربَل کے ڈپٹی کمشنر (طارق حسین) اور مقبوضہ کشمیر کے آئی جی پولیس( ایس جے ایم گیلانی) بھی اس ضمن میں مسلسل دروغ گوئی کرتے رہے۔ کوشش یہی تھی کہ جھوٹ بول کر کشمیری کرکٹروں کو حوالاتوں میں ٹھونسنے کے متشددانہ عمل پر کسی طرح پردہ ڈالا جا سکے۔ ایسا مگر ہو نہ سکا۔ جب دہلی کے نسبتاً آزاد میڈیا نے بھارتی وزیر داخلہ، راجناتھ سنگھ، سے براہ راست پوچھا کہ اگر کشمیری کرکٹروں کو گرفتار نہیں کیا گیا تو پھر بھارت کے مرکزی تفتیشی ادارے NIA (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے سینئر افسران خصوصی طور پر گاندربَل کیوں گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مذکورہ وزیر کی خاموشی بہت سی کہانیاں بیان کرتی ہے۔
جب کوئی جواب نہ بن پڑا تو بھارتی خفیہ اداروں کی طرف سے یہ شرمناک اور ملفوف خبر چلوائی گئی کہ کشمیری کرکٹروںکوپیسے دے کر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سبز یونیفارم بھی پہنائی گئی اور اُن سے پاکستان کا قومی ترانہ بھی پڑھوایا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت اپنی ناکامیوں اور ندامتوں کی پردہ پوشی کے لیے مسلسل پاکستان کے خفیہ اداروں پر الزام تراشی کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر بھارتی میڈیا میں حالیہ ایام کے دوران یہ خبریں شایع کروانا کہ: ''بھارتی پولیس نے گلشن کمار سَین،شیام بابو اور سندر مشرا کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے لیے کام کرتے ہُوئے گرفتار کر لیاہے'' اور پھر یہ کہ''را نے صادق خان اور وریام خان کو حراست میں لیا ہے۔
دونوں پاکستان کے حساس ادارے کے لیے حساس معلومات اکٹھی کر رہے تھے'' اور فروری2016ء میں اِس خبر کا نشر ہونا کہ ''مدھیا پردیش سے بھارتی اینٹی ٹیرررسٹ اسکواڈنے گیارہ ایسے افراد پکڑے ہیں جو پاکستان کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔'' کشمیری کرکٹروں کو پیسے دے کر سبز وردیاں پہننے کی تازہ دریدہ دہنی بھی اِسی شرمناک پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔بھارتی خطرناک جاسوس، کلبھوشن یادیو، کی گرفتاری اور سزائے موت کے بعد تو بھارتی اداروں کی طرف سے پاکستانی حساس اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ وار میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ کالم ختم ہو رہا تھا کہ یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے مشہور کرکٹر، محمد اشرف، کو بھارتی فوج (سی آر پی ایف) نے شہید کر دیا ہے۔