شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار

وفاداری اور نمک حلالی ایک مثبت انسانی جذبہ ہے


نجمہ عالم April 13, 2017
[email protected]

وفاداری اور نمک حلالی ایک مثبت انسانی جذبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی خاندانی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے مقتدر اعلیٰ نے اسی طرز فکر کا اظہار کیا ہے جو صاحبان اقتدار کا خاصا رہا ہے کہ اپنے علاوہ سب کو احمق سمجھنا اور یہ یقین رکھنا کہ عوام ہمارے جوتوں تلے پس پس کر اپنی یادداشت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔

(انسانی تاریخ میں طاقتوروں کا ہمیشہ یہی خیال رہا ہے) مگر ہمیشہ صد فی صد ایسا ہوتا نہیں، ان کچلے ہوئے افراد میں بھی کچھ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو کسی کو بھی اپنی یادداشت کچلنے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لہٰذا ایسے ہی عوام کو یاد ہے کہ بار بار اشارتاً کہنے پر بھی دہشت گردوں کے خلاف حکومت نے کوئی قدم اٹھانے سے نہ صرف گریز کیا بلکہ ٹال مٹول سے کام لیتی رہی بالآخر جرنل (ر) راحیل شریف نے (افواج پاکستان نے) دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کردیا۔ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے بعد ضرب عضب کی حکومت کی طرف سے باقاعدہ تائید کی گئی۔

جن لوگوں نے بحالت ہوش و حواس اس سانحے کے بعد بلائی گئی، اے پی سی کی کارروائی کو براہ راست ٹی وی چینلز پر دیکھا وہ ماشا اللہ موجود ہیں، انھوں نے اپنی چشم بینا سے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ پوری قوم غم و اندوہ کے عالم میں تھی بالخصوص پشاور کے ہر گھر میں صف ماتم بچھی تھی، ہمارے سیاسی رہنما اس صورتحال پر ردعمل کے لیے جمع ہیں کہ حسب عادت پی ٹی آئی کے سربراہ کچھ تاخیر سے تشریف لائے (کیونکہ وہ تو عظیم الشان دھرنے میں مصروف تھے) تو وزیراعظم نے نہ صرف مکمل خوش دلی اور بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ ان کا استقبال کیا بلکہ اپنے برابر جگہ عنایت فرمائی اور فرمایا کہ ''اگر آج آپ سے ملاقات نہ ہوتی تو میں خود آپ سے ملنے آپ کے کنٹینر پر آجاتا۔'' یہ مزاحیہ نہ سہی خوشگوار انداز دیکھ کر جہاں عام آدمی کو دکھ ہوا، وہاں ان والدین کا کیا حال ہوا ہوگا جن کے بچے حکومت وقت کی لاپرواہی کی نذر ہوچکے تھے۔ جو مائیں رات بھر سوتی نہ تھیں اور دن بھر اپنے بچوں کے اسکول سے آنے کے تصور میں گم رہتی تھیں۔ ملک بھر پر سوگوار فضا مسلط تھی۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ اپنے تمام گناہوں کا بوجھ خود کو معصوم ثابت کرنے کے لیے دوسروں پر ڈال دیتے ہیں، ہم شاید واحد احسان فراموش قوم ہیں جو اپنے ہیروز کو زیرو کرنے سے ذرا نہیں چوکتے۔ جرنل (ر) راحیل شریف نے جو عزت اور شہرت (ہر دلعزیزی) کمائی وہ اپنے راست اور دلیرانہ اقدام سے عوام کو احساس تحفظ فراہم کرکے۔ ورنہ حکمراں تو ان سے خائف ہی رہے کہ انھیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں حکومت کی ناقص کارکردگی کے باعث وہ اقتدارسے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں، جب کہ ایسے کئی مواقعے آئے کہ ایسا ہوسکتا تھا مگر جرنل صاحب ایک محب وطن سپاہی تھے، انھیں اقتدار سے دلچسپی نہ تھی بلکہ وہ تو حکومت کی ڈولتی کشتی کو اپنے دلیرانہ عمل اور صائب فیصلوں سے پار لگانے کی تگ و دو کرتے رہے۔

کیا قوم بھول جائے کہ فوجی ذرایع کو کبھی واضح اور کبھی غیر واضح طور پر حکومت وقت کو گڈ گورننس کے بارے میں یاد دہانی کرانی پڑی، افواج وزیرستان اور دیگر شورش زدہ علاقوں میں بھرپور آپریشن ضرب عضب میں مصروف اور سول حکومت قومی سلامتی (نیشنل ایکشن پلان) کے منصوبوں پر سنجیدگی اختیار کرنے پر تیار نہیں۔ جب کوئی بڑا سانحہ ہوجاتا تو سانپ نکلنے کے بعد لکیر ضرور بڑے زورشور سے پیٹی جاتی۔ واقعات تو کئی ہیں مگر طوالت کے باعث ان کے ذکر سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ البتہ عوام کو یاد ہے کہ جنوبی پنجاب میں چھوٹو گینگ پر قابو پانے کے لیے پولیس کے شاید سات یا زیادہ اہلکار ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہید ہوئے اورکچھ کو جرائم پیشہ افراد نے اغوا بھی کرلیا ۔ مگر بالآخر فوج نے ہی اس آپریشن کو بھی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ چلیے اس ذکر کو بھی چھوڑتے ہیں۔

ابتدا سے لے کر کافی عرصے تک (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کا دہشت گردوں کے بارے میں کردار مشکوک رہا۔حکومت اور افواج پاکستان کے درمیان (کچھ عرصے کے لیے ) جس خلیج کا احساس عوام کو ہوتا رہا وہ موصوف کے اس بیان سے کھل کر سامنے آگیا (حالانکہ اب انھوں نے اس بیانیے میں مثبت تبدیلی کرلی ہے اس کا پس منظر کچھ بھی ہو) ہے کہ جرنل راحیل کے فوجی خدمات سے فارغ ہوتے ہی ان کی انتھک محنت اور پرخلوص سپہ سالاری پر انگلیاں اٹھائی جانے لگیں۔

کراچی میں قیام امن میں وفاقی حکومت کی دلچسپی تو کجا، کراچی کے بطل جلیل ایدھی کی موت پر ان کا نہ آنا ہی کراچی والوں کو ان کی کراچی سے دلچسپی کا بخوبی احساس دلاتا ہے۔ اس عظیم شخصیت کے سفر آخرت میں اگر جرنیل صاحب اس انداز اور خلوص سے حصہ نہ لیتے تو جانے کیا صورتحال پیش آتی؟ یہ قائد اعظم کے بعد پہلا جنازہ تھا جس کو پورے قومی اعزاز کے ساتھ منزل آخر تک پہنچایا گیا، اگر جنرل صاحب خصوصی دلچسپی نہ لیتے تو ایدھی صاحب مرحوم کی حسب شایان یہ کام کوئی اور کر ہی نہیں سکتا تھا۔

اب الیکشن 2018 کے لیے اگر انھیں سندھ کا خیال آگیا ہے بلکہ شدید محبت اور ہمدردی پورے صوبے سے (اس میں بھی کراچی شامل نہیں) ہوگئی ہے۔ تو کیا سندھ کے عوام اس محبت و ہمدردی کے پس منظر سے لاعلم ہیں؟ یہ احساس چار سال بعد اچانک کیسے بیدار ہوگیا؟ خیر کوئی بات نہیں اتنی مصروفیات میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔ مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بھی بلاوجہ خصوصی وفاداری کا مظاہرہ نہیں کر رہے اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں