صدق و سچائی انسانی معاشرے کا گوہرِ نایاب

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے دین میں جھوٹ کی کتنی مذمت اورسچائی کی کتنی تاکید کی گئی ہے


اسلامی تعلیمات کی روشنی میں خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے دین میں جھوٹ کی کتنی مذمت اورسچائی کی کتنی تاکید کی گئی ہے: فوٹو؛ فائل

KARACHI: اﷲ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کو جن خطوط پر چلنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک صدق بھی ہے۔ صدق و سچائی اﷲ تعالی، انبیائے کرام علیہم السلام، بالخصوص خاتم الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم، ملائکہ، اولیائے کرامؑ و صلحائے عظامؒ اور ہر منصف مزاج سلیم الفطرت شخص کا درجہ بہ درجہ مشترکہ وصف ہے۔ اپنی اہمیت کے حوالے سے صرف مسلمان ہی نہیں بل کہ ہر انسان خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، نیک ہو یا بد، حاکم ہو یا رعایا، افسر ہو یا ملازم، قائد ہو یا کارکن، استاد ہو یا شاگرد، پیر ہو یا مرید، امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا، والدین ہوں یا اولاد ال غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔

انسانی معاشرے کا امن و سکون، راحت و چین اور اس کی تعمیر و ترقی کی بنیاد صدق پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس کو اپنانے کی بہت تاکید آئی ہے۔ قرآن و سنت کی تعلیمات میں اس کی فضیلت اور ضرورت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صدق و سچائی، سچ بولنے والے مرد و عورت کی فضیلت، صادقِین کا مصداق، آخرت میں صادقِین کے انعام و اکرام، ان کے مقام و مرتبے، مخلوق میں مقبولیت اور سب سے بڑھ خالق کے ہاں ان کی محبوبیت کا تذکرہ موجود ہے۔ قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق کا مفہوم بہت وسیع ہے یہ صرف قول کی سچائی میں محصور نہیں بل کہ قول کے ساتھ فعل اور اعتقاد بھی سچائی کی تعریف میں شامل ہیں۔

قرآن حکیم کی سورۃ النساء میں ان چار طبقات کا خصوصی طور پر تذکرہ موجود ہے جن کو اﷲ نے خود انعام یافتہ قرار دیا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : '' جو شخص اﷲ کی اطاعت کرے گا اور رسول (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) ان کے ساتھ ہوگا جن پر اﷲ تعالیٰ نے انعام فرمایا اور وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور نیک لوگ ہیں۔''

سورۃ المائدہ میں صادقِین کو روز قیامت صدق کی وجہ سے جنت ملنے کا تذکرہ موجود ہے : '' آج (قیامت) کے دن صادقِین کو ان کا صدق نفع اور فائدہ دے گا، ان کے لیے جنّتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اس خلد بریں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اﷲ ان سے راضی اور وہ اﷲ سے راضی ہوں گے یہ بہت بڑی کام یابی ہے۔''

سورۃ التوبہ میں صادقِین کی معیت میں رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا: '' اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور صادقِین کے ساتھ رہو۔''

سورۃ الاحزاب میں قول و قرار کے سچے لوگوں کی مدح و توصیف بیان کرتے ہوئے کہا گیا: '' اور جب اہل ایمان نے فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ تو وہی ہے جس کا اﷲ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا بالکل سچ کہا اﷲ اور اس کے رسول نے، ان کے ایمان اور اطاعت میں مزید پختگی آئی۔ ایمان والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اﷲ کے ساتھ کیے ہوئے اپنے عہد کو سچ کر دکھایا جب کہ کچھ ان میں پورا کرچکے اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں اور ذرّہ برابر بھی تبدیل نہیں ہوئے۔ تاکہ اﷲ صادقِین کو ان کے صدق کی وجہ سے جزا و انعام عطا کرے۔''

سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں صدق و سچائی اور بعض دیگر صفات سے متصف مرد و عورت کی جزا و انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا : '' اﷲ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کو مقرر کر دیا ہے۔ ''

سورۃ الحجرات آیت نمبر 15اور سورۃ الحشر آیت نمبر8 میں صادقِین کا مصداق ذکر کیا گیا ہے دونوں آیات مبارکہ کا مشترکہ طور پر خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ صادقِین وہ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے، دین اسلام پر شکوک و شبہات نہ کرے، اپنی جان و مال کے ساتھ اعلائے کلمۃ اﷲ کا فریضہ سرانجام دے، اﷲ کی رضا اور خوش نودی کے حصول کے لیے کام کرے اور جب کبھی وقت پڑے تو اﷲ اور اس کے رسولؐ کے دین کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی ممکن نصرت و کوشش کرے۔

فرامین خدا کی طرح فرامین رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں بھی صدق کے بہت سے فضائل و مناقب مذکور ہیں۔ اسے دل کا اطمینان، دنیوی و اخروی نجات کا وسیلہ، حصول جنت کا سبب، خدا کی خوش نودی و رضا کا باعث، مال میں برکت اور خیر کا ذریعہ جب کہ شرمندگی، ندامت، پچھتاوے، ہلاکت اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: '' تمہارے اوپر صدق لازم ہے کیوں کہ وہ نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے اور وہ دونوں یعنی صدق اور نیک عمل جنت میں داخلے کا سبب ہے اور تم جھوٹ سے بچو کیوں کہ یہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور وہ دونوں یعنی جھوٹ اور گناہ دونوں جہنم میں داخلے کا سبب ہیں۔''

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: '' صدق ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں وہ '' صدیق'' بن جاتا ہے۔ اور جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں '' کذاب '' لکھ دیا جاتا ہے۔''

حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یارسول اﷲ ! کوئی ایسا عمل بتائیں جس کی وجہ سے جنت مل جائے۔ '' آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : صدق۔ کیوں کہ صدق کو اختیار کرنے والا شخص نیک ہے اور نیکی کرنے والا پرامن ہے اور پرامن رہنے والا جنت میں داخل ہوگا۔ اس شخص نے پوچھا کہ یارسول اﷲ ﷺ! ایسے عمل کی نشان دہی بھی فرما دیں جس کی وجہ سے انسان مستحق دوزخ بنتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جھوٹ۔ کیوں کہ جھوٹا شخص گناہ گار ہے اور گناہ کرنے والا نافرمان ہے اور نافرمانی کرنے والا جہنم جائے گا۔''

حضرت عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے چھے باتوں کی تم ضمانت دے دو، جنت کی ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، امانت ادا کرو، شرم گاہوں کی حفاظت کرو، نگاہوں کو غیر محرم سے بچاؤ اور ظلم سے اپنے آپ کو روک کے رکھو۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : '' جب چار عادات تمہارے اندر پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ چار عادات یہ ہیں: امانت داری ، صدق ، حسن خلق اور حلال رزق۔''

حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے کہ صدق باعث اطمینان ہے جب کہ کذب باعث بے قراری ہے۔

حضرت حکیم بن حزام رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ '' رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک معاملہ ختم کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ دونوں جدا نہ ہوجائیں، اگر ان دونوں نے اس چیز کے بارے سچ بولا اور اس چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردی یعنی اگر کوئی عیب وغیرہ تھا بھی سہی تو وہ بتلا دیا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں تو اس چیز سے برکت ختم کر دی جاتی ہے۔''

امام مالک رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ کو فضل و کمال اور عظیم الشان مرتبہ کیسے ملا ؟ انہوں جواب دیا کہ قول و قرار میں صدق و سچائی، امانت داری اور فضول کاموں اور لایعنی و بے کار باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کی وجہ سے حاصل ہوا۔

ایک علمی نکتہ:
قرآن و سنت میں صادق، صدوق اور صدیق کے الفاظ موجود ہیں ان کے معنیٰ اور مفہوم میں فرق ہے، وہ اس طرح کہ سچے شخص کو ''صادق''، بہت سچے کو '' صدوق '' جب کہ بہت ہی زیادہ سچے کو ''صدیق'' کہا جاتا ہے۔

آج کل جھوٹ ایک فیشن بن چکا ہے، جو جس قدر جھوٹا اور فراڈ کرنے والا ہوتا ہے لوگ اسے اتنا ہی ذہین اور عقل مند سمجھتے ہیں۔ معاشرے میں صدق و سچائی کی اہمیت کم جب کہ جھوٹ کی زیادہ ہو رہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس گناہ کا احساس مرچکا ہے۔ حالاں کہ یہ ایسا عمل ہے جس سے پورا معاشرہ بے سکونی اور رزق کی تنگی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ بولنا رزق کو کم کردینا ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ چہرے کو بے رونق کردیتا ہے۔ ایک حدیث میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹ بولنے کو عام معمول کی بات سمجھنے لگے ہیں۔ اسٹیج ڈراموں ، میلوں ٹھیلوں اور مختلف تقریبات میں جھوٹ کو ضروری تصور کرلیا گیا ہے۔ حالاں کہ ایک حدیث پاک میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے تو اس کے لیے ہلاکت ہو، اس کے لیے ہلاکت ہو۔

ایک زمانہ تھا لوگ قصہ گوئی کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے لیکن اب تو بات بات پر جھوٹ کو بے دھڑک بولا جا رہا ہے۔ ایک حدیث پاک میں ہے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی بندہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ جہنم کے ایسے گڑھے میں جا گرتا ہے جس کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔

یاد رکھیں جھوٹی بات کی وجہ سے لوگ تو ہنس پڑتے ہیں لیکن حدیث پاک کے مطابق اﷲ کے ملائکہ اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے میلوں دور چلے جاتے ہیں۔ بل کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو اس معاملے میں بہت اصلاح فرمایا کرتے تھے، چناں چہ حضرت عبداﷲ بن عامر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ آؤ میں تمہیں ایک چیز دیتی ہوں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے میری والدہ سے پوچھا کہ بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ کھجور۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کو بلاتی اور کچھ نہ دیتی تو تمہارے نامۂ اعمال میں جھوٹ لکھ دیا جاتا۔

مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگائیں کہ ہمارے دین اور شریعت میں جھوٹ کی کتنی مذمت اور سچائی کی کتنی تاکید کی گئی ہے۔ اﷲ ہمیں ہر قسم کے جھوٹ سے اپنی امان میں رکھے اور ہمیشہ صدق و سچائی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں