دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانوی چوتھا حصہ
بقول عصمت چغتائی ساحر کو شادی کے نام ہی سے جھرجھری آتی تھی۔
ساحر لدھیانوی کی یہ قربت سدھا ملہوترہ سے اس وقت تک رہی جب تک وہ فلم ''دیدی'' کا میوزک مکمل کرنے میں لگی رہی اور ساحر کے گیتوں کو خوبصورت دھنوں کے قالب میں ڈھالنے میں شب و روز مصروف رہی مگر جب فلم مکمل ہوکر نمائش پذیر ہوگئی تو سدھا اور ساحر کی محبت کے قصے بھی ماند پڑ گئے۔ یہاں میں موسیقار این دتہ کی فلم ''چندرکانتا'' کے خوبصورت گیتوں کا بھی تذکرہ کروں گا۔ یہ 1956ء کی فلم تھی اور ساحر کے ایک گیت نے بڑی دھومیں مچائی تھیں۔ اس زمانے میں وہ گیت ہر ٹوٹے ہوئے دل کی آواز بن گیا تھا اور وہ گیت تھا:
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
مجھ کو راتوں کی سیاہی کے سوا کچھ نہ ملا
میں وہ نغمہ ہوں جسے پیارکی محفل نہ ملی
وہ مسافر ہوں جسے کوئی بھی منزل نہ ملی
زخم پائے ہیں بہاروں کی تمنا کی تھی
میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی
اب میں آتا ہوں ساحر کی پہلی محبت امرتا پریتم کی طرف۔ امرتا پریتم کے بقول وہ ساحر لدھیانوی کو اپنے بچپن کے زمانے سے پیارکرتی تھی۔ اس کی شاعری کی دیوانی تھی اس نے ساحر کے نام کچھ پریم پتر بھی لکھے تھے مگر وہ انھیں ساحر تک پہنچانے میں ناکام رہی تھی اور پھر جب وہ ساحر کی سرد مہری کی وجہ سے مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں دھنسنے لگی تھی تو اس کی شادی ہوگئی تھی اور وہ اپنے ارمانوں کی ارتھی کے ساتھ اپنے نئے سفر پر روانہ ہوگئی۔ وہ اپنے شریک زندگی کے ساتھ رہ تو رہی تھی مگر اس کی نیندوں میں اس کے خیالوں اور خوابوں میں ساحر ہی بسا رہا۔
ساحر لدھیانوی کے بے تکلف اور قریبی دوستوں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، علی سردار جعفری، جاں نثار اختر، ممتاز حسین اور بے باک رائٹر عصمت چغتائی کو ساحر لدھیانوی سے ہمیشہ یہ شکایت رہی کہ ساحر نے کبھی کھل کر اپنی محبت کا اظہار ہی نہیں کیا۔ وہ کبھی شادی کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوا۔ بقول عصمت چغتائی ساحر کو شادی کے نام ہی سے جھرجھری آتی تھی۔ ساحر کے تمام قریبی دوستوں کو یقین ہو گیا تھا کہ ساحر کے سرکبھی سہرا سج ہی نہیں سکتا۔
ساحر نے اپنی زندگی میں صرف ایک ہی عورت کو اپنے آس پاس دیکھا تھا ایک ہی عورت سے اس نے ٹوٹ کر محبت کی تھی اور وہ عورت اس کی مقدس ماں تھی جس کی محبت نے اسے کبھی کسی دوسری عورت کا اسیر ہونے ہی نہیں دیا۔ اس کی ماں ہی اس کی زندگی اور اس کی زندگی کی ہر خوشی تھی، وہی اس کا سب کچھ تھی اور فلم ''دیدی'' کے جس گیت کی وجہ سے فلمی حلقوں میں گلوکارہ سدھا ملہوترہ کو ساحر لدھیانوی کے ساتھ جوڑا گیا تھا وہ گیت سدھا ملہوترہ کے جذبات کی عکاسی کی غرض سے ہی ساحر نے لکھا تھا اور وہ بڑا ہی معنی خیز گیت تھا۔ اس گیت میں کچھ کچھ اظہار بھی تھا اور کہیں کہیں انکار بھی تھا اور وہ گیت کچھ یوں تھا:
تم مجھے بھول بھی جاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
میرے دل کی میرے جذبات کی قیمت کیا ہے
الجھے الجھے سے خیالات کی قیمت کیا ہے
میں نے کیوں پیارکیا تم نے نہ کیوں پیار کیا
ان پریشان سوالات کی قیمت کیا ہے
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ اور بھی ہے
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں
عشق ہی ایک حقیقت نہیں کچھ اور بھی ہے
تم اگر آنکھ چراؤ تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
تم کو دنیا کے غم و درد سے فرصت نہ سہی
سب سے الفت سہی مجھ سے ہی محبت نہ سہی
میں تمہاری ہوں یہی میرے لیے کیا کم ہے
تم میرے ہو کے رہو یہ مری قسمت نہ سہی
اور بھی دل کو جلاؤ تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
فلم ''دیدی'' کے اس گیت نے بھی بڑے عرصے تک محبت کرنے والوں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا تھا۔ پھر فلم ''دیدی'' ریلیز ہوگئی۔ سدھا ملہوترہ اور ساحرلدھیانوی کی قربت کے وہ چند دن بھی ختم ہوگئے تو ان دونوں کی محبت کے جو قصے عام ہوئے تھے وہ بھی وقت کی دھند میں گم ہوگئے۔ یہ وہ دور تھا جب ساحر لدھیانوی کی شاعری اپنے عروج پر تھی۔ اس کے پاس بمبئی کے مہنگے علاقے میں ایک بڑا گھر تھا۔
دولت کی کمی نہ تھی اور شہرت اس کی کنیز بنی ہوئی تھی۔ اس دور میں بے شمار نوجوان لڑکیاں ساحر سے خوابوں میں محبت کیا کرتی تھیں۔ مگر ساحر کی آنکھوں میں کسی بھی عورت کے لیے شعلے نہیں لپکے تھے، ساحر کے پاس وہ دل ہی نہیں تھا جو حسن پرستی کے نشے میں ڈوبا ہوا ہو، ساحر کو عورت کی بے بسی سے محبت تھی عورت کی بے کسی سے پیار تھا، اس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی عورت کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا تھا کہ وہ عورت بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیتی۔ ساحر کو تو صرف اپنی تنہائیوں سے پیار تھا۔
اب میں آتا ہوں ساحر لدھیانوی کی ایک اور یادگار فلم کی طرف۔ وہ تھی فلم ''کبھی کبھی'' اور ایسی خوبصورت فلم بھی کبھی کبھی بنتی ہے۔ اس فلم کے موسیقار خیام تھے اور اس فلم کو یادگار بنانے میں فلم کے ہیرو ہیروئن سے زیادہ ساحر کے گیتوں اور خیام کی لازوال موسیقی نے ایک امر فلم بنادیا تھا۔ ساحر کی ایک نظم منظر عام پر آئی تھی جس میں محبت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے اور اس گیت کو لتا منگیشکر اور مکیش نے بھی بڑی لگن اور بہت ہی ڈوب کر گایا تھا، ایک ایک شعر میں آرزوؤں اور امنگوں کا ساگر بہہ رہا تھا:
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو بنایا گیا ہے میرے لیے
تُو اب سے پہلے ستاروں میں بس رہی تھی کہیں
تجھے زمیں پہ بلایا گیا ہے میرے لیے
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ یہ بدن یہ نگاہیں مری امانت ہیں
یہ گیسوؤں کی گھنی چھاؤں ہے مری خاطر
یہ ہونٹ اور یہ بانہیں مری امانت ہیں
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
کہ جیسے بجتی ہوں شہنائیاں سی راہوں میں
سہاگ رات ہے گھونگھٹ اٹھا رہا ہوں میں
سمٹ رہی ہے تو شرما کے اپنی بانہوں میں
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
اس گیت کی عکس بندی میں اداکارہ راکھی اور امیتابھ بچن کو محبت کی بانہوں میں کچھ اس طرح دکھایا گیا تھا کہ ہزاروں محبت کرنے والے مر مٹے تھے۔ پھر یہی گیت راکھی اور ششی کپور پر فلمایا گیا تھا۔ پہلی بار اس گیت کو دو محبت کرنے والے دلوں کو گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا اور اس گیت نے ایک سماں باندھ دیا تھا۔ فضاؤں میں، ہواؤں میں پیار کی خوشبو بکھری ہوئی تھی، پھر یہی گیت محبت میں ہاری ہوئی ایک بیاہتا بیوی پر اوور لیپ (Over Lap) کیا گیا تھا اور دونوں بار اس گیت کا رنگ ہی الگ تھا۔
راکھی نے اپنی اداکاری میں اس گیت کے ہر منظر میں ایک جادو سا بھر دیا تھا یہ ایک گیت نہیں تھا زندگی کی محرومیاں اور زندگی کی مجبوریاں تھیں۔ جو گیت کا حصہ بن گئی تھیں۔ یہ گیت ساحر لدھیانوی کے امر گیتوں میں سب سے زیادہ سحر انگیز گیت تھا۔ اس گیت کو جب بھی تنہائی میں سنو تو ایک عجیب سا سرور ملتا ہے۔
فلم کبھی کبھی میں ایک اور گیت جو لاکھوں دلوں کی توجہ کا مرکز بنا تھا جو ساحر لدھیانوی نے اپنی زندگی اپنی شاعرانہ شخصیت اور اپنی شہرت کے ایک ایک پل کو اس گیت میں سمو کر اس گیت کو ایک الگ ہی رنگ دے دیا تھا اور موسیقار خیام نے بھی اس گیت کی دھن بناتے ہوئے اپنی تمام فنی صلاحیتوں کا نچوڑ پیش کیا تھا۔ وہ گیت ساحر کی اپنی ذات کا عکس تھا۔
میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل میری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے، پل دو پل میری جوانی ہے
(جاری ہے)