کرنل پروہت سے لے کر کمانڈر کلبھوشن تک
دس برس سے مقدمہ چل رہا ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ پروہت بے گناہ ہے، کیا یہ واقعی انصاف ہے۔
کلبھوشن یادیو آجکل پاکستان اور ہندوستان کے میڈیا اور حکومتی ایوانوں میں اہم ترین زیربحث موضوع ہے۔ ہمارے میڈیا پر چند قانونی دانشور مسلسل فرما رہے ہیں کہ اسے ہمارے آئین کے مطابق فیئر ٹرائل کا موقعہ ملنا چاہیے۔ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ را کے اس بڑے کردار کا مقدمہ فوجی عدالت کے بجائے سول عدالتوں میں چلنا چاہیے۔ ظاہری طور پر اس دلیل میں بہت وزن نظرآتا ہے۔ یہ قانونی دانشور دراصل یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یادیو کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
ہندوستان کی حکومت کا بیانیہ بھی یہی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اپنے ملک میں بیٹھ کر دشمن ملک کی ترجمانی کیونکرکی جا رہی ہے۔ جن وجوہات کی بنا پر کلبھوشن کو آرمی کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا، وہ انتہائی سنجیدہ ہیں۔ کلبھوشن انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر تھا اور 2022ء میں ریٹائر ہونا تھا۔ اسے کراچی اور گوادر کے علاقوںمیں خوفناک بربادی پھیلانے کا مشن سونپا گیا تھا یعنی وہ ہماری ریاست کے خلاف کام کر رہا تھا۔
حاضر سروس دفاعی ادارے کے افسر اور ریاست کے خلاف سازش اور بدامنی پھیلانا، ایسے جرائم ہیں جو قانونی اجازت دیتے ہیں کہ فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ چند قانونی ماہرین کو اتنے نازک مسئلہ پر قومی بیانیے میں شگاف ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
کلبھوشن کو ہندوستانی حکومت نے جعلی پاسپورٹ جاری کیا جس کا نمبر L 9630722 تھا۔ 2003 میں جاری ہونیوالے اس پاسپورٹ پر اس کا نام حسین مبارک پٹیل لکھا گیا تھا۔ ایران میں چاہ بہار بندرگاہ پر دفتر لیا اور کام شروع کر دیا۔ اصل مقصد ان عناصر سے رابطہ کرنا تھا جو ہمارے ملک میں قتل عام اور فساد برپا کر سکیں۔ کلبھوشن ایران سے اکثر پاکستان آتا رہا۔ بلوچستان کے ''وڈھ'' کے علاقے میں باقاعدہ ایک تربیتی کیمپ بھی بنایا جہاں شرپسندوں کو ڈالر، اسلحہ اور تربیت دی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ حسین مبارک گڈانی کے مقام پر شپ بریکنگ کے تاجرکی حیثیت سے بھی آتا جاتا رہا۔ وہاں بھی مقصد صرف اور صرف ایک بھرپور نیٹ ورک بنانا تھا جو کراچی اور بلوچستان میں غدر برپا کر سکے۔
دہلی میں را کے ہیڈکواٹر میں، جوائنٹ سیکریٹری انیل گپتا، اس پورے آپریشن کا انچارج بنایا گیا۔ سانحہ صفورا، کلبھوشن ہی کا منصوبہ تھا۔ کراچی اور بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں اس شخص کا ہاتھ تھا۔ سی پیک کے منصوبے کو نقصان پہنچانے کی کوششیں الگ تھیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ اقبالی بیان اور تمام ثبوتوں کے بعد کلبھوشن کسی ہمدردی یا رعائت کا مستحق ہے۔ کیا قانونی موشگافیوں سے اس کو تحفظ دینا افسوسناک نہیں؟
توجہ دو کرداروں کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ پہلا، ہندوستانی فوج میں حاضر سروس کرنل پروہت، دوسرا اجمل قصاب۔ 2007 میں سمجھوتا ایکسپریس میں 68 بے گناہ پاکستانیوں کو زندہ جلایا گیا۔ جب ملزم سوامی اسیم نند کو گرفتار کیا گیا تو حقائق سامنے آئے۔ اس بھیانک جرم کو بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد، جے بندے ماترم اور دلواسی کلیان آشرم نام کے ہندو مذہبی گروہ شامل تھے۔ ثبوتوں کے باوجود ان میں سے ایک بھی مذہبی جماعت کو دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا۔
کرنل پروہت انڈین انٹیلی جینس کا افسر تھا۔ اس نے تسلیم کیا کہ ہندو دہشت گرد تنظیموں کو اسلحہ اور تربیت فراہم کرتا ہے، تاکہ ہندوستان میں غیرہندوؤں کا وجود ختم کیا جائے۔ یہ بھی تسلیم کیا کہ اس کا مقصد ہندوستان اور پاکستان میں جنگ کرانا تھا۔ یہ بھی بتایا کہ انڈین آرمی چیف جنرل جے جے سنگھ بھی اس کا ہمدرد ہے اور ایک ہی ایجنڈا پر کام کر رہے ہیں۔ 2007 سے 2017 تک اس مقدمہ کا کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ کرنل پروہت کے متعلق این آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل شرد کمار نے کچھ عرصہ پہلے بیان دیا ہے کہ کرنل پروہت کا تو سمجھوتا ایکسپریس سانحہ میں کوئی ہاتھ ہی نہیں۔
ذرا سوچیے، تمام ثبوت جو پروہت کے اقبال بیان کا حصہ تھے، ان پر توجہ دیے بغیر یہ اعلان کر دیا گیا کہ وہ بے قصور ہے۔ ہندوستان عدالتی نظام میں پروہت بڑے آرام سے بچ جائے گا۔ 68 بے گناہ پاکستانیوں کی روحیں ہم سے سوال کرتی رہیں گی کہ ان سے انصاف کیوں نہیں ہوا۔ دراصل پاکستان میں کلبھوشن کے قانونی محافظین کو کرنل پروہت جیسا انصاف چاہیے۔
اجمل قصاب کے کیس کی طرف آئیے۔ 2008 میں بمبئی حملوں میں اسے ذمے دار ٹھہرایا گیا۔ اس کی عمر اس حد تک کم تھی کہ اسے انڈیا کے قانون کے مطابق کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اجمل قصاب نے کہا کہ پولیس نے اس پر بے پناہ تشدد کیا ہے اور اس سے سفید کاغذ پر دستخط کرائے ہیں۔ اجمل قصاب کو سزائے موت سنا دی گئی اور اس پر عمل بھی ہو گیا۔ اجمل قصاب کے کیس کو رہنے دیجیے۔ مگر کلبھوشن کے مقدمہ اور جزئیات پر غور کرنا ضروری ہے۔
ایک منٹ کے لیے مان لیجیے کہ یادیو دراصل ایک تاجر تھا اور انتہائی ایمانداری سے چاہ بہار بندرگاہ پر کام کر رہا تھا۔ اگروہ صرف ایک تاجر تھا تو سزا ملنے کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم سے لے کر وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ اتنے زیادہ غصے میں کیوں ہیں۔ ان کے منہ سے جھاگ کیوں نکل رہا ہے۔ سشما سوراج صاحبہ جو اس وقت وزیرخارجہ ہیں، ان کے بیان میں اتنا غضب کیوں ہے۔ فرماتی ہیں کہ پاکستان کونتائج ذہن میں رکھنے چاہیئں جو کلبھوشن کو پھانسی دینے پر سامنے آسکتے ہیں۔ یہاں تک فرمایا کہ کسی بھی قیمت پر پاکستانی بہترین قانون دان رکھے جائیں گے جو کلبھوشن کو انصاف دلاسکیں۔
مطلب واضح ہے۔ ہمارے جو قانون دان، کلبھوشن کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر اپنے خیالات وضاحت سے گوش گزار کر رہے ہیں، ان کے منہ میں ''بھاری فیس'' کے خیال سے پانی آرہا ہے۔ وہ بالواسطہ ہندوستان کی حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمیں وکیل کریں، ہم آپ کے بندے کو بے گناہ کرانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
بی جے پی کے ایک ایم پی سبرامنیم سوامی نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کلبھوشن کو پھانسی دیتا ہے تو ہندوستان کو فوراً بلوچستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کر لینا چاہیے۔ کیا ایک عام سے تاجرکے لیے یہ اعلانات مناسب نظر آتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم اور پاکستان سے ہردم دشمنی نبھانے والی بنگلہ دیشی وزیراعظم کی ملاقات کی ایسی تصویرجاری کی گئی ہے جسکے پیچھے کلبھوشن کی تصویر آویزاں ہے۔ کیا واقعی ایک ساہوکار کے لیے اتنی جذباتیت دکھائی جا رہی ہے؟
کلبھوشن کو ہندوستان کا بہادربیٹا بتایا جا رہا ہے۔ مسئلہ کو بی جے پی اپنا ایجنڈا بنا چکی ہے۔ حدت اس درجہ بڑھا دی گئی ہے کہ چند تجزیہ کار دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ کلبھوشن کو اپیل کا حق ہے۔ سپریم کورٹ میں اس کی اپیل سنی جانی چاہیے۔ یہ بنیادی حقوق کی بات ہے۔ مگرکیا اجمل قصاب کو پھانسی دیتے ہوئے انصاف کے سارے تقاضے پورے کیے گئے تھے۔ کیا کرنل پروہت کو 68 پاکستانیوں کو زندہ جلانے کے جرم میں کسی عدالت سے سزا ہوئی ہے۔
دس برس سے مقدمہ چل رہا ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ پروہت بے گناہ ہے۔ کیا یہ واقعی انصاف ہے۔ کلبھوشن جو تسلیم کر چکا ہے کہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی اَن گنت وارداتیں کروائیں، اس کے لیے چند حلقے اتنا نرم گوشہ کیسے رکھتے ہیں۔ کیونکرکرنل پروہت سے لے کر کلبھوشن تک کے مسلمانوں پرکیے گئے مظالم کو بھول جاتے ہیں۔زندہ قومیں اپنے دشمنوں کونشانِ عبرت بناتی ہیں اور ہم ایک زندہ قوم ہیں!