بھارت اور پاکستان
مودی کے ذاتی دورے کا بھی باہمی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا اور پاکستان مخالف پالیسیاں جاری ہیں۔
دوستی کا خواہشمند موجودہ پاکستان اور ہمیشہ دشمنی اور جارحیت پر مائل بھارت ایک دفعہ پھر اس پوزیشن میں آچکا ہے کہ وہ اب کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر پاکستان کو براہ راست دھمکیاں دے رہا ہے اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے اپنے جاسوس کلبھوشن یادیو کے بارے میں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کا واویلا کر رہا ہے اور اسے قتل قرار دینے کا پاکستانی ارادہ قرار دے رہا ہے۔
اس معاملے پر ہمارے نئی دہلی میں ہائی کمشنر نے طلب کیے جانے پر بھارتی سیکریٹری خارجہ کو کھری کھری سنا دی ہیں کہ بھارت پاکستان میں دہشتگردی بھی کرے اور پھر اس پر احتجاج بھی یہ ہمیں قبول نہیں اور پاکستانی حکمرانوں کی ہمسایہ کے ساتھ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ یہ واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آیندہ نہیں ہوگا، پاکستان کے اندرون خانہ بھارتی مداخلت کوئی نئی بات نہیں اور وہ ہمیشہ سے اپنی بدنام زمانہ ایجنسی را ء کے ذریعے اس بات کو عملاً انجام دیتا بھی رہا ہے اور پاکستان میں اپنے جاسوس بھیج کر یہاں پر دہشتگردی اور بد امنی کا بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
بلوچستان میں اب جب کہ ترقی کی نئی راہوں کا تعین ہونے جا رہا ہے تو بھارت نے ہمارے رقبہ کے لحاظ سے اس سب سے بڑے صوبے میں چند غداروں کے ساتھ مل کر وہاں پر دہشتگرد کاروائیاں شروع کر دی ہیں اور اس کا یہ جاسوس بھی وہیں سے ہی پکڑا گیا تھا اور اس نے عدالت کے روبرو اپنے جرائم کا اعتراف بھی کیا اور اس کی نشاندہی پر را کا مکمل نیٹ ورک بھی بے نقاب ہو گیا۔
دنیا بھر میں جاسوسی کی کاروائیاں کی جاتی ہیں اور یہ جاسوس جب پکڑے جاتے ہیں تو اپنے کیے کی سزا پاتے ہیں۔ پاکستان اپنے منفرد جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے عالمی طاقتوں کی پسندیدہ آماجگاہ بن چکا ہے اور دنیا کی اب تک کی واحد سپر پاور امریکا کا مفاد اس خطے سے وابستہ ہونے کی بنا پر پاکستان کا اس میں کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس محل وقوع کا فائدہ اٹھانے کے بجائے ہم مزید مشکلات کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور بڑوں کی لڑائی ہم پر بھاری پڑ رہی ہے ان حالات کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارا دشمن بھارت اٹھا رہا ہے اور خاص طور پر امریکا کی حمایت سے ہمیں غیر مستحکم کرنے کے لیے اپنی ریشہ روانیوں کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ اول تو پاکستان کا وجود ہی ختم کر دیا جائے یا پھر اس کو طفیلی ملک بنا کر رکھا جائے۔ وہ تو بھلا ہو محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا جنہوں نے اپنی محنت سے پاکستان کو اس قابل بنا دیا کہ وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے لیکن ہمارا ایٹم بم دنیا کو ہضم نہیں ہوا اور وہ سازشوں کے ذریعے اس کو ختم کرنے کے درپے ہیں جس میں ان کو ناکامی کا سامنا ہے اور اب انھوں نے نیا روپ دھار کر پاکستان کو اندرونی طور پر کمزور کرنا شروع کر دیا ہے۔
ہم نے ستر سال سے اپنے آپ کو اس طرح مستحکم کرنے کی کوشش نہیں کی جس سے ہم اپنے دشمن کی پاکستان مخالف کاروائیوں کی روک تھام کر سکیں، اپنے قیام سے لے کر اب تک ہماری تاریخ اس بات کی گواہ رہی ہے کہ ہماری جمہوری حکومتوں نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو ترجیح دی لیکن اس کا مثبت جواب کبھی نہیں ملا اور بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے معاملے پر ہوش وحواس کے بجائے جنون کو چنا اور گیڈر بھبھکیوں کے ذریعے پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی، لیکن ہماری حکومتوں سمیت عوام کبھی ان سے مرعوب نہیں ہوئے اور وہی کیا جو کہ پاکستان کے مفاد میں ہوتا ہے۔
ابھی ایک تصویر نظر سے گزری ہے جس میں نریندر مودی بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں اور ان کے پیچھے دیوار پر جو تصویر لگی ہوئی ہے اس میں سقوط ڈھاکا کے موقع پر دستخط کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھارتی ذہنیت کی عکاس ہے اور اس ذہنیت کے ساتھ خطے میں ترقی اور امن کی خوش کن باتیں توکی جا سکتی لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکتا۔
کون ہے جو اس بات سے واقف نہیں کہ سانحہ مشرقی پاکستان میں بنیادی کردار بھارت نے ادا کیا تھا اور وہ اب بھی پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے اور جب اس کے جاسوس پکڑے جاتے ہیں تو پھر اس پر احتجاج کس بات کا۔ ہمیں اس طرح کے کیس بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جانے چاہئیں تا کہ بھارت جو کہ جمہوریت اور امن کی دعویداری کرتا ہے اس کی اصل صورت دنیا کو دکھائی جا ئے۔
ہندوستان کے معاملے میں پاکستان کی پالیسی ہمیشہ واضح رہی ہے اور اس پالیسی کو پاکستان کے مقتتدر حلقوں کی حمایت اور مشاورت حاصل رہی ہے۔ پاکستان نے اپنی سلامتی کے معاملے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف کی جانے والی کاروائیوں کو ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر واضح طور پر پیش کیا اور خاص طور پر بھارت میں بسنے والے مسلمانوں سے روا رکھے جانے والے سلوک اور کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کو بے نقاب کیا۔
بھارت کشمیر میں ڈھائے جانے والے ان مظالم پر پاکستان کے احتجاج کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشتگردی قرار دیتا ہے لیکن دنیا اس کو سمجھتی ہے اور ہر فورم پر کشمیریوں کی حمایت کی جاتی ہے یہی پاکستان کی کامیابی ہے اور اسی بات کا بھارت کو دکھ ہے کہ اس کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بین الاقوامی برادری اس کی ہمیشہ مذمت کرتی رہی ہے۔
ہماری موجودہ حکومت نے بھی ہندوستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی داغ بیل ڈالنے کی بھر پور کوشش کی اور اسی سلسلے میں ایک ذاتی تقریب میں ہمارے وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو مدعو کیا اور وہ اس تقریب میں شامل بھی ہوئے لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق مودی کی جماعت جو کہ انتہاپسند ہندوؤں کی نمایندگی کرتی ہے اور اس نے بھارتی انتخابات میں پاکستان دشمنی کے نام پر ووٹ لیے تھے وہی جماعت اور اس کا نمایندہ مودی کیونکر پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنائے گا جن دوستانہ تعلقات کی خواہش ہمارے حکمرانوں کی ہے۔
مودی کے ذاتی دورے کا بھی باہمی تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑا اور پاکستان مخالف پالیسیاں جاری ہیں۔ ہماری جمہوری حکومت جو کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ امن اور اچھے تعلقات کو خواہش تو رکھتی ہے لیکن اس دشمن ہمسایہ کی جانب سے کبھی خیر کی خبر نہیں آئی۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو از سر نو مرتب کرنا ہوگا اور اگر ہمیں سمجھ آ جائے تو یہ پاکستان مخالف بھارتی پالیسیاں ہمیشہ جاری رہیں گی ان میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے لیکن یہ کہنا کہ بھارت ہمارا پسندیدہ ترین ملک بن جائے یہ خوش فہمی ہی رہے گی اور ہم نہ جانے ان خوش فہمیوں کا کب تک شکار رہیں گے اور اپنے آپ کو دھوکا دیتے رہیں گے۔
ماضی میں ہمیں بارہا تلخ تجربے ہو چکے ہیں اور بھارت کے ہندوؤں نے ہمیں ایک ملک کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جب کہ پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے عوام کی خواہشات کے برعکس بھارت کو اس کی حد تک رہنے کی خواہش کی ہے لیکن بھارت نے ہماری اس سیاسی قربانی کو قبول نہیں کیا۔
بھارت اور پاکستان ایک ہی خطے کے دو ملک ہیں پڑوسی ملک اور گہرے مفادات کے حامل۔ پاکستان نے بھارت کو نہ صرف اپنا آزاد پڑوسی تسلیم کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھنے کی کوشش بھی کی ہے۔ پاکستان کی اس پالیسی کا پورا خطہ گواہ ہے لیکن نامعلوم کیوں بھارت کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے جب کہ اب پاکستان بھی ایک ایٹمی ملک بن گیا ہے اور اس نے یہ ایٹمی طاقت اپنے تحفظ کی خاطر حاصل کی ہے۔
بھارت کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ اس کے سامنے ایک اس جیسا ایک طاقتور ملک موجود ہے جس کے عوام کی شجاعت کی ایک دنیا گواہ ہے۔ بہرکیف امن دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور بھارت اس حقیقت کو جتنی جلدی سمجھ لے اتنا ہی اس کے لیے اور اس پورے خطے کے لیے بہتر ہے۔ ہمیں بھارت جیسے بظاہر بڑے ملک سے پنجہ آزمائی کا شوق نہیں ہے لیکن اپنی حفاظت کرنا جانتے ہیں اور بھارت کو اس کا علم ہونا چاہیے۔