حکومتی رویوں میں تبدیلی آخری حصہ
پہلے فرائض کی ادائیگی اور سنت رسولؐ پر عمل ضروری ہے پھر کوئی اور کام۔
ISTANBUL:
بزرگوں اور صوفیوں کی زندگی اور ان کی تبلیغ اسلام کی کاوشوں اور اس کے ثمرات کو نصاب میں مضامین کی شکل میں اگر شامل کردیا جائے تو بچہ شروع ہی سے اس بات سے آگاہ ضرور ہوگا کہ صوفیا کرام کی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ بزرگان دین نے اپنے کشف و کرامات اور اپنی عبادت و ریاضت کی بدولت بلند مقام پایا، قرآن کی تعلیم کو عام کیا اور جہالت کے بتوں کو پاش پاش کیا۔ کسی بھی بزرگ کی یہ وصیت نہیں تھی کہ وہ حق کا راستہ چھوڑ کر اوہام اور برائی کی طرف راغب ہوجائیں، رزق حلال پر یقین نہ رکھیں بلکہ رقص و سرود کی محفلیں سجا لیں۔
پہلے فرائض کی ادائیگی اور سنت رسولؐ پر عمل ضروری ہے پھر کوئی اور کام۔ جتنے بھی بزرگان دین گزرے ہیں وہ حق کی راہ کے مسافر تھے، حضرت لعل شہباز قلندر ہوں یا حضرت سلطان باہوؒ، یا حضرت سچل سرمستؒ، حضرت معین الدین چشتیؒ، ان سب نے سچائی کے دیے روشن کیے اور قرآن کی تعلیمات کو عام کیا، ان کے مریدوں نے ان سے کسب فیض حاصل کیا اور مخلوق خدا کی خدمت میں پیش پیش رہے ، انھیں دھن دولت سے کوئی واسطہ نہ تھا، دنیا ان کی نگاہ میں خس و خاشاک سے زیادہ نہ تھی۔ لیکن آج کے جعلی پیروں فقیروں نے معاشرے میں جہالت کی تاریکی کو دور دور تک پھیلادیا ہے۔
سادہ لوح لوگ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کے بجائے صرف منتیں مانگنے اور دعائیں کروانے تک محدود رہتے ہیں۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں۔ یہ جعلی پیر معصوم بچوں کو جان سے مارنے کی ترغیب دیتے ہیں اور کبھی یہ فریضہ خود بھی انجام دے ڈالتے ہیں بعد میں ماں باپ روتے پیٹتے اور سسکتے ہیں۔ وقتی طور پر نہیں بلکہ ساری عمر گریہ و زاری کرتے گزارتے ہیں۔ اس کی وجہ والدین کو نہیں معلوم کہ کون سا راستہ صراط مستقیم کا ہے اور کون سا غلط ہے، اس کی وجہ تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے حکمرانوں کی توجہ تعلیم کی طرف بالکل نہیں ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں تو تعلیم اور تعلیمی درسگاہوں پر منصوبہ بندی کے ساتھ شب خون مارا گیا ہے نیز اساتذہ کی ایسی کھیپ تیار کی ہے کہ جو صرف اور صرف تنخواہیں وصول کرتی ہے اپنی تنخواہ سے ان لوگوں کو بھی ماہانہ حصہ دیتی ہے۔ جنھوں نے انھیں مفت خوری کی طرف راغب کیا ہے۔ کسی زمانے میں جانوروں کے لیے اصطبل بنائے جاتے تھے، انھیں چارہ ڈالنے، پانی پلانے کے لیے مخصوص جگہیں مقرر تھیں لیکن گزشتہ حکومت اور سابقہ نے با قاعدہ اصطبل بنانے کی ضرورت کو ختم کردیا اور اپنے ڈھور، ڈنگروں کو اسکولوں میں منتقل کردیا گیا۔
اچھا ہی کیا ایک تیر سے دو شکار۔ ورنہ عمارتیں خالی ہی پڑی تھیں، فرنیچر کو جلانے کے کام میں لے لیا اور تختہ سیاہ چارہ کاٹنے اور برتن بھانڈے رکھنے کے لیے بریکٹ کے طور پر استعمال میں آگیا۔ رہ گئے درخت تو انھیں کاٹ کر پہلے سکھایا گیا اس کے بعد ایندھن کے طور پر چولہوں میں جلادیا گیا۔ ساتھ میں اضافی پیسے نے بھی خوشحالی کی بجائے نشے کو فروغ دیا اور خوب چرس و افیون کا کاروبار چمک اٹھا۔
لیکن افسوس صد افسوس، ایک نہیں، کئی نسلوں کو برباد کیا گیا۔ ان کے مستقبل داؤ پر لگ گئے، ادارے تباہ ہوگئے، لوگ بے روزگار ہوئے، ملازمت سے ہٹائے جانے والے اور تنخواہوں سے محروم افراد کے گھروں کے چولہے بجھ گئے۔ حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کی اکثر ای میل آتی ہیں گزشتہ دنوں ایمپلائیز نے تواتر سے تین چار میلز بھیجیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ملازمین کے خاندانوں کا معاشی قتل ہوا اور یہ بدترین سانحہ 1997 میں ظہور پذیر ہوا تھا۔
متاثرین انصاف اور حق تلفی کے ازالے سے محروم ہیں اور نجکاری کی دہشت گردی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اس دردناک واقعے کو 20-21 سال کا عرصہ گزر چکا ہے حکومت نے پلٹ کر بھی ان کا حال نہیں پوچھا، حالانکہ وہ دوبارہ اقتدار میں آگئے اور خوب اقتدار کے مزے لوٹے اور اب بھی لوٹ رہے ہیں لیکن جن کے گھروں کے چولہے بجھ گئے، بچے تعلیم سے محروم ہوگئے، فاقہ کشی نے خود کشی پر مجبور کردیا اور یہ مظلوم مہنگائی، بے روزگاری کے ہاتھوں افلاس کی دلدل میں اترتے چلے گئے۔
دیگر سرکاری اداروں کی تباہی میں بھی حکومتوں کا ہاتھ رہا ہے۔ ہزاروں ملازمین برطرف کیے گئے اس صورتحال کے پیش نظر غربت اور احساس کمتری نے لوگوں کو ذہنی بیمار کردیا ساتھ میں معاشی حالات کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی اور وہ گمراہی کی راہوں کے اندھے مسافر بن گئے۔
قوموں کے زوال کا اسباب حکومتیں ہوا کرتی ہیں۔ جنھیں اپنے ملک اور اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے وہ ان کی بھلائی اور بہتری کے لیے منصوبے بناتے اور عمل کرتے ہیں۔
پیپلز پارٹی ملک میں حکومت کرنے پر پورا یقین رکھتی ہے اور سندھ کو تو وہ ذاتی جاگیر سمجھتی ہے لیکن اس زمین پر پھل پھول بونے کی جگہ خار دار پودے لگاتی ہے جس سے لوگوں کے پیر اور دل و جگر زخمی ہوتے ہیں۔ کئی ماہ ہوچکے ہیں شہر کی کھدائی ہوئے، یونیورسٹی روڈ مہینوں سے پختہ ہونے کا منتظر ہے۔
توڑ پھوڑ تو کردی گئی ہے زمین ناہموار، ملبے کا جگہ جگہ ڈھیر، گاڑیوں کا چلنا مشکل، پچھلے دنوں بیت المکرم مسجد کے قریب دو بسیں الٹ گئیں کئی جانیں ان حادثوں کی نذر ہوگئیں، گھروں سے خوشیاں رخصت ہوئیں، اداسی اور محرومی نے ڈیرے ڈال لیے لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی کہ اس خونی حادثے کے بعد کام میں تیزی لائی جاتی، کراچی کی سڑکیں اپنی بربادی کی کہانی اپنی ہی زبانی سنا رہی ہیں۔ آفرین ہے یونیورسٹی روڈ کے اطراف میں رہنے والوں پر کہ کس قدر حوصلے اور ہمت کا ثبوت دے رہے ہیں۔
صابر اور شاکر ہیں یہ لوگ، ورنہ سخت گرمی میں ہچکولے کھاتی گاڑیاں 10 منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے کر رہی ہیں۔ مریض مزید بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں اس اچھل کود میں اچھے اچھے اپنے آپ کو خود ہی سنبھالنے اور احتیاط برتنے پر مجبور ہوگئے ہیں، کوئی متبادل راستہ بھی نہیں ہے۔ صبر کا پیمانہ لبریز ہوجانے کے باوجود احتجاج کرنے، آواز اٹھانے سے باز رہتے ہیں حال ہی میں کے ای کے خلاف جماعت اسلامی نے دھرنا دیا، تو گرفتاریاں عمل میں آگئیں۔ قبلہ درست نہیں کرتے بلکہ نمازیوں کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتے ہیں، یہ رویہ عوام کو حکومتی اداروں سے نفرت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔