گزشتہ دنوں کے احوال
ہمارے ملک میں گزشتہ دنوں مختلف قسم کی سیاسی، سماجی اور معاشی ہلچل نظر آئی
ہمارے ملک میں گزشتہ دنوں مختلف قسم کی سیاسی، سماجی اور معاشی ہلچل نظر آئی۔ اب یہ نہیں معلوم کہ واقعی یہ رہنما عوام کی خدمت کے لیے یہ مطالبات کررہے ہیں یا 2018 کے انتخابات کی تیاری ہے۔ بہرحال ہم تو اسی کا تجزیہ کریں گے جو کچھ وہ بول رہے ہیں یا کر رہے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما نے پانی، سیوریج اور سڑکوں کی بحالی کے مطالبات پر پریس کانفرنس اور مظاہرے کیے۔
ہم پی ایس پی کے رہنما کا نام اس لیے بھی نہیں لینا چاہتے کہ ان کا نام لینے، بڑھانے، چڑھانے اور پروموٹ کرنے والی بڑی بڑی قوتیں ہیں، میرے نام لینے یا نہ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پانی اور نکاسی آب کے مسائل کراچی میں حقیقتاً ایک گمبھیر مسئلہ ہے اور یہ حل ہونا بھی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بھی دو چار بڑے اہم مسائل ہیں اور وہ ہیں اسپتالوں، تعلیمی اداروں کی ناقص صورتحال، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری۔ ان حقیقی مسائل پر یہ رہنما خاموش ہیں۔ وہ ایک بار بھی نہیں کہتے کہ دال، چاول، آٹے کی قیمت کم ہونی چاہیے۔
اسی طرح ایک اور احتجاج، پریس کانفرنس اور اجتماع ایم کیو ایم پاکستان نے کیا، انھوں نے اردو بولنے والوں کے مسائل پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز میں اردو بولنے والے نہ ہونے کے برابر ہیں، انھوں نے خاص کر ڈپٹی کمشنرز پر کہا کہ سندھ میں ستائیس ڈپٹی کمشنرز ہیں، جن میں دو اردو بولنے والے ہیں۔ بات درست ہے۔ ڈپٹی کمشنرز سات یا آٹھ تو ہونے چاہئیں۔ مگر مسئلہ ڈپٹی کمشنرز کا نہیں ہے، مسئلہ ہے محنت کش عوام کا۔ کمشنرز ہوں یا ڈپٹی کمشنرز، یہ سب نوکر شاہی ہیں۔
محنت کش سندھی ہوں یا غیر سندھی، سب کی معاشی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی جارہی ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، بے گھری، لاعلاجی، ناخواندگی کی گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ اندرون سندھ کے ہاری زمینوں سے بے دخل ہوکر ملازمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور کام نہ ملنے پر بھوک سے مر رہے ہیں۔ کراچی میں بھی کارخانے بند ہوتے جارہے ہیں۔ بے روزگار لوگ چوری چکاری، گداگری، خودکشی یا پھر بیگانگی ذات کا نشانہ بن کر نشے کے عادی ہوجاتے ہیں۔
پورے صوبہ سندھ کے وڈیرے، سرمایہ دار خواہ دیہی علاقے کے ہوں یا شہری، امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں، جب کہ مزدور اور ہاری غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی بات کرنے کے بجائے کارخانے لگا کر اور زمین، بے زمین ہاریوں میں بانٹ کر لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے مطالبات سے گریزاں ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ایسا کیوں؟ ادھر جماعت اسلامی لوڈشیڈنگ کے خلاف کے الیکٹرک کی لوٹ مار پر احتجاج کررہی ہے۔ انھوں نے مظاہرہ بھی کیا ہے۔
بجلی کا مسئلہ بھی شہری عوام کا بڑا مسئلہ ہے لیکن یہ بھی دال دلیہ کی بات نہیں کرتے۔ شاید اس لیے نہیں کرتے کہ وہ بھی اقتدار میں آئے تو یہی سب کرنا ہے۔ پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت میں تھے اور اب بھی پختونخوا کی حکومت میں شامل ہیں۔ وہاں بھی بجلی کا مسئلہ ہے لیکن وہاں خاموش ہیں۔
ایم ایم اے کی جب حکومت تھی تو اس وقت جماعت اسلامی نے مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو نہیں پایا اور اب بھی پختونخوا میں بھوک، افلاس، مہنگائی اور لاعلاجی پہلے کی ہی طرح ہیں۔ وہ شاید اسی لیے بجلی کے مسائل کے ساتھ گوشت، انڈے، دالیں، دودھ، تیل اور ایندھن، چینی، چاول اور آٹے کی قیمت میں کمی کروانے کے لیے کوئی ہڑتال نہیں کررہے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بھی ان کے مسائل نہیں ہیں۔
ایک اور رہنما جن کا تعلق جے یو آئی سے ہے، ان کی پارٹی کا صد سالہ جشن تھا۔ نوشہرہ میں جے یو آئی کے رہنما اور سعودی عرب کے نمایندے نے اجتماع سے خطاب کیا۔ سعودی نمایندے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے مسلمان ایک ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ہیں، پاکستان کے ساتھ بھائی چارگی اور محبت چاہتے ہیں، پاکستان اسلامی اتحاد کو مستحکم کرے گا۔
بعد ازاں جے یو آئی کے رہنما نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذہب کے نام پر دہشت گردی کی مذمت کرتے ہیں، چین سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں، چین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں ہر رکاوٹ کو دور کریں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے اور سعودی عرب کے ساتھ امت مسلمہ کے اتحاد میں شامل ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اب مسئلہ ہے حقیقت کا۔ پاکستان کی سر زمین سے مدارس سے طالبان کو کامریڈ نجیب اللہ کی سامراج مخالف حکومت کو ختم کرنے کے لیے امریکا سی آئی اے کی رہنمائی میں بھیجا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ جب طالبان کے افغانستان صلح کروانے کے لیے جانے کے بعد حکومت پر قبضہ کرلیا، ڈا کٹر نجیب کو شہید کیا، تو اس حکومت کو دنیا کے صرف دو ممالک پاکستان اور سعودی عرب نے ہی تسلیم کیوں کیا؟ یہاں تک کہ جس امریکا کے اشارے پر افغانستان کی جاگیردار مخالف انقلابی حکومت ختم کرنے کی سرپرستی کی گئی، اس نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ اب بات رہی چین کی، تو ماؤزے تنگ کی چین کے بارے میں مذہبی جماعتوں کا رویہ مختلف رہا ہے، اس لیے کہ وہ سامراجی نہیں تھا۔ اب سامراجی چین سے تعلقات میں بہتری کی بات کی جارہی ہے۔
اب تو پاکستان چیمبر آف کامرس نے حکومت پاکستان کو مطالبہ پیش کیا ہے کہ چین کو تجارتی اور صنعتی میدان میں جو سہولتیں حکومت دے رہی ہے، وہی سہولتیں پاکستان کے صنعتکاروں اور تاجروں کو بھی دی جائیں۔ جہاں تک دہشت گردی کی بات ہے تو افغانستان اور پاکستان کے دہشت گردوں سے اب تک جتنی ملاقاتیں اور مذاکرات ہوئے ہیں، وہ ایک مذہبی و سیاسی جماعت نے ہی کروائے ہیں۔ سعودی عرب جسے اسلامی اتحاد کہہ رہا ہے وہشاید سعودی اتحاد ہے۔
اس اتحاد میں یمن، شام، عراق، ایران، کوہ قاف، ایشیائے کوچک اور بلقان مسلم ریاستیں شامل نہیں ہیں۔ بلکہ عالمی طور پر سامراجیوں کے دو مرکزے ترتیب پا رہے ہیں۔ ایک امریکا اور برطانیہ کی رہنمائی میں اور دوسرا مرکزہ روس اور چین کی رہنمائی میں۔ ان میں کوئی بھی عوام دوست نہیں ہے۔ یہ اپنے اپنے سامراجی مفادات کی خاطر یہ اتحاد اور فوجی مشقیں کررہے ہیں۔
عوام کے مسائل میں دن دگنا اور رات چار گنا اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ ان مسائل کا واحد حل ایک غیر طبقاتی سماج کی تشکیل میں ہی مضمر ہے، جہاں ساری دنیا کے لوگ سارے ذرایع پیداوار کے مالک ہوں گے۔ اسلحہ، پارٹیاں، جاگیرداری، سرمایہ داری، جائیداد، ملکیت، عدالتیں، میڈیا اور فوج کا خاتمہ کرکے عوام مقامی طور پر خودکار اور خود انحصار انجمنیں قائم کرکے اپنے مسائل خود حل کریں گے۔