قیادت کا فقدان اور اگلا انتخابی معرکہ
ہاں البتہ ان کے لیڈر بیان بازی میں خود کو سب سے قابل، ذہین، نیک اور پارسا تصور کیے بیٹھے ہیں
پانچ سالہ جمہوری و آئینی طریقہ کار کے مطابق ویسے تو عام انتخابات اگلے سال منعقد ہونے والے ہیں، لیکن نظریہ ضرورت کے تحت یہ اس سے قبل یعنی اسی سال بھی کرائے جاسکتے ہیں۔ قبل از وقت انتخابات کا انعقاد مستقبل قریب کے حالات و واقعات پر منحصر ہے۔ پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ اس ضمن میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ ہماری اپوزیشن جماعتوں کی تو بھرپور کوشش یہی ہے کہ یہ اسی سال کروادیے جائیں۔ لیکن حکمراں جماعت کسی طوریہ نہیں چاہے گی کہ وہ اپنی دستوری مدت پوری کیے بنا نئے الیکشن کے دلدل میں پھنس جائے۔
اس کی حتی المقدور کوشش یہی ہوگی کہ نئے الیکشن 2018 میں ہی ہوں۔ ویسے بھی حکومت نے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے قوم کو یہی نوید سنائی ہے کہ 2018ء تک وہ اس وعدے کی تکمیل میں سرخرو ہوجائے گی۔ گرچہ توانائی کا بحران جس شدت کے ساتھ ابھی تک موجود ہے بہت کم امکانات ہیںکہ یہ بحران اگلے سال تک حل ہوجائے گا۔ حکومت چاہے اپنی اس ناکامی کاکوئی اور جواز تلاش کرلے کہ سی پیک اور نئے نئے ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بجلی کی کھپت اور ڈیمانڈ بہت بڑھ گئی ہے، ورنہ اس نے تو کئی ہزار میگاواٹس کا اضافہ نیشنل گرڈ میں کردیا تھا۔ یا پھر یہی بہانہ تراشنا شروع کردے کہ لوڈشیڈنگ صرف انھی علاقوں میں ہورہی ہے جہاں سے بجلی کے بلوں کی وصولی پچاس فیصد سے کم ہے۔
نئے متوقع الیکشن اور نئی حکومت کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یہ کہنا قبل ازوقت محسوس ہوتا ہے کہ کون سی سیاسی پارٹی اگلا الیکشن جیت کر وفاق میں حکومت بنا پائے گی۔ ایک سال پہلے تک بیشتر تبصرہ نگاروں کا یہ خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) ہی 2018ء میں حکومت بنائے گی بشرطیکہ وہ کوئی بہت بڑی غلطی نہ کردے۔ لیکن اچانک منظرعام پر آجانے والے پاناما کیس نے اس کی مقبولیت پر ایسا ڈینٹ مارا ہے کہ اب سارے تبصرے اور تجزیے تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ حکومت کی اخلاقی ساکھ اس کیس سے بہت متاثر ہوئی ہے اور آنے والے دنوں میں مزید خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔
اس کی چار سالہ کارکردگی کے وہ نتائج بھی برآمد نہیں ہو پارہے ہیں جس کی توقع کی جارہی تھی۔ لہٰذا اب یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں کوئی واضح برتری حاصل کر پائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے علاوہ دیگر سیاسی پارٹیوں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ حالیہ دنوں میں میاں نواز شریف کی مقبولیت اگر کچھ کم ہوئی ہے تو ان کے مقابل دیگر سیاسی رہنماؤںنے بھی اس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔
ہمارے لوگوں کی یہ مجبوری ہے کہ اسے موجودہ سیاسی کھیپ میں ہی سے کسی کو اگلے دورِ حکومت کے لیے منتخب کرنا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی لیڈر شپ ابھی تک قائدانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر عوام میں وہ امیج نہیں بنا پائی کہ جنھیں دیکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ واقعی قائداعظم محمد علی جناح اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکے بعد اگر کوئی شخصیت عوام کی والہانہ محبت اور پذیرائی حاصل کر پائی ہے تو وہ یہ شخصیت ہے۔
عمران خان کو بھی ان کے پرستار صرف اسی بنیاد پر آزمانا چاہتے ہیں کہ انھیں ابھی تک وفاق میں حکمرانی کا موقع نہیں ملا، ورنہ ان کے اندر بھی عوام الناس کے دل جیت لینے والی ویسی کشش اور جاذبیت دکھائی نہیں دیتی جیسی قائداعظم کے بعد بھٹو صاحب میں تھی۔ بھٹو صاحب کو ہم بلاشبہ ایک ایسا عوامی لیڈر کہہ سکتے ہیں جسے سارے پاکستان نے غریب اور متوسط طبقے کی زبردست حمایت اور پذیرائی حاصل تھی۔
اس کے علاوہ عالمی افق پر بھی بہت قابل اور نامور لیڈر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ان کے بعد پاکستان میں ابھی تک کوئی ان کے پائے کا لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ قطع نظر اس کے کہ ان سے دانستہ و غیر دانستہ کیا اور کیسی غلطیاں سرزد ہوئیں تھیں لیکن قائدانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کے وہ سب سے بڑے حامل لیڈر تھے۔ دنیا کی تاریخ میں ایسے بہت کم لیڈر پیدا ہوئے ہیں جنھیں ملکی و عالمی دونوں سطح پر زبردست پذیرائی حاصل ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کرپٹ بھی نہیں تھے وہ پاکستان اور اپنے عوام سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔
ہمارے ملکی سیٹ اپ میں اس وقت صرف تین سیاسی پارٹیاں ایسی ہیں جنھیں ہم اپنے اگلے حکمرانوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی دیگر تمام سیاسی پارٹیاں صرف ووٹ کی تقسیم کے تحت کسی دوسرے کے جیتنے اور ہارنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ ان میں بہت سی پارٹیاں تو ابھی پیدائش کے ابتدائی مراحل ہی سے گزر رہی ہیں۔ جیسے سابق صدر پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی پاکستان جسٹس پارٹی۔ یہ دونوں نئی نئی سیاسی پارٹیاں ابھی تک اس قابل نہیں ہوئی ہیں کہ آنے والے انتخابات میں ایک سیٹ بھی نکال سکیں۔
ہاں البتہ ان کے لیڈر بیان بازی میں خود کو سب سے قابل، ذہین، نیک اور پارسا تصور کیے بیٹھے ہیں۔ پرویز مشرف اپنی سابقہ کارکردگی کے بنیاد پر یہ گمان کیے بیٹھے ہیں کہ عوام انھیں دوبارہ برسرِ اقتدار لے آئیں گے۔ حالانکہ انھوں نے اپنے نو سالہ ماورائے آئین دوراقتدار میں ایسا کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا کہ عوام یہ کہہ سکیں کہ وہ باقی تمام سیاسی لیڈروں سے بہتر اور افضل ہیں۔ یہی حال کچھ سابق چیف جسٹس صاحب کا بھی ہے۔ پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ جانے والے اس شخص کو جب اپنی بحالی کے بعد انصاف اور عدل پر مبنی فیصلے کرنے کا موقع ملا تو وہ بھی عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر پائے۔ خاص کر اپنے بیٹے کے معاملے میں وہ خود کو ایک غیر جانبدار منصف ثابت نہیں کر پائے۔
اس کے علاوہ بھی وہ ہماری عدلیہ کی تاریخ میں صرف چھوٹی چھوٹی باتوں پر سوموٹو لینے والے جج کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں، لیکن ان کے نامہ اعمال میں کوئی بھی فیصلہ اورکارنامہ ایسا نہیں ہے جسے ہم منفرد اور تاریخی فیصلہ قرار دے سکیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک خود ہی اپنی سیاسی پارٹی کے واحد رکن اور سربراہ ہیں۔ لہٰذا ان دونوں شخصیات کا آیندہ ہونے والے الیکشن میں ہم کوئی مقام نہیں دیکھ رہے۔ باقی دیگر سیاسی پارٹیوں میں مسلم لیگ (ق)، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، اور جماعت اسلامی کی لیڈرشپ بھی ہنوز اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ سارے ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کردی جائے۔ وہ صرف اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں ہی کچھ سیٹوں کے حقدار تصور جاتے ہیں۔ ان کی لیڈرشپ میں یہ صلاحیت اور قابلیت دکھائی ہی نہیں دیتی ہے کہ وہ سارے ملک کے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرپائیں۔
ایسی صورت حال میں ہمارے عوام کے پاس صرف یہی آپشن رہ جاتا ہے کہ وہ تین بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے کسی ایک کو حق حکمرانی عطا کریں۔ مگر زمینی حقائق اور معروضی حالات اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ اگلے الیکشن میں شاید ہی کسی ایک کو واضح برتری حاصل ہوپائے۔ زیادہ قوی امکان یہی ہے کہ اس بار کسی کو بھی فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہوگی اور وہ سیاسی جوڑ توڑ کے بعد کولیشن حکومت بنانے پر مجبور دکھائی دیں گے۔