کہاں سے ہوئی ابتدا پاناماکیس کا پس منظر اورنشیب وفراز

رپورٹ کو وکی لیکس کی مناسبت سے ’پاناما پیپرز لیکس‘ کا نام دیا گیا تھا۔


رپورٹ کو وکی لیکس کی مناسبت سے ’پاناما پیپرز لیکس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

چار اپریل 2016ء کو جرمن اخبار زیتوشے زاؤتونگ نے پاناما پیپرز کا خلاصہ شایع کرکے دنیا میں ہلچل مچادی۔

تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیئم (آئی سی آئی جے)کی ایک سال سے زاید عرصے طویل تحقیقات کے بعد شائع ہونے والی اس رپورٹ کو وکی لیکس کی مناسبت سے 'پاناما پیپرز لیکس' کا نام دیا گیا تھا۔ ان دستاویزات میں آف شور کمپنیوں، ان کے مالکان یا بینیفشریز کے نام اور تفصیلات موجود تھیں۔ ان میں دیگر پاکستانی شخصیات کے علاوہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز کے نام بھی شامل تھے۔

افشا ہونے والی دستاویزات ظاہر کررہی تھیں کہ نوازشریف کے تین بچوں کی آف شور کمپنیاں اور اثاثے ہیں جو ان کے خاندانی اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے گئے تھے۔ ان کمپنیوں کو غیرملکی اثاثے حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا جن میں لندن کے مے فیئر علاقے میں پارک لین کے قریب اپارٹمنٹس کی خریداری شامل ہے۔

ان دستاویزات کے افشا ہونے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتوں، بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی توپوں نے وزیراعظم کو نشانے پر رکھ لیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے بچوں کے نام پر اثاثے بنائے اور منی لانڈرنگ کی۔

٭پاناما لیکس کے فوری بعد وزیراعظم کے بچوں اور مسلم لیگ (ن) کے وزراء کی جانب سے وضاحتی بیانات سامنے آئے۔ حسین نواز نے بیرون ملک جائیداد اور آف شور کمپنیاں تسلیم کرتے ہوئے کہاں کہ انھوں نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔

٭اپوزیشن کی جانب سے کڑی تنقید اور میڈیا میں زیربحث اس معاملے نے اگلے ہی روز وزیراعظم کو قوم سے خطاب کرنے پر مجبور کردیا۔ دوران خطاب انھوں نے اپنے بچوں کے کرپشن اور غیرقانونی کاموں میں ملوث ہونے کی تردید کی اور اس معاملے کی جانچ پڑتال کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔

٭حزب اختلاف نے جوڈیشل کمیشن کا اعلان مسترد کرتے ہوئے اس معاملے پر سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ دینے اور ان الزامات کی انکوائری چیف جسٹس آف پاکستان سے کروانے کا مطالبہ کیا۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں انھوں نے عوامی احتجاج اور لاہور میں نوازشریف کے گھر کا گھیراؤ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اس دھمکی کے بعد پی ٹی آئی اور نون لیگ کے درمیان لفظی جنگ نے زور پکڑ لیا۔ پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور قومی اسمبلی و سینیٹ میں تحاریک التوا بھی جمع کروائی گئیں۔ اس فضا میں حکومت نے کئی ریٹائرڈ ججوں سے انکوائری کمیشن کے لیے رابطہ کیا مگر سبھی نے یہ پیش کش مسترد کردی۔ چند روز کے بعد اپوزیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ۔

٭22 اپریل 2016ء کو وزیراعظم نے ایک بار پھر قوم سے خطاب کیا۔ دوران خطاب انھوں نے ایک بار پھر اپنی ذات اور اپنے خاندان کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کے لیے قیام کے لیے چیف جسٹس کو خط تحریر کریں گے۔ وہ اس کمیشن کی سفارشات قبول کریں گے اور اگر ان پر الزامات ثابت ہوئے تو وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ کر خاموشی سے گھر چلے جائیں گے۔

٭اگلے ہی روز حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو کمیشن کی تشکیل کے لیے خط لکھ دیا گیا۔ پی پی پی کی جانب سے اسے پارلیمنٹ کی کام یابی قرار دیا گیا، مگر پاکستان تحریک انصاف نے مجوزہ عدالتی کمیشن کا اعلان مسترد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کمیشن میں انٹرنیشنل فارنسک آڈیٹرز کو شامل کیا جائے اور اس کے ضوابط کار (ٹی او آرز) حزب اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے طے کیے جائیں۔

٭چیف جسٹس انورظہیر جمالی نے حکومتی ٹی او آرز پر کمیشن تشکیل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ان کے مطابق تحقیقات میں کئی برس لگ جائیں گے۔

٭16 مئی کو وزیراعظم قومی اسمبلی میں آئے اور پالیسی بیان دیتے ہوئے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ کمیٹی بنانے کی تجویز دی۔ اپوزیشن کی جماعتوں نے پوچھے گئے سات سوال نظرانداز کرنے پر اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔

٭ اگلے روز حزب اختلاف کی جماعتوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا بائیکاٹ ختم کرکے پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم کی تجویز کردہ پارلیمانی کمیٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جوڈیشیئل کمیشن کی تشکیل کے لیے ضوابط کار کے معاملے پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

٭ حکومت اور اپوزیشن کا، دونوں جانب سے چھے چھے اراکین پر مشتمل، بارہ رکنی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہوگیا۔ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مقصد تحقیقاتی کمیشن کے لیے ضوابط کار ( ٹی او آرز) طے کرنا تھا۔ تاہم آٹھ اجلاسوں کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کے مابین ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہوسکا۔ بالآخر اپوزیشن نے اس کمیٹی کا بائیکاٹ کردیا۔

٭27 ستمبر کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی انکوائری اور وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کی کھلی عدالت میں سماعت کا فیصلہ کیا۔

٭20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر وزیراعظم اور ان کے بچوں سمیت دیگر افراد سے جواب طلب کرلیا۔

٭ یکم نومبر کو پاناما کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا اور فریقین سے کمیشن کے ٹی او آرز طلب کرلیے۔ کمیشن کی تشکیل کے فیصلے پر پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں دو نومبر کا دھرنا یوم تشکر میں تبدیل کردیا۔ مجوزہ کمیشن پر پی پی پی نے کہا کہ کمیشن اگر پاناما پیپرز انکوائری بل کے تحت تحقیقات کرے، تو اسے تسلیم کیا جائے گا۔

٭ تین نومبر کو سپریم کورٹ نے پاناما کیس کو قابل سماعت قرار دے دیا۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے قرار دیا کہ یک رکنی جوڈیشیئل کمیشن قائم کیا جائے گا جو عدالت عظمیٰ کے حاضر سروس جج پر مشتمل ہوگا۔ اس دوران وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ جواب میں موقف اختیار کیا کہ پاناما کیس میں نہ ان کا نام ہے ، نہ ہی وہ کسی بچے کی کفالت کررہے ہیں۔

٭ سات نومبر کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سب سے پہلے وزیراعظم کا معاملہ دیکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے کیس سے متعلق شواہد جمع کروانے کے لیے فریقین کو 15نومبر تک کی مہلت دے دی۔ سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی کہ متعلقہ مواد کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

٭ سینیٹر اعتزاز احسن کی جانب سے سینیٹ کمیٹی میں پیش کردہ پاناما بل حکومتی مخالفت کے باوجود دسمبر میں منظور ہوگیا۔ اس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان نے اسے وزیراعظم کو بچانے کی کوشش قرار دیا۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے اب جوڈیشیئل کمیشن کے قیام کی بھی مخالفت کردی۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے ہی پاناما کیس کی تحقیقات کے طریقۂ کار پر پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے راستے اپوزیشن کی جماعتوں سے الگ کرلیے تھے۔

٭ 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم کی جانب سے دوسری دستاویزات کے ساتھ قطر کے شہزادے اور سابق وزیرخارجہ حمد بن جاسم بن جابرالثانی کا خط پیش کیا گیا جس کی رُو سے لندن کے فلیٹ شریف خاندان اور ان (شہزادے) کے مشترکہ کاروبار میں ہونے والے نفع سے خریدے گئے تھے۔

٭اگلی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر اور تحریر جواب میں تضاد موجود ہے۔ دوران سماعت ججز نے کئی سوال بھی اٹھائے کہ جدہ فیکٹری کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ رقم لندن کیسے گئی؟

٭ چھے دسمبر کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے تین سوال کیے کہ بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟ مریم زیرکفالت ہیں یا نہیں؟ اور تقریروں میں سچ بولا گیا یا نہیں؟ اگلی پیشی کے موقع پر سپریم کورٹ نے فریقین کی جانب سے اب تک پیش کردہ شواہد کو نامکمل قرار دیتے ہوئے استفسار کیا کہ کیوں نہ کمیشن بنادیا جائے؟ اس حوالے سے عمران خان نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ پاناما کیس کا فیصلہ خود کرے، نیز وزیراعظم کے استعفی کی صورت میں وہ کمیشن کی تشکیل قبول کرلیں گے۔

٭ انور ظہیر جمالی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنوری 2017ء کے ابتدائی ہفتے میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے حکم پر جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں نئے پانچ رکنی بنچ نے پاناما کیس کی روزانہ سماعت شروع کردی۔

٭پاناما کیس کی ازسرنو سماعت شروع ہونے کے بعد عدالتی ہدایت کے مطابق فریقین کی جانب سے مزید دستاویزات جمع کروائی گئیں۔ ایک سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صرف دلائل پر انحصار نہیں کریں گے بلکہ عدالت کی اپنی ریسرچ بھی جاری ہے۔

٭11 جنوری کو تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل مکمل کرلیے۔ دوران سماعت عدالت نے پاناما لیکس کی ازخود نوٹس لینے کی استدعا مسترد کردی۔

٭ایک سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اگر وزیراعظم نے پارلیمان میں جھوٹ نہیں بولا تو استثنی کیوں مانگا جارہا ہے۔ معزز عدالت نے کہا کہ برطانوی عدالت فیصلہ دے چکی کرپشن کو استثنیٰ حاصل نہیں، نیز وزیراعظم کو وہ استثنیٰ حاصل نہیں جو آرٹیکل 248 کے تحت صدر اور گورنر کو حاصل ہے۔

٭عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان سے ایک سماعت کے دوران سوال کیا کہ حسین نواز نے والد کو 52 کروڑ کا تحفہ دیا، یہ رقم کہاں سے آئی؟ کیا تحفے کالا دھن سفید کرنے کی کوشش تو نہیں؟

٭ اس دوران لندن فلیٹس کی منی ٹریل کے سلسلے میں نون لیگ کی جانب سے قطری شہزادے کا ایک اور خط سپریم کورٹ میں جمع کروادیا گیا۔ وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے داخل کردہ جواب میں کہا گیا کہ نوازشریف نہ فلیٹوں کے مالک ہیں اور نہ ہی انھوں نے پارلیمنٹ میں دوران تقریر غلط بیانی کی۔

٭ مختصر وقفے کے بعد15 فروری کو کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کوئی فریق مکمل سچ سامنے نہیں لارہا، ہم دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔

٭ وزیراعظم اور ان کے بچوں کے وکلاء کی جانب سے دلائل اور تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے جواب الجواب مکمل ہونے کے بعد 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔ اس موقع پر پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا کیس نہیں ہے جس میں مختصر فیصلہ سنایا جائے۔ کچھ وقت لیں گے۔ تمام دستاویزات اور شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد مناسب وقت پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا جائے گا۔

٭پاناما کیس کی مجموعی طور پر 36 سماعتیں ہوئیں۔ ان میں سے دس سماعتیں سابق چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیں۔ باقی 26 سماعتیں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیں۔

٭ ہر سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر حکومتی وزراء اور پی ٹی آئی کے راہ نماؤں کی پریس کانفرنس معمول بن گئی۔ ہر فریق کے بیانات سُن کر یوں لگتا جیسے مخالف فریق مقدمہ ہار چکا ہے، اور سپریم کورٹ سے فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ دوسری جانب دوران سماعت معزز ججوں کے ریمارکس سے اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ پاناما کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں