شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانویآخری حصہ

ابتدائے آفرینش سے یہی ہوتا رہا ہے اور قیامت تک لگتا ہے یہی کچھ ہوتا رہے گا


یونس ہمدم April 22, 2017
[email protected]

ساحر لدھیانوی نے بڑی سچائی کے ساتھ اپنے اس گیت میں انسان کی بے ثباتی کا ذکر کیا ہے:

مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے
کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے کچھ نغمہ گا کر چلے گئے
وہ بھی اک پل کا قصہ تھے میں بھی اک پل کا قصہ ہوں
کل تم سے جدا ہوجاؤں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں
میں پل دو پل کا شاعر ہوں
کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے
مجھ سے بہتر کہنے والے تم سے بہتر سننے والے
کل کوئی مجھ کو یاد کرے کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے
مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے
میں پل دو پل کا شاعر ہوں پل دو پل مری کہانی ہے
پل دو پل میری ہستی ہے پل دو پل مری جوانی ہے

یہ گیت لکھا تو ساحر لدھیانوی نے تھا مگر اس میں جو فلسفہ تھا وہ ایک فلمی شاعر سے کہیں بڑھ کر ساحر لدھیانوی کو عظمت کی بلندی تک لے جاتا ہے۔ اس گیت میں ساحر ایک درویش نظر آتا ہے۔ ایک فقیر منش انسان کا روپ نظر آتا ہے۔ اب میں آتا ہوں ساحر لدھیانوی کے ایک ایسے گیت کی طرف جس گیت میں انسانی حقیقت کو اس کے اصلی رنگ میں پیش کیا ہے۔ ساحر ہمیشہ ہی سے انسان کی اونچ نیچ کے خلاف تھا۔

انسانوں کے درمیان عدم مساوات کے خلاف تھا۔ انسانوں کے درمیان چھوٹے بڑے طبقوں کے خلاف تھا۔ اسے نفرت تھی ان لوگوں سے جو انسان ہوتے ہوئے بھی زمین پر خدا بن جاتے ہیں اور پھر انسانوں کو مذہب کے نام پر تقسیم در تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں ۔ ابتدائے آفرینش سے یہی ہوتا رہا ہے اور قیامت تک لگتا ہے یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ دنیا میں ہر بچہ معصوم پیدا ہوتا ہے اور وہ انسان ہی کہلاتا ہے مگر پھر اسے ہمارا معاشرہ مذہب کی بنیاد پر عقیدوں کی بنیاد پر مختلف طبقوں میں تقسیم کردیتا ہے اور پھر انسان خود غرض ہوتا چلا جاتا ہے۔ انا پرست بن جاتا ہے ساحر کا یہ گیت بھی انتہائی حقیقت پسندانہ ہے مگر اس گیت کو اس دور میں مذہبی ٹھیکے داروں نے ناپسند کیا تھا اور یہ گیت متنازع بنادیا گیا تھا۔ اور وہ گیت یہ تھا جسے ساحر نے فلم ''دھول کا پھول'' کے لیے لکھا تھا جس کے فلمساز جی آر چوپڑا تھے:

تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا
اچھا ہے ابھی تک تیرا کچھ نام نہیں ہے
تجھ کو کسی مذہب سے کوئی کام نہیں ہے
جس علم نے انسان کو تقسیم کیا ہے
اس علم کا تجھ پر کوئی الزام نہیں ہے
تو بدلے ہوئے وقت کی پہچان بنے گا
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
.........
تو امن کا اور صلح کا ارمان بنے گا
یہ دین کے تاجر یہ وطن بیچنے والے
انسان کی لاشوں کے کفن بیچنے والے
یہ محلوں میں بیٹھے ہوئے قاتل یہ لٹیرے
کانٹوں کے عوض روحِ چمن بیچنے والے
تو ان کے لیے موت کا اعلان بنے گا
انسان کی اولاد ہے انسان بنے گا

اس گیت نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے معاشرے کی جن برائیوں کو اور انسانوں کی بربادیوں کو پیش نظر رکھا تھا آج بھی وہی برائیاں بجائے کم ہونے کے اور بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ انسان مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انسانوں کی دنیا میں انسان ہی قہر برسا رہے ہیں۔ ہر مذہب نے تو انسانیت کا سبق پڑھایا ہے ہر مذہب نے انسانوں کو بھلائی کا پیغام دیا ہے مگر مذہب کو آج صرف دنیاوی ضرورت اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انسان ہی انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں۔ انسان ہی انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ آج بھی انسانیت رو رہی ہے، سسک رہی ہے، بلک رہی ہے اور انا پرست لوگ صداقت، دیانت اور انصاف کی بیخ کنی پر اترے ہوئے ہیں وہ زمین پر خدا بنے ہوئے ہیں۔

ساحر لدھیانوی کے نظریات سے لوگ انحراف کرسکتے ہیں مگر ساحر کے اشعار کی سچائیوں سے کبھی منہ نہیں موڑ سکتے۔ ساحر کل کا بھی سچا شاعر تھا ، ساحر آج کے دور کا بھی شاعر ہے۔ اور اس کی شاعری برسوں تک انسانیت کا درس دیتی رہے گی۔ ساحر لدھیانوی کی شاعری ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ساحر لدھیانوی کو جب یہ پتا چلا تھا کہ میوزک کی تمام بڑی بڑی کمپنیاں موسیقاروں اور شاعروں کو ان کے گیتوں پر سب سے کم رائلٹی دیتی ہیں اور ہر گیت پر سب سے زیادہ رائلٹی گلوکاروں اور گلوکاراؤں کو ملتی ہے تو ساحر لدھیانوی نے اس پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اب اس وقت تک کسی فلم کے لیے گیت نہیں لکھوں گا جب تک ہر میوزک کمپنی اس بات کا فیصلہ نہ کردے کہ وہ فلم کے ہر گیت پر شاعر اور موسیقار کو گیت گانے والے فنکاروں سے زیادہ رائلٹی ادا کرے گی اور پھر ہر میوزک کمپنی نے مجبور ہو کر ساحر کے فیصلے کے آگے اپنا سر جھکا دیا تھا۔

ساحر نے یہ بھی کہا تھا کہ پہلے گیت تخلیق کیا جاتا ہے جسے شاعر اپنے خون جگر سے لکھتا ہے پھر اس گیت کو دلکش موسیقی میں موسیقار ڈھالتا ہے اور ان مرحلوں کے بعد پکی پکائی چیز گانے والوں کو دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے رائلٹی کے سب سے زیادہ شاعر اور موسیقاروں کو حقدار ہونا چاہیے۔ ساحر کی بات تسلیم کرلی گئی تھی۔ مگر گلوکارہ لتا منگیشکر نے ساحر لدھیانوی کی بات کا بڑا برا منایا تھا، پھر ساحر نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ اب اس کے گیتوں کو لتا منگیشکر نہیں گائے گی۔ اس دوران ساحر کے زیادہ تر گیت گیتا دت، سدھا ملہوترہ، شمشاد بیگم اور جگجیت کور کی آوازوں میں ریکارڈ کیے جاتے تھے جب کہ گلوکار محمد رفیع اور مکیش نے ساحر لدھیانوی کی بات کو صحیح قرار دیا تھا، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لتا منگیشکر کو بھی اپنی رائے بدلنی پڑی تھی۔

ساحر لدھیانوی وہ شاعر تھا جس کے گیتوں پر سب سے زیادہ ایوارڈز دیے گئے تھے حکومت ہند نے بھی پدما شری ایوارڈ سے نوازا تھا۔ اور روس کی طرف سے بھی ساحر لدھیانوی کو ادب کا لینن ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ ساحر لدھیانوی کے پاس شہرت، عزت، عظمت اور دولت کی کمی نہیں تھی۔ صرف کمی تھی تو زندگی میں چین و سکون کی جو صرف عورت کی ذات ہی سے میسر ہوسکتا تھا۔ آخری دنوں میں جب ساحر بیمار رہنے لگا تھا تو اسے بے خوابی کے ساتھ تنہائی بھی بری طرح ستانے لگی تھی۔

اس کا مزاج بھی چڑچڑا ہوگیا تھا وہ دوستوں سے بھی ملنے سے کترانے لگا تھا اور ڈپریشن کا شکار ہوچکا تھا۔ ساری ساری رات جاگتا رہتا تھا۔ بستر پر لیٹتا تھا تو نیند اس سے کوسوں دور رہتی تھی اکثر گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھتا تھا۔ برآمدے میں جاکر ٹہلنے لگتا تھا۔ ساحر غم دو جہاں کا مارا ہوا انسان تھا اس کی تنہائی آہستہ آہستہ اس کو موت کی منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔ 27 اکتوبر 1980 کا دن اس کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا اور ساحر لدھیانوی دل کا شدید دورہ پڑنے کے بعد پھر جانبر نہ ہوسکا اور اس طرح دنیائے شاعری کا شہزادہ ساحر لدھیانوی ان گنت امر گیتوں کا خالق اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور اسے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے (آمین)۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں